... loading ...
میرافسر امان
”اور اپنی طرف سے اقتدار کو میرا مددگار بنا دے ”(بنی اسرائیل٨٠) یعنی ا ے اللہ مجھے دنیا میں اقتدار عطا کر دے یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے۔تا کہ اس دنیا کے بگاڑ کو درست کر سکوں۔
اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذ کیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔اللہ نے یہ دعا خود اپنے نبی ۖ کو سکھائی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اقامت ِ دین اور نفاذِ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے لیے کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ومندوب ہے۔ اسے لیے اللہ نے مدینے کی حکومت رسول ۖ اللہ کو عطا فرمائی ۔ رسول ۖ اللہ نے اللہ کی حدود کی حفاظت کے لیے وعظ و تذکیر کے ساتھ ساتھ اُس حکومت سے بھی مدد لی۔مدینے کی اسلامی ریاست کو سمجھنے سے پہلے ان واقعات کو سمجھ لینا ضروری ہے جو اس وقت وقوع پذیر ہوئے ۔
رسول ۖ اللہ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو کفارِ مکہ نے اُن کو وہاں بھی سکون سے نہیں چھوڑا۔ ہر وقت رسولۖ اللہ کو تکلیف پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہے اور زبردستی جنگیں مسلط کیں، جس میں غزوہ بدر،غزوہ اُحد اور غزوہ خندق شامل ہیں۔ جبکہ اللہ کے رسول ۖ نے انہیں اوّل روز سے ہی ان کو کہا تھا، میں ایک کلمہ ”لا الہٰ الا ّ اللہ” تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں۔ اگر تم اسے مان لو اس پر عمل کرو تو عرب اور عجم تمہار امطیع ہو جائے گا۔ اس کلمے کی تعبیر کیا تھی؟ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہو گی نہ کہ کسی قوم یا قبیلے کی۔ دنیوی حکمران اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں سے عوام پر حکومت کریں گے۔ انسانیت جو دکھوں کے مارے سسک رہی ہے یہ ظلم ختم ہو گا اورہر کسی انسان کا احترام کیا جائے گا۔ ہر ایک کے ساتھ عدل اور انصاف کیا جائے گا۔ امن امان ہو گالوگ خود ایک دوسروں کے مال اور عزت کے نگہبان بن جائیں گے۔برابری اور انصاف کے ساتھ ترقی اور تعلیم کا انتظام ہو گا۔ سب کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ زکوة کا نظام قائم ہو گا تواتنی خوشحالی ہو جائے گی کہ لوگ دولت لیکر پھر رہے ہوںنگے ،مگر لینے والا کوئی نہ ملے گا ۔ انسانی حقوق میں سب برابر ہونگے۔ ہر ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے گا کسی کوبھی استثنیٰ نہیں ہوگا۔ سود کا خاتمہ کر کے آزاد تجارت کا نظائم قائم کیا جائے گا۔ جب مدینے کی اسلامی فلاعی ریاست قائم ہوئی، تو رسولۖ اللہ کی کہی ہوئی سب باتیں پوری ہوئیں۔ مدینے کی اسلامی ریاست قائم ہونے سے پہلے غزوہ بدر ہوئی۔ اس میں مسلمانوں کو اللہ نے فتح دی اور قریش کے بڑے بڑے سورما قتل ہوئے۔ اس پر مشتشرقین نے اپنی کتابوں میں حوالے دیے کہ اسلام قریش پر بھاری ہو گیا اور ایک ریاست بن گیا۔ بدر کے بعد ہی اسلام کی کامیابی شروع ہوئی۔ بدر کے بعد جنگ اُحد ہوئی، جو قریش نے جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے شروع کی تھی۔اس کے بعد سارے عرب کے مشرک جمع ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے ۔مدینے کے یہود نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ خصوصاً بنی قریضہ نے مشرکوں سے ساز باز کی مگر اللہ نے وقت پر اپنے پیارے رسول ۖ اللہ کو وحی کے ذریعے اطلاع کر دی۔ اس محاصرے میں اللہ نے ایک رات آندھی بھیجی اورصبح مشرکوں کا نام ونشان باقی نہ رہا ۔