... loading ...
حمیداللہ بھٹی
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حثیت کی وضاحت کے لیے نہ صرف دائر اپیلیں مستردکردی ہیں بلکہ ایک ایسا غیر منصفانہ اور متعصبانہ فیصلہ سنایا ہے جس سے صدرکی طرف سے 5 اگست 2019کوبھارتی آئین میں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کی توثیق ہوئی ہے، فیصلے میں کشمیر کوبھارت کا اٹوٹ انگ قراردیتے ہوئے کہا گیاہے کہ ہرفیصلہ قانونی دائرے میں نہیں آتا ۔ویسے بھی آرٹیکل 370عارضی تھا۔اِس لیے صدر کا حکم آئینی طور پر درست ہے، ساتھ ہی عدالت نے حکومت پر کمال مہربانی کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات 30ستمبر 2024تک کرانے کا وقت دے دیاہے۔ چار برس تک حکومتی ایما پر سپریم یم کورٹ نے یہ کیس لٹکائے رکھا اورمحض سولہ روز متعلقہ فریقین کے دلائل سننے کے بعد رواں برس پانچ ستمبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھاجوگزشتہ روزسنا دیا گیا۔ یہ فیصلہ ایسے حالات میں سامنے آیاہے ،جب ایک روز قبل ہی انسانی حقوق کاعالمی دن منایا گیا۔یہ فیصلہ نہ صرف اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کو رَد کرتا ہے بلکہ بھارتی سپریم کورٹ کے ماضی میں کیے گئے اپنے ہی فیصلوں کی بھی نفی کرتا ہے۔ یہ ہر حوالے سے جانبداری کا عکاس ایسا سیاہ فیصلہ ہے جس کی دنیا میں کہیں بھی نظیر نہیں ملتی۔ دراصل اِس طرح عدالت نے نریندرامودی کی جنونی حکومت کی سیاہ کاریوں کی سپریم کورٹ نے حوصلہ افزائی کی ہے جو اِس امر کی طرف اِشارہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ بھی انصاف نہیں بلکہ حکومت کی طرح نا انصافی پر یقین رکھتی اور حکومتی جنونیت کا حصہ ہے، خدشہ ہے کہ مستقبل میں بھی سپریم کورٹ انصاف دینے کی بجائے متعصب جنونی حکومت کے فیصلوں کی تائید تک محدودرہ سکتی ہے ۔پاکستان نے اِس غیرمنصفانہ فیصلے کو مسترد کر دیا ہے لیکن گجرات کے قصاب نریندرامودی نے اِس فیصلے کو تاریخی اور انصاف کی علامت قرار دیا ہے۔
یہ فیصلہ غیر متوقع یا اچھنبے کی بات نہیں بلکہ فیصلے سے قبل ہی محبوبہ مفتی اور شیخ عمرعبداللہ جیسے کٹھ پتلی سیاستدانوں نے بھی ایسے خدشات کا اظہار کر دیاتھا کہ قابض انتظامیہ کے سخت اقدامات سے لگتا ہے کہ عوامی امنگوں کے بر عکس سپریم کورٹ سے ایسا فیصلہ آنے والا ہے جو بی جے بی کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے۔ بھارتی حکومت کے اقدامات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اُسے فیصلے کا قبل ازوقت علم تھا، اسی لیے حکم سنائے جانے سے قبل مقبوضہ کشمیر میں سیکورٹی انتہائی سخت کر دی گئی اور نہ صرف مسلم اکثریتی شہروں اور قصبوں میں مزید فوجی چوکیاں بنائی گئیں بلکہ بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے اور کچلنے کے لیے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں ۔ سری نگر سمیت دیگر اضلا ع میں فوجیوں کے تازہ دم دستے بھیجے گئے ،ہرطرف بلٹ پروف اور بکتر بند گاڑیاں گشت کررہی ہیں۔ سی سی ٹی وی نگرانی کا کڑابندوبست کیا گیا ہے تاکہ غم وغصے کا شکار کشمیریوں کی بروقت گرفیاریاں کی جا سکیں۔ اگر فیصلے کا علم نہ ہوتا تو ایسی تیاریاں نہ ہوتیںجس طرح مقبوضہ علاقے میں دیکھی جارہی ہیں، اِن تیاریوں کا مقصد دنیا کو یہ تاثر دیناہے کہ مقبوضہ وادی کے شہری عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی بناپرمظاہرے نہیں ہوئے اور حالات غیر معمولی نہیں بنے مگرعدالت کے سیاہ فیصلے اور حکومتی ظلم وجبر کشیریوں کو حق ِخوداِرادیت کی جدوجہد سے روک نہیں سکتے البتہ حالیہ فیصلے سے امکان ہے کہ کشمیریوں کو مزیدطویل اورصبر آزماجدوجہد کے دوران قربانیاں دیناپڑیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسئلہ کشمیر کااہم فریق پاکستان بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے عالمی سطح پر موثر سفارتی جدوجہد میں تیزی لائے ۔وگرنہ جس سرعت سے بھارت یکطرفہ اقدامات سے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی روش پرگامزن ہے ، اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتاہے کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہونے سے نہ صرف جنوبی ایشیا کا امن تہہ بالا ہوگا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں غزہ طرز جیسی کارروائیوں کا کشمیریوں کو بھی سامنا ہو سکتا ہے جس کے لیے پاکستان اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سُستی کامظاہرہ نہ کرے ۔
