... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
غزہ کی زمینی جنگ میں مجاہدین اسلام جہاں عزیمت کے چراغ روشن کررہے ہیں، وہیں اسرائیلی فوجیوں کی بھی بہت بڑی تعداد جہنم رسید ہوچکی ہے ۔ اس کے علاوہ ہزاروں فلسطینی خواتین اور بچوں کو بھی شہید کیا جاچکا ہے ۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر رائے عامہ کا معرکہ بھی برپا ہے ۔ اس کو ناپنے کا ایک پیمانہ اقوام متحدہ ہے ۔ اس کی جنرل اسمبلی کے اجلاس دو مرتبہ بدلتی عالمی رائے عامہ کی تصویر پیش کرچکا ہے ۔ابھی حال میں فوری جنگ بندی کی قرار داد 153 ملکوں کی حمایت سے منظور ہوگئی اور اس کے حامیوں میں ہندوستان بھی شامل تھا ۔پہلے تو یاہو کے ہندوستان کی غیر حاضری پر اعتراض تھا ۔اب اس کھلی مخالفت پر اس کے ردعمل کا انتظار ہے ۔ اس قرار داد کے خلاف امریکہ اور اسرائیل سمیت صرف 10 ممالک تھے جبکہ 193میں سے 23 ملکوں نے خود کو الگ تھلگ کرلیاتھا ۔ جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کی قرار داد کی منظوری کو اقوام متحدہ میں فلسطین کے مندوب نے تاریخی ٹھہرایا۔افسوس کہ اجلاس عام کی قرار داد پر عمل درآمد لازمی نہیں ہوتا یعنی اس پر عمل نہ کرنے والوں پر کارروائی نہیں کی جاتی۔یہی وجہ ہے کہ ایک دلچسپ پوسٹر میں لکھا گیا ہے کہ آپ جب بھی خود کو بے مصرف محسوس کریں تو یاد رکھیں کہ اقوام متحدہ موجود ہے ۔
7 اکتوبر کے بعد 22 ویں روز یعنی 28اکتوبر 2023 کو بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اردن کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کے مسودے کو منظوری ملی تھی۔ اس وقت غزہ کی پٹی میں فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیاتھا ۔ اس کی حمایت کل 120 ملکوں نے کی تھی اس میں 33 ممالک کا اضافہ ہوا ہے ۔ مخالفین 14 ممالک تھے جس میں سے چار کم ہوئے اور جو 45 ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا ان میں سے بھی 22 کا ضمیر بیدار ہوگیا ہے ۔ اس وقت اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا تھا کہ یہ قدم سلامتی کونسل کی دو امریکی اور ایک روسی قراردادوں پر متفق ہونے میں ناکام ہونے کے بعد اٹھایا گیا بلکہ جملہ 4 کوششیں ناکام ہوئیں ۔9 دسمبر 2023 کو جب متحدہ عرب امارات نے سلامتی کونسل میں غزہ کے اندر انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کی قرار داد پیش کی تو 15 میں سے 13 ارکان نے قرارداد کی حمایت کی، جبکہ برطانیہ غیر حاضر رہا مگر امریکی مندوب نے اسے ویٹو کردیا۔ اس قرار داد کو پیش کرنے والے متحدہ عرب امارات نے اسے ویٹو کیے جانے پر اظہار مایوسی کیا تھا ۔اقوام متحدہ میں قطری مندوب عالیہ احمد سیف الثانی نے اپنے خلیج تعاون کونسل کے ا رکان ممالک کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کوشہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کیخلاف جارحیت کرنے والاقانونی مجرم گردانا تھا ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ کے شہریوں کو اجتماعی سزا نہیں دی جاسکتی۔ان ساری باتوں کے باوجود بمباری جاری رہی اور اقوامِ عالم تماشائی بنی رہیں ۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی ارکان کی حمایت و مخالفت میں خاصی تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔ اس سے قبل 17اکتوبر ( 2023) کو جب پہلی بار روس نے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی میں ‘انسانی بنیادوں پر جنگ بندی’ کا مطالبہ کرنے سے متعلق قرارداد پیش کی تو اس کے حق میں پانچ اور مخالفت میں چار ووٹ آئے تھے جبکہ چھ ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا ۔ اس طرح اس پر بحث ہی نہیں ہوسکی اور روس کے مندوب نے سلامتی کونسل کو “مغربی دنیا کی خود غرضی کا یرغمال کہہ ڈالا۔ فلسطینی مندوب ریاض منصور نے بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سلامتی کونسل فلسطینیوں کے قتل عام کو جائز قرار دیتی ہے اور مقتول کو مورد الزام ٹھہراتی ہے ۔ ہم کسی شہری کا قتل نہیں چاہتے ، خواہ فلسطینی ہو یا اسرائیلی۔ انہوں نے یاد دلایا تھا کہ اسرائیل غزہ میں قتل عام کر رہا ہے اور مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ 17اکتوبر سے 9 دسمبر کے نتائج کا موازنہ کریں تو سلامتی کونسل میں بھی اسرائیل کا آقا امریکہ یکا و تنہانظر آرہا ہے۔
