... loading ...
سمیع اللہ ملک
کل ہی پتہ چلاکہ کہ اندرکھاتے یہ ہدایات اورشاہی فرمان جاری ہوگیاہے کہ اب لب بند،قلم بند،زباں بنداس کے بعد جاری مہیب سناٹا،خاموشی،اضطراب اوربے کلی کے سواکیا بچاہے؟ پوری رات یوں ہی گزرگئی۔پھرسناٹے،خاموشی اوراضطراب کوتوڑتی ہوئی ایک آوازبلندہوئی۔رب کی برتری،عظمت اورجلال کی آوازخانہ خداکے بلندمیناروں سے گونجتی ہوئی،جسے کوئی نہیں روک سکتاہاں کوئی بھی نہیں۔رب ذوالجلال کی کبریائی بیان کرتی ہوئی آواز،زمینی خداؤں کے منہ پرخاک مل دینے والی آواز،خودساختہ دیوتاؤں کولرزا دینے والی آواز،انسانیت کیلئے نوید ِمسرت حوصلہ اور امید کا نقارہ ،نقارہ خداوندی ،سربلندوبا وقارجلال اورجمال سربلند باددوستانِ دیں کی نوید۔
ہم بھی عجیب ہیں۔وہ پکارتاہے:آؤتم فلاح چاہتے ہوناں،توآؤ۔اورہم کیاکرتے ہیں؟زمینی خداؤں کے آگے بھکاری بن کرکھڑے رہتے ہیں اوردھتکاردیے جاتے ہیں، دھتکارے ہوئے لوگ اورجب ہرطرف سے،ہردرسے محروم ونامرادلوٹتے ہیں،تب وہ ہمیں یادآتا ہے۔ہاں وہ پھربھی ہمیں گلے لگاتاہے۔پیغامِ مسرت سناتاہے،اصل کی طرف بلاتاہے۔بس وہی ہے اورہے کون؟ہم گداگراوربھکاری بن گئے ہیں۔ہم فقیرکہاں ہیں! فقرکی توشان ہی نرالی ہے۔وہ میراجواں مرگ دوست یاد آگیا۔اس نے کیا خوب کہاتھا:ہم کہاں ایک ہی بابِ طلب تک رہتے ہیں!بے شمارولاتعداددروں کے محتاج ہوگئے ہیں اوروہ پھربھی ہماری بے وفائی،ہماری غلطیوں،ہماری سیہ کاریوں،ہماری بداعمالیوں،منافقتوں اورہمارے کھوٹ کونظراندازکردیتاہے۔آؤفلاح کی طرف ،بس یہی درِخالص ہے،باقی سب جھوٹ ہے،مکرہے،فریب ہے۔مکروفریب کی سہانی دنیابے چینی کاسرچشمہ۔رات بھرآنکھوں میں کاٹنے کے بعدعلی الصبح جب بہت بے کلی بڑھی تب باباجی اقبال یادآنے لگے:
صدنالہ شب گیرے،صدصبح بلاخیزے
صد آہ شررریزے،یک شعردل آویزے
درعشق وہوس ناکی،دانی کی تفاوت چیست؟
آں تیشہ فرہادے،ایں حیلہ پرویزے
(رات بھرکے سینکڑوں نالے،سینکڑوں آفت لانے والی صبحیں،سینکڑوں شعلے پھینکنے والی آہیں ایک طرف
اورایک دل کو لبھانے والاشعرایک طرف۔ کیاتوجانتاہے کہ عشق اور ہوس میں کیافرق ہے؟عشق فرہاد کا
تیشہ ہے اورہوس خسروپرویزکا حیلہ ،مکاری اورفریب ہے۔)
واصف علی واصف کاکیاخوب قول یادآگیا”ہم سب فرعون کی زندگی اور موسی کی عاقبت چاہتے ہیں۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا”۔ اور پھر تو تانتابندھ گیا۔یہ جوزمینی خدابن بیٹھے ہیں،اوروہ جوگزرگئے،اب تماش بینوں کیلئے سامانِ عبرت بنے ہوئے ہیں۔اس سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ اندھے، بہرے، خودفریبی کاشکارفرعونِ زمانہ ،یہ سمجھتے ہیں ہم ہیں پالن ہار،بس ہم۔عجیب سی بات ہے۔یہ لبرل، سیکولر اورروشن خیالی کے دعویداراوروہ بھی اصل نہیں بالکل جعلی۔اصل تو ہر بات اچھی لگتی ہے ناں۔ٹھیک ہے اختلاف اپنی جگہ،اصل تو ہوناں۔ سراسر جعل سازی کے ماہر۔منافقت کے مجسم شاہکارخودفریب۔یہ سمجھتے ہیں نظامِ کائنات یہ خود فریب چلا رہے ہیں۔ عقل و فکر کے اندھے، انسانیت کے نام پر دھبہ۔
ایوان اقتدارمیں سستانے والوں کویہ خبرہوکہ سیاست ٹھہرے ہوئے پانی کانہیں بلکہ اس کی روانی کانام ہے۔اپنی عقل وفراست کے ساتھ اس کے بندمضبوط بنانے کی ضرورت ہے ورنہ اس روانی کوبندکرنے میں کسی قسم کی مروت کامظاہرہ نہیں کیاجاتا ۔اوپر کی سطح پرتبدیلیاں ہی تبدیلیاں اورنیچے؟کیااب بھی وہی ہم اوروہی غم ہوں گے۔چہرے بدلنے سے کبھی مقدرنہیں بدلتے۔ تبدیلی کاعمل جب تک نچلی سطح تک نہیں جائے گا،عوام کے احساسات وجذبات اسی طرح سلگتے رہیں گے۔