بھارتی عدالتوں نے ماضی میں بھی اکثر ایسے فیصلے کیے جوانصاف کے برعکس اور حکومتی خواہشات کے مطابق تھے مگر جب سے بی جے پی جیسی ہندوتوا پر یقین رکھنے والی جماعت اقتدار میں آئی ہے بھارت میں انصاف کا عمل کمزورتر ہو گیا ہے گجرات سے لیکر دہلی فسادات سے متاثرہ مسلم اقلیت آج بھی انصاف سے محروم ہے۔ حکومتی جنون کا حصہ عدالتوں نے تمام ملزمان کو بری کردیاہے۔ کیونکہ بھارتی ججز ریٹائرمنٹ کے بعد مزیدمنصب خواہش کرتے ہیں، اسی لیے انصاف کی بجائے فیصلوں میں حکومتی خوشنودی کوپیشِ نظر رکھاجاتا ہے حکومت کوبھی ججز کی کمزوری کاادراک ہے۔ بظاہر چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے ساتھ جسٹس سنجیوکھنہ ،جسٹس سنجے کشن کول،جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ نے بھی اسی آس میں حکومتی اقدامات کی توثیق کی ہے تاکہ حکومت نوازشات میں انھیں بھی بعد ازملازمت یاد رکھے مگر یہ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ اپنے فیصلے سے جنوبی ایشیا میں ایک طویل بدامنی کی ایسی بنیاد رکھ دی ہے جس سے نہ صرف پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہو گا بلکہ کشمیریوں کی زندگی بھی عذاب ہو گی ۔
مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا تنازع ہے جو تقسیمِ ہند فارمولے کے تحت حل ہونا باقی ہے۔ 1948کی بغاوت سے گھبراکر بھارت نے خودہی یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ میں پیش کیا اور وعدہ کیا کہ حالات معمول پر آتے ہی وادی کے مکینوں کو حقِ خوداِرادیت دیا جائے گا تاکہ وہ خود اپنے مستقبل کافیصلہ کر سکیں کہ بھارت کا حصہ بننا ہے یا پاکستان میں شامل ہونا ہے جس کے لیے بھارت کے زیرِ تسلط مقبوضہ کشمیر اورپاکستانی حصے آزاد کشمیر میں یواین او امن مشن تعینات کیے گئے ۔اسی مسئلہ پر1965 میںپاک بھارت جنگ بھی ہوئی جس میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے لیکن مسئلہ کشمیر کاحل نہ ہوسکا۔ 1971کی جنگ کے محرکات سے بھی مسئلہ کشمیر کو کسی صورت خارج نہیں کیا جا سکتا مگر بدقسمتی سے اِس میں پاکستان کو نہ صرف بدترین شکست ہوئی بلکہ پاکستان دوحصوں میں تقسیم ہو گیا۔ جس سے بھارت کو حوصلہ ہوا کہ وہ کشمیر کومستقل ہڑپ کرنے کے مذموم عمل کوپروان چڑھائے۔ شملہ معاہدے کی دو طرفہ مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کی شق پر دونوں حکومتوں کی رضامندی اور اتفاق نے بھارت کو جواز دیاہے کہ کشمیر پریکطرفہ اقدامات کرے۔ اب وہ اقوامِ متحدہ کی دودرجن سے زائد منظور کی جانے والی قرار دادوں کوبھی کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔ اگر پاکستان اقوامِ متحدہ کی منظور کی جانے والی قرادادوں کے علاوہ کسی حل پر آمادہ نہ ہوتا تو عین ممکن ہے کشمیریوں کی سیاہ رات اتنی طویل نہ ہوتی بلکہ اب تک حق ِ خود اِرادیت کے حصول میںکامیاب ہو چکے ہوتے۔
2024بھارت میں عام انتخابات کاسال ہے اور تقسیم ِ ہند کے بعد ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ حکمران بی جے پی کو پاکستان کے علاوہ ایشوز کی ضرورت ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندربنایا جا چکاجبکہ پاکستان کمزور معیشت کی بناپر بھارت کی دیوہیکل معیشت کے آگے اب کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ماضی میں بھارتی حکومتوں کا اکثریہ وطیرہ رہا کہ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگاکرووٹ لیے جاتے لیکن اب ایسے الزامات اہمیت کھوچکے ہیں۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے جبکہ عالمی سطح پر بھارتی دہشت گردی عیاں حقیقت ہے ۔بھارت کا قریبی اتحادی امریکہ بھی اعتراف کرتا ہے جبکہ کینیڈا بھی سکھ رہنمائوں کے قتل کااُسے ذمہ دار قرار دیتا ہے، اسی لیے نریندرامودی کسی ایسے ایشو کے خواہشمند ہیں جس سے آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ مسئلہ کشمیر کے خاتمے اور حلال اشیا کی پابندی کوایشو بنانے پرکام ہورہا ہے۔ اُترپردیش میں 2017 سے یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیراعلیٰ بننے سے حلال گوشت پر پابندی ایک سنگین نوعیت کا ایشو بن چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر حکومتی فیصلے کی سپریم کورٹ سے توثیق مزید ایسی تائیدہے جس پر بی جے پی انتخابی مُہم چلا سکتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ حکومتی جنون کاحصہ بن کر فیصلہ سنانے کاعمل خطے میں بدامنی اورغربت وافلاس کی بنیادتو بن سکتا ہے، تجارتی ، معاشی اور سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ میں معاونت نہیں کر سکتا ۔