اس پر رسول ۖاللہ نے اصحاب سے کہا اب قریش تم پر حملہ آور نہیں ہوں سکیں گے بلکہ تم ان پر حملہ آور ہو گے۔ آٹھ ہجری کو رسول ۖ اللہ دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہوئے اورمکہ فتح ہوا۔ امام ابن قیم لکھتے ہیں یہ وہ فتح اعظم ہے جس کے ذریعے اللہ نے اپنے دین کو،اپنے رسول ۖاللہ کو،اپنے ا ما نت دار لشکر کو، اپنے شہر اور اپنے گھر کو کفار اور مشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس سے لوگ اللہ کے دین میںفوج در فوج داخل ہوئے اور دنیا کا چہرہ روشنی سے جگمگا اٹھا ۔رسول ۖ اللہ نے مدینہ میں تشریف لاتے ہی مواخاة کا ایک مثالی نظا م قائم کیا تھا جو دنیا میں کہیں بھی موجود نہ تھا۔ ہجرت کر کے آنے والوں اورمدینہ کے اندر رہنے والوںکے ساتھ بھائی چارہ کا نظام قائم کیا۔ مہاجر کو انصار کا بھائی بنایا۔ انصاریوں نے اپنی زمینیں مہاجرین بھائیوں کو دیں اور مال اسباب میں اپنے مہاجر بھائیوں کو شریک کیا۔ دوسری طرف مہاجربھائیوں نے اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا انصار ی بھائیوں ہمیں بازار کا راستہ بتا دو،ہم خود زیست کے سامان کا انتظام اللہ کے حکم سے کر لیں گے۔اگر ایک انصاری بھائی کی دو بیویاں تھیں تو انہوں نے اپنی ایک بیوی کو طلاق دے دی تاکہ مہاجر بھائی اُس سے شادی کر لے۔اور اِس کے علاوہ اور بہت سے واقعات جو کہ مدینہ کی اسلامی ریاست میں واقعہ ہوئے، دنیا نے دیکھے اور سنے کہ کس طرح انصاری بھائیوں نے مہاجربھائیوں کے لیے قربانیاں دیں۔ اِس کے علاوہ مدینہ میں رہنے والے دوسرے مذا ہب کے لوگوں سے میثاقِ مدینہ کے نام سے معاہدہ کیا جس کے تحت سب اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں۔مگر مدینہ پر اگر باہر سے حملہ آور آئے تو اُس کا سب مل کر مقابلہ کریں گے۔اپنے تنازعات کو رسول ۖاللہ کے سامنے پیش کریں گے۔رسول ۖ اللہ کا جو بھی فیصلہ ہو گا مانا جائے گا۔
مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست میں رسول ۖ اللہ کے دس سال قیام کے دوران اسلام کے تمام قوانین اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے۔ آخر میں حجةالوادع کے موقعے پر رسول ۖ اللہ نے ایک لاکھ سے زائد صحابیوں کے اجتماع میں اُ ن سے مخاطب ہو کر دریافت کیا ۔کیا میںنے اللہ کا پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیا؟ سب صحابہ نے کہا آپ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔رسول ۖ اللہ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے کہا اے اللہ آپ کے بندے گواہی دے رہے ہیں کہ میں نے آپ کا پیغام آپ کے بندوں تک پہنچا دیا ہے۔ آپ بھی اس بات پر گواہ رہیے کہ آ پ کا پیغام آپ کے بندوں تک پہنچ گیا ہے ۔اس کے بعد اِس آیت کا نزول ہوا کہ ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا ”( المائدہ۔ ٣) یہ دین کیا تھا جو مکمل کر دیا گیا۔دنیا کے انسانوں کا دستور عمل تھا جس پر رہتی دنیا تک انسانوں نے عمل کرنا ہے اور یہی اللہ کو پسند ہے۔یہ صرف مدینہ کی ایک اسلامی فلاحی ریاست ہی نہیں تھی کہ وہ قائم ہو گئی اللہ کی طرف سے اُس کے سربراہ رسول ۖ اللہ مقرر ہو گے ۔ یہ مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنے کا دستور ہے جو اللہ تعالیٰ نے مکمل کر دیا ہے۔ اب رہتی دنیا تک انسانوں نے اس پر عمل کرنا ہے۔ مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست میں رسول ۖ اللہ نے اس دستور پر عمل کر کے دکھایا۔مدینے کی اسلامی ریاست میں رسول ۖ اللہ ہی قانون ساز تھے رسولۖ اللہ ہی انتظامیہ کے ذمہ دار تھے ۔رسولۖ اللہ ہی عدلیہ کے چیف جسٹس تھے ۔