مہنگائی،لوڈ شیڈنگ اورآئے دن ایک دوسرے پر کرپشن، بدانتظامی اوردیگرالزامات کے ذکرپرانہیں ڈرائیں اوردوڑائیں نہ،وہ توپہلے ہی بہت ڈرے ہوئے اورتھکے ہوئے ہیں۔ حالات وواقعات نے انہیں اس قدر ٹچی بنادیاہے کہ سوئی کی آوازبھی انہیں کسی دھماکے سے کم نہیں لگتی۔رہی سہی کسراب اس نئی ڈاکٹرائن نے نکال دی ہے کہ پھرسے نئے لاڈلوں پرسیاسی سرمایہ کاری جبکہ درجنوں مرتبہ ہم ان سب کوآزماچکے ہیں۔اس کیلئے موجودہ سرکارکوعوام کیلئے اللہ سے”کاروبار”کرناہوگاپھرکہیں جاکران کابازارچلے گا۔ان کی مسکراہٹ سے کسی خوش فہمی میں مبتلانہ ہوجائیں۔مسکراتے ہوئے چہروں کے دل بہت اداس ہوتے ہیں،ان کے توخواب بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ہررات کوشب برأت سمجھنے والوں کویادوں کی بارات کا کیا پتہ، انہیں اس کاپہلے سے اندازہ ہو جائے تووہ آنکھ بندکرنے سے ہی توبہ کرلیں۔بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں مگران کے ضمیرسورہے ہوتے ہیں۔ایسابھی ہوتاہے کہ آنکھیں ہمیشہ کیلئے بندہوجاتی ہیں مگران کی تعبیر جاگتی رہتی ہے۔بہت سے خواتین و حضرات کوآنکھوں کی”چہل قدمی”کابڑاشوق ہوتا ہے،انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتاکہ آنکھیں بھٹک جائیں یاکہیں اٹک جائیں۔اسی شوق ِچشم میں وہ بہت سے روگ بھی لگا جاتے ہیں۔دوسروں کے گھروں میں”نظراندازی”کرنے والوں کواپنی چادروچاردیواری کے اندربھی دیکھناچاہئے کہ اس تاک جھانک سے دل پرکیاگزرتی ہے۔من کاویسے بھی دھن سے کیارشتہ ہے،اسی لئے کہتے ہیں کہ دل نہ بھریں،یہ بھرگیاتوبہت سے سیلاب جسم کوڈبودیں گے۔سیاست میں یہی سیلاب سونامی بن جاتے ہیں۔
پیارے پاکستان میں بہت سے سیاستدان اقتدارکے بغیرنہیں رہ سکتے اوراسلام آبادان کے بغیرنہیں رہ سکتا۔ہماری بربادی میں ان لوگوں کی آبادی کاسب سے بڑاہاتھ ہے۔ارض وطن کی معاشی بدحالی اورسیاسی انتشارکافائدہ اٹھاتے ہوئی بیرونی دباؤکی وجہ سے استعمار سے جلددوستی کی بیماری اب وباکی شکل اختیارکرگئی ہے۔جب تک ان تمام اافرادکوانصاف کے کٹہرے میں لاکر کھڑانہیں کریں گے جنہوں نے ہمیں اس حال تک پہنچایاہے،مسئلہ حل نہیں ہوگا،اس کیلئے چاہے جتنے مرضی الفاظ جمع کر لیں،”کاغذکورا”ہی رہے گا۔لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ محبت صرف ایک بارہوتی ہے اوراس کے بعد سمجھوتے ہی چلتے ہیں ،جب تک جان ہے،جہان داری تونبھانی ہی پڑے گی،جس میں
ہارجیت چلتی رہتی ہے۔ جیتنے والوں کویہ بات یادرکھنی چاہئے کہ قوم دکھوں سے ہاررہی ہے اورآپ مخالفین کوقابوکرنے کی تعریفیں سن کرنہال ہو رہے ہیں۔آئے دن بھوک کے ہاتھوں دلبرداشتہ ماں اپنے معصوم بچوں سمیت خودکوٹرین سے کٹواکرہمارے سسٹم کوکاٹ کررکھ دیتی ہے،ہمارے ہاں زندہ لوگوں کاحساب نہیں لیاجاتاتومرے ہوئے کس کھاتے میں آئیں گے۔امیرشہرکا تواپنایہ حال ہے۔
امیرشہرغریبوں کاخیال کیاکرتا
امیرشہرکی اپنی ضرورتیں تھیں بہت
ہوش میں آؤ۔تمہارے فرمان تمہیں نہیں بچاسکتے۔کبھی نہیں!سربلندرہے گاسدامیرے رب کافرمان۔ہاں اصل فرمان۔تمہیں شوق چڑھ آیاہے توپوری کرلواپنی حسرت،جاناتوہم سب کوایک ہی جگہ ہے۔پھرتم اپنی کرنی کرگزرو۔جوہوگادیکھاجائے گا۔جوچاہے کرو ،بس یادرکھناتم خالق ومالک نہیں ہو۔بن ہی نہیں سکتے۔کبھی نہیں۔باب علم جناب علی کرم اللہ وجہہ کے قول کوہم کیوں بھول رہے ہیں کہ”لوگوں پرایک زمانہ آنے والاہے جب صدقہ کوخسارہ،رحم کرنے کواحسان اورعبادت کوایک دوسرے پربرتری اورسبقت کا ذریعہ قرار دیا جائے گا۔ ایسے وقت میں حکومت عورتوں کے مشورے،بچوں کے اقتداراورخواجہ سراؤں کی تدبیرکے سہارے رہ جائے گی”۔ بس نام رہے گا اللہ کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