معروف امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز نے اعتراف کیا ہے کہ نیتن یاہو اور اس کی انتہا پسند حکومت کے حوالے سے بائیڈن کے بیانات 7 اکتوبر کے بعد سے مسلسل تبدیل ہوئے ہیں جو ان کے درمیان اختلافات کے غماز ہیں ۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر کھل کر تنقید بھی کی ہے ۔بائیڈن نے زور دے کر کہا تھا کہ موجودہ سرکار اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ سخت گیر حکومت ہے اور وہ دو ریاستی حل نہیں چاہتی۔ نیتن یاہو کو اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی۔انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ نیتن یاہو کو اسرائیلـ فلسطین تنازع کا طویل مدتی حل تلاش کرنے کے لیے انہوں نے اسرائیلی سرکار کوموقف تبدیل کرنے کا حکم دیا۔بائیڈن کے مطابق اسرائیل دنیا بھر میں حمایت کھونے لگا ہے ۔بائیڈن نے یہ اعتراف بھی کیا کہ “اسرائیل کی حمایت کے سبب امریکہ اپنی اخلاقی حیثیت کھورہا ہے ۔ اس معاملے میں امریکہ یورپ کی حمایت پر بھروسا کر سکتا تھا ، لیکن اب یورپ کی پشت پناہی بھی اسرائیل کھونے لگا ہے یعنی یہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ ‘ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے’۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ماضی کی غلطیوں کا برملا اعتراف کرتے ہوئے اسرائیل کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ ایسی غلطیاں نہ کریں جو ہم نے 11 ستمبر کو کی تھیں۔ افغانستان پر قبضہ کرنے جیسے بہت سے کام کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ نیتن یاہو کو فلسطینی اتھارٹی کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں”۔ اسرائیل پر اس نصیحت کااثر اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ اس کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لے ورنہ وہ ان باتوں کو نظر انداز کرتا رہے گا۔ بائیڈن کہتے ہیں کہ بن گویر اور اس کے ساتھی دو ریاستی حل کو مسترد کرکے تمام فلسطینیوں سے بدلہ چاہتے ہیں لیکن جب اس انتقامی خون خرابے کو روکنے کے لیے سلامتی کونسل میں کوئی قرار داد آتی ہے تو امریکہ اسے ویٹو کردیتا ہے ۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے ؟ وہ نیتن یاہو سے کہتے ہیں کہ وہ مستقبل میں فلسطینی ریاست سے انکار نہیں کرسکتے ۔انتہا پسند صہیونی حکومت پر اپنی شدید تنقید کے باوجود جب جو بائیڈن کہتے ہیں کہ “اگر اسرائیل نہ ہوتا تو ہمیں ایک ایجاد کرنا پڑتا تو ان کی ساری چکنی چپڑی باتوں کا اثر زائل ہوجاتا ہے ۔ امریکی وال سٹریٹ جرنل نے بھی امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی زبانی جنگ کو شدید اختلافات کا گواہ بتایا ۔اخبار نے نشاندہی کی کہ نیتن یاہو کا غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے کردار سے انکار کا مقصد ان کی بگڑتی ہوئی اندرونی حمایت کو مضبوط بنانے میں مدد کرنا ہے ۔اس بابت بائیڈن انتظامیہ پر عرب حکومتوں پر دباؤ بھی ہے ۔
اسرائیلی بمباری کے دوران ہر روز صہیونی فوجیوں کے واصلِ جہنم ہونے کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن اب تو بوکھلاہٹ میں وہ خود اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے لگے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق غاصب فوج نے اعتراف کیا ہے کہ دوستانہ گولی باری اورانتظامی حادثات میں 20 فوجی ہلاک ہوگئے ۔اسرائیلی فوجی بیان کے مطابق 13 فوجی فرینڈلی فائرنگ میں مارے گئے اور دیگر اپنے ہی ڈرونزو ہیلی کاپٹر سے فائرنگ کی زد میں آگئے ۔ویسے اسرائیلی حکومت غزہ کی زمینی لڑائی میں اب تک صرف 105 فوجی مارے جانے کا اعتراف کرتی ہے مگر اس پر کسی کو اعتبار نہیں ہے ۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے غزہ کی پٹی میں حماس کے ہاتھوں صہیونی فوج کو پہنچنے والے جانی اور مالی نقصانات کے بارے میں فوج کی طرف سے جاری کردہ اعدادو شمار کو مشکوک قراردیا ہے ۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کو فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے مگر فوج اپنے نقصانات چھپا رہی ہے ۔
اسرائیل کے سب سے معتبر عبرانی اخبار ‘ہارٹز’ نے ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں، زخمیوں کی تعداد اور اسپتالوں میں علاج کے لیے لائے جانے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد میں بہت بڑا فرق ہے ۔ اسرائیلی فوج غزہ میں زخمیوں کی جو تعداد بیان کررہی ہے وہ کم ہے جب کہ اسپتالوں میں ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں کو زخمی حالت میں لایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ میں آپریشن شروع ہونے کے بعد اس کے 5 ہزار فوجی زخمی ہوئے ہیں جب کہ اسپتالوں میں لائے گئے زخمی اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 10 ہزار سے زیادہ ہے ۔ اسرائیلی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں آپریشن شروع ہونے کے بعد 10 ہزار 548 زخمی فوجیوں کو علاج کے لیے اسپتالوں میں لایا گیا ۔ نہ تو یہ تعداد معمولی ہے اور نہ زخم بھرنے والے ہیں ۔ آزادی کے چراغوں سے نکلنے والے ان شعلوں کی گرمی غلامی کی زنجیروں کوپگھلا کر حریت کی صبح نمودار کرے گا۔ ان شاء اللہ
۔۔