... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
دیو مالائی کہانیوں میںسے ایک کہانی میں بیان کیا گیا کہ یونان ”ٹرائے”شہر کو فتح کرنا چاہتا تھا اس مقصد کے لئے اس نے ایک بڑا لشکر تیار کیا جس میںدیگراتحادیوں کی فوجیںبھی شامل کی گئیں ۔جب ایک بڑا لشکر تیار ہوگیاتو یونان نے ٹرائے پر بھرپور حملہ کردیا۔ٹرائے کا فوجی لشکر یونان کے فوجی لشکر کے سامنے تعداد میں بہت کم تھا لیکن ٹرائے شہر کی فصیل(چاردیواری) بہت بلند اور مضبوط تھی اور ٹرائے کے فوجی لشکر کا سپہ سالار شہزادہ ہیکٹر اور اس کے فوجی بہت جاں باز تھے۔یونان نے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ ٹرائے پر بھرپور حملہ توکردیا کیا لیکن وہ نہ تو شہر کی اونچی اور مضبوط دیواروں کو ہلا سکا اور نہ ہی ٹرائے کی فوج کا حوصلہ پسپا ہوسکا۔کہتے ہیں دس سال تک یونان کے فوجی لشکر نے ٹرائے شہر کا محاصرہ کئے رکھا مگر فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا۔یونانی فوج نے فتح حاصل کرنے کے لئے تمام جنگی چالیں اورطریقے اختیار کئے مگر وہ شہر کے اندر داخل نہ ہوسکے۔آخر ایک دن یونانی فوج نے ایک نئی چال چلی۔انھیں معلوم تھا کہ ٹرائے کے لوگ گھوڑے کو مقدس اور خدا کا تحفہ سمجھتے ہیں چنانچہ انھوں نے ایک بہت بڑا لکڑی کا گھوڑا (ٹروجن ہارس)تیار کیا۔لکڑی کا گھوڑا ایک خاص مہارت کے ساتھ تیار کیا گیاتھا جو بظاہر ایک لکڑی کا گھوڑا نظر آتا تھا لیکن اس کے اندر فوجیوں کے چھپنے کے لئے مخصوص جگہ بنائی گئی تھی۔جب دیو قامت گھوڑامکمل تیار ہوگیا تو اس کے اندر یونان کے بہترین جنگجو اور سپاہیوں کو چھپاکر بٹھا دیا گیا۔تقریباپچاس فوجی لکڑی کے گھوڑے کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے جبکہ باہر سے کسی کو بھی یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اندر فوجی چھپے بیٹھے ہیں۔
رات کے اندھیرے میںفوجیوں سے بھرا ہوا لکڑی کا گھوڑا ٹرائے شہر کے عین دراوزے کے سامنے کھڑا کرکے یونانی فوج شہر کی فصیل سے دورجا کر چھپ گئی۔صبح ٹرائے شہرکے باہریونان کافوجی لشکر غائب تھا ،صرف لکڑی کادیوقامت گھوڑا کھڑا تھا یہ دیکھ کر ٹرائے کے باسی سمجھے کہ شاید یونانی فوج ناکام ہوکر واپس لوٹ گئی ہے اور پسپا ہوتے ہوئے لکڑی کا مقدس گھوڑا پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ٹرائے کے اردگرد جائزہ لینے کے بعد شہر کا دروزہ کھول دیاگیا اور اس لکڑی کے گھوڑے کو خدا کا تحفہ اور اپنی جیت سمجھتے ہوئے اسے ٹرائے شہر کے اندر لے آئے ۔ٹرائے کے لوگ لکڑی کے گھوڑے کے گردسارا دن جیت کی خوشی مناتے رہے لیکن انھیں یہ احساس نہ ہوسکا کہ لکڑی کا گھوڑا جسے وہ خدا کا تحفہ سمجھ رہے ہیں اس کے اندر دشمن چھپے بیٹھے ہیں۔یونانی فوج نے ٹرائے کے مذہبی عقیدے کا فائدہ اٹھا کر جو چال چلی تھی وہ کامیاب ہوگئی اگلی رات کو جب سارا شہر سوگیا تو یونانی فوجی بڑے آرام سے ٹروجن ہارس (لکڑی کے گھوڑے ) سے باہرنکل آئے اورچپکے سے ٹرائے شہرکے دروازے کھول دیے تاکہ یونانی فوج کا لشکر اندر داخل ہوسکے۔منصوبے کے مطابق ٹرائے شہر کا دروازہ کھلتے ہی یونانی فوج کا لشکر ٹرائے شہرکے اندر داخل ہوگیا اور پھر پورے شہر کو آگ اور خون میں نہلا کراس پر قبضہ کرلیا۔ہزاروں سال پہلے کی اس کہانی کو دیومالائی تصور کیاجاتا تھا مگربعد میںہونے والی تحقیقات اور ملنے والے شواہد سے نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ دیومالائی کہانی نہیں بلکہ سچ ہے۔جس کا سب سے بڑا ثبوت ترکی کا عظیم شہر ”کینا کلی ”ہے جہاں لکڑی کا بنا دیوقامت گھوڑا آج بھی موجود ہے۔ کہاجاتا ہے کہ ”کینا کلی” شہرکا نام 1184 قبل از مسیح میں ٹرائے ہوا کرتا تھا۔ٹروجن ہارس پر ہالی ووڈ نے سال 2004 میں فلم ”ٹرائے”بھی بنائی جو کامیاب رہی جبکہ اس لکڑی کے بنے عظیم شاہکار کو 1998 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ بھی دے دیاہے۔
اس کہانی نما حقیقت کو بتانے کامقصدیہ تھا کہ آج ہمارے ملک میں بھی ٹروجن ہارس داخل ہوچکا ہے جس میں چھپا دشمن کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی سیاست کے نام پر ہمیں آپس میں لڑوا رہا ہے۔ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کرآگے بڑھناہوگا۔جب دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو اتّحادی افواج کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی تو انھوں نے سب سے پہلا کام یہ کیاکہ اپنے منصوبہ سازوں کو اپنی تاریخی غلطیوں سے سبق سیکھ کر بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی کا ٹاسک دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 30 سال کے قلیل عرصہ میں جرمنی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگیا اسی طرح جب جاپان پر امریکہ نے ایٹمی حملے کرکے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا یاتو جاپان نے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کچھ اس طرح سے کی کہ آج جاپان صنعتی اور معاشی اعتبار سے دنیا کے بہترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے لیکن بدقسمتی سے ہم قیام پاکستان سے لے کر اب تک اپنے مستقبل کی پائیدار اور مستحکم منصوبہ بندی نہیں کرسکے جس کی وجہ سے ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں ۔ ہم اپنا ماضی تو نہیں بدل سکتے مگر کم از کم اپنی تاریخی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنا مستقبل تو سنوار سکتے ہیں۔آپ سب بخوبی جانتے ہیںکسی بھی ملک میںپھیلا ہواسیاسی انتشار بڑے سے بڑے مضبوط اعصاب کی قوموں کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے، اس لئے پاکستان کے ہر فرد کو ایسے نازک حالات میں ایک سوچ کے ساتھ مل کرٹروجن ہارس میں چھپے دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اورتاریخی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے ٹھو س حکمت عملی کے تحت منصوبہ بندی کرناہوگی تاکہ پاکستان کا ترقی یافتہ ملک بننے کا خواب پورا ہوسکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