... loading ...
لاہور میں نوازشریف نے پارلیمانی بورڈ سے خطاب کرتے ہوئے یہ نیا مطالبہ کیا ہے کہ صرف حکومت نہیں جعلی مقدمات پر احتساب بھی چاہتے ہیں، ان کے7 سال کس نے ضائع کیے، کس نے جھوٹے مقدمات بنا کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ سب کے نام سامنے آ چکے ہیں مگر ان کا احتساب کون کرے گا؟ بات اس حد تک تو درست ہے کہ جو کچھ ہوتا رہا ہے، اس کا سنجیدگی سے جائزہ نہ لیا گیا تو وہ مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا لیکن ایک بات پر نوازشریف خاموش ہو جاتے ہیں کہ آج جو کچھ عمران خان سے ہو رہا ہے کیا وہ بھی اسی روایت کے زمرے میں آتا ہے؟ یا اسے وہ درست سمجھتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم آدھا سچ بولتے ہیں، حالانکہ مسئلہ تبھی حل ہوگا جب ہم پورا سچ بولیں گے۔ اپنے لیے سچ اور دوسروں کے لیے جھوٹ والی پالیسی نہیں چلے گی،پھر تو یہی کچھ ہوتا رہے گا بس نام اور چہرے بدل جائیں گے، ماضی کو درست کرنے کی روایت ہمارے ہاں اگر چل پڑی ہے،ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی اگر سماعت ہو رہی ہے تو پھر باقی معاملات کا بھی جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ نوازشریف اگر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی، مخصوص ججوں اور سابق جرنیلوں نے ان کے خلاف منصوبہ بنایا تو اس کا فیصلہ بھی ہوجانا چاہیے۔ یہ چوہے بلی کا کھیل پہلے ہی پاکستان کو بہت نقصان پہنچا چکا ہے۔ اب اسے بند کرنے کا وقت آ گیا ہے اور اس کے لیے سب سے اہم کردار کسی اور نے نہیں سیاستدانوں نے ادا کرنا ہے۔ ملک میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ ان کی نااتفاقی اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کی روش کے باعث ہوا۔اس سے جان چھڑانی ہے تو پھر یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ سیاست کو صرف اقتدار کے لیے بھینٹ نہیں چڑھایا جائے گا۔سیاسی قوتوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر سیاست ہی غیر سیاسی قوتوں کا آسان ہدف کیوں بن جاتی ہے، اس میں اتنی طاقت کیوں نہیں کہ اپنی حفاظت کر سکے۔ دنیا کی مضبوط جمہوریتوں میں ایسا کیوں نہیں ہوتا کیوں وہاں سیاست کسی کی باندی نہیں بنتی۔ نوازشریف کہتے ہیں عمران خان کو ایک سازش کے تحت مسلط کیا گیا، جس سے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا جبکہ عمران خان یہ کہتے کہتے جیل چلے گئے کہ لندن پلان کے تحت نوازشریف کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کون سچا ہے کون جھوٹا، اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ یہ تو تبھی ہو سکتا ہے جب سیاستدان اتنی جگہ نہ دیں کہ کوئی دوسرا اونٹ بن کر ان کے خیمے میں داخل ہو جائے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اقتدار کی کشش ایک ایسی کمزوری ہے، جس کا سبھی شکار ہو جاتے ہیں بس اشارہ ملنے کی دیر ہوتی ہے۔ یہ مانگے تانگے کا اقتدار اپنے ساتھ مجبوریاں اور کمزوریاں بھی لاتا ہے پھر یہ شکوہ کیساکہ منتخب وزیراعظم کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ جولاتے ہیں پھر وہ ڈکٹیٹ بھی تو کرتے ہیں، اس میں انہونی کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کسی وزیراعظم کو اس کی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ کسی کو نکالا گیا اور کوئی خود دباؤ برداشت نہ کر سکا۔ نکالنے کے ساتھ ساتھ بعض کو نشانِ عبرت بنانے کی حکمت عملی بھی اختیار کی گئی تاکہ آنے والوں کو کان ہو جائیں۔ سیاسی مبصرین کی ایک محفل میں اس نکتے پر بحث ہو رہی تھی کہ بار بار ایک ہی نوعیت کے واقعات ہونے اور سیاسی قوتوں کو نشانہ بنانے کے باوجود سیاستدانوں نے سبق کیوں نہیں سیکھا۔ متحد کیوں نہیں ہوئے؟ یہ طے کیوں نہیں کیا کہ صرف ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آئیں گے اور کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔ اس پر اتفاق رائے موجود تھا کہ پاکستانی سیاست نظریات کی بجائے اقتدارکے گرد گھومتی ہے، اس لیے اقتدار کی چمک خیرہ کر دیتی ہے۔ چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنے والے اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ کسی کا دست نگر بن کر حاصل کیا گیا اقتدار ایک سیاسی خیرات ہے جو کسی وقت بھی بند کرکے دوسرے کو دی جا سکتی ہے 76برس گزر گئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ اور بعد میں آزاد ہونے والے ممالک اپنا ایک مستحکم سیاسی نظام بنا چکے ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال سامنے ہے۔ جمہوریت کا ایک پائیدار نظام چل رہا ہے، جس کا نتیجہ معاشی ترقی و خوشحالی کی شکل میں نکل رہا ہے جبکہ ہمارے ملک پاکستان میں آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں، ہوئے تو آزادانہ ہوں گے یا ان میں مداخلت کی جائے گی۔ 21ویں صدی کے اس عشرے میں اس قسم کی باتیں دنیا کو حیران کر دیتی ہیں۔تاریخ میں اگر کچھ غلط ہو ا ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسی غلطیوں کے خلاف بند باندھا جا سکے۔ نوازشریف نے گزشتہ روز جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ان کے سیاسی مخالفین کی نظر میں شاید بے وقت کی راگنی ہوں، مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان سوالات کا جواب نہ ملا تو پھر کسی نئی شکل میں سامنے آ جائیں گے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں طاقت کا توازن ہی درست نہ ہو سکا ہواور جمہوری و ریاستی قوتوں میں کھینچا تانی جاری ہو وہاں ان سوالوں کا جواب ملنا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ کس طرح طاقت کے ایوانوں میں موجود چند شخصیات پورے ملک کے مفاد کو اپنی سوچ اور خواہش کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں؟ عمران خان نے بھی ویسے ہی الزامات لگائے جیسے نوازشریف لگا رہے ہیں۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے سوالات تو دہرائے جا رہے ہیں، ان کے جوابات نہیں مل رہے۔ ہم کولھو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ آج سے نہیں پچھلی کئی دہائیوں سے ہمارا سیاسی سفر ایک ہی ڈگر پر چل رہا ہے۔ 2 قدم آگے بڑھتے ہیں تو 3 قدم پیچھے آ جاتے ہیں۔ ہماری معیشت بھی اسی لیے ہمیشہ ہچکولے کھاتی رہتی ہے اورہم دنیا میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں اور قرضوں میں ایسے جکڑے گئے ہیں کہ مستقبل میں ان سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ہمارے خیال میں اس صورت حال سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ جمہوریت کو مضبوط کیا جائے اور جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہو سکتی ہے جب سیاسی جماعتیں یہ تہیہ کرلیں کہ جمہوریت کی پاسداری کریں گی اور صرف اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف کندھا پیش کرنے کی بجائے اصولوں اور نظریات پر قائم رہیں گی۔ یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ خود بھی برسراقتدار آکر اس ڈرامے کے ہرکردار کو قانون کے کٹھہرے میں نہیں لاسکتے یہ مطالبہ ایک خاص مقصد کے تحت کیاہے،اس کا سبب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل اور غیر ضروری حمایت کے باوجود مسلم لیگ ن عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور لاہور جیسے شہر میں بھی بقول بلاول زرداری کے انھیں گندے انڈوں اور ٹماٹروں کا سامنا کرنا پڑرہاہے اب عوام ان کی باتیں سن کر سوالات کرنے سے نہیں گھبراتے بلکہ کھڑے ہوکر یہ پوچھنے لگے ہیں کہ وہ جو کچھ کرنے کاوعدہ کررہے ہیں وہ انھوں نے اپنی طویل حکمرانی کے دوران کیوں نہیں کیا؟ موٹر ویز سے پہلے ملک کے ہر صوبے میں ایسے اچھے ہسپتال کیوں نہیں بنوائے جہاں اس ملک کے 98 فیصد عوام جن کی بھاری اکثریت اور غربت کا شکار ہے اپنا علاج کراسکتی؟یہی وجہ ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعدبھی نواز شریف کوئی بڑا جلسہ کرنے کے بجائے صرف بیان بازیوں پر اکتفا کررہے ہیں یا پھر ورکرز کانفرنسوں پر اکتفا کررہے ہیں جہاں کسی جانب سے کسی تیکھے سوال کو خدشہ نہیں ہوتا کسی جانب سے سڑا ہوا ٹماٹر یا انڈہ پڑنے کا خدشہ بھی نہیں ہوتا۔ عمران خان کو منظر سے ہٹانے اور انھیں بدنام کرنے کے باوجود ان کاجادو سر چڑھ کربول رہاہے جس کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں پر مبنی صورتحال انتہائی سرد ہے اور گزشتہ 30 سال سے زیادہ عرصے سے باریاں لینے والی سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے تیار نہیں ہیں اور تاخیر چاہتی ہیں سیاسی بازیگر انتخابات کو اپنے مفاد سے منسلک کر رہے ہیں کیونکہ عوام کاموڈ دیکھ کر انہیں یہ خدشہ ہی نہیں بلکہ یقین ہوچکا ہے کہ وہ عوام کی پزیرائی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔یہ یقینا ایک لمحہئ فکریہ ہے کہ جوں جوں انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے، سیاسی جماعتیں تاخیری حربے استعمال کرتی دکھائی دے رہی ہیں مسلم لیگی رہنما ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ وہ انتخابات کے لیے تیار ہیں لیکن انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی خواہش کے تحت اس نے ایم کیوایم کے ساتھ مل کر حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ کنوینر ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات پر الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو یکطرفہ اور ہائی ڈیزائن قرار دے دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر نے عدالت سے رجوع کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ اسی تناظر میں مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کا بیان انتہائی معنی خیز ہے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے، جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کے سبب اسلام آباد ہائیکورٹ میں حلقہ بندیوں کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکشن شیڈول کب دیا جا رہا ہے، مختلف لوگوں نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے لوگوں کو فرسٹریٹ نہ کریں، وکیل الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول کے بارے میں جواب دینے کے بجائے کہا کہ الیکشن کمیشن تو اس کورٹ کی ڈسپوزل پر ہوتا ہے، جب عدالت بلاتی ہے آجاتے ہیں،اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہی انتخابات کے شیڈول کو رکوانے کے لیے درخواست دائر ہوئی ہے،انتخابات میں تاخیرکی کوششیں معنی خیز بنتی جا رہی ہیں، جس سے پسِ پردہ عوامل میں ”آپریشن کلین اپ“ مکمل ہونے تک انتخابات میں تاخیر کا عندیہ ملتا ہے۔
مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...
بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...
مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...
نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...
سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...
ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...
عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...
علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...
بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...
مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...
پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...
خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...