رسول ۖ اللہ ہی فوجوں کے کمانڈر ان چیف تھے۔رسول ۖاللہ ہی خارجہ پالیسی بنانے والے اور خارجہ امور کے ذمہ دار تھے۔رسول ۖاللہ ہی داخلہ پالیسی بنانے والے اور اس کو چلانے والے تھے۔رسول ۖاللہ کے حکم سے سزائیں نافذہوتی تھیں۔ رسول ۖ اللہ ہی خارجہ امور یعنی دنیا کے دوسرے ملکوں کوسفیر بھیجتے تھے۔ رسول ۖ اللہ نے دنیا کے بادشاہوں کو دعوتی خطوط لکھے تھے۔یعنی لوگوں کے بنیادی اخلاق سے لیکر ریاست کی تمام ذمہ داریاں رسولۖ اللہ کے ہاتھ میںتھیں۔ اس ریاست نے دنیا کے لیے راہنما اصولوں کا تعین بھی کر دیا۔یعنی دنیا میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہو گی۔انصاف کے معاملے میں کسی کو بھی استثنیٰ نہ ہوگا۔اگر اللہ کے رسول ۖاور مدینہ کی اسلامی ریاست کے سربرائہ کی بیٹی حضرت فاطمہ سے بھی خداناخواستہ چوری کی غلطی ہو جائے تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ خزانہ اسلامی ریاست کے عوام کا ہے نہ کہ کسی حکمران کا جو کہ عوام کی فلاح بہبود پر خرچ ہو گا نہ کہ موجودہ دور کے حکمرانوں کی طرح ناجائز مراعات اور ذاتی کاموں پر …آج پھرانسانیت سسک رہی ہے قتل و غارت ہے۔ اسٹریٹ کرائمز ہیں ۔ٹارگٹ کلنگ ہے۔ حکمران ملک اور عوام کی دولت کو لوٹ رہے ہیں اور استثنیٰ کا سہارا لے رہے ہیں۔ دشمن پاکستان پر چڑھ دوڑے ہیں۔ فلسطین میں مسلمانوں کو صفا ہیستی مٹایا جا رہا ہے۔پچھتر سالوں سے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑوے جارہے ہیں۔ غزہ کے قیدیوں کو ختم کیا جارہا ہے۔بچوں اور عورتوں اور ہسپتالوں پر بمباری ہو رہی ہے۔تہذیبوں کی یلگار ہے۔ دین و ایمان بچانا خطرے میں ہے۔غربت ہے مہنگائی ہے بے روزگاری ہے امن وامان ناپید ہے بجلی ناپید ہے… جس طرح قریشِ مکہ کے سامنے اللہ کے رسول ۖ اللہ نے یہ باتیں رکھیں تھیں اور ایک بہتر مستقبل کا یقین دلایا تھا اور اسے ثابت کر کے دکھایا تھا اس سنت رسولۖ اللہ پر عمل کرتے ہوئے جماعت اسلامی بھی یہی باتیں آج عوام اور مقتدر حلقوں، وڈیروں، چوہدریوں، صنعتکاروں، سرمایاداروںاور لوگوں کو غلام بنانے والوںظالموں کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اگر مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست طرز کی حکومت اس ملک پاکستان میں بھی قائم کردی جائے توسارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ پاکستان مثل مدینہ اسلامی ریاست ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانان برصغیر کو ان کے اعلان ”پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الااللہ” کے عوض عطا کی تھی۔ ١٩٤٧ ء میںاسی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان میں ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کو مقامی مسلمانوں نے اپنے دل میں جگہ دی۔ مدینہ کے انصار جیسا رویہ اختیارکیا۔ اور اب بھی بھائی چارے کے ساتھ ہی رہنے میں پاکستانیوں کی بقا ہے۔ اللہ ہم سب کو اس پر دل سے عمل کرنے کی توفیق دے۔ اس ہی کا نمونہ مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست تھی جس کو قائم کرنے کے لیے جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے منشور میں اہل پاکستان سے وعدہ کیا جس کے لیے اس کے کارکن دن رات محنت کر رہے ہیں۔ جس کو اس ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان اور پھر پوری دنیا میں قائم کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ جب پاکستان میں مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست قائم ہو گی پھر زمین خزانے اگلے گی اور آسمان سے رزق برسے گا۔ اتنی خوشحالی ہو گی کہ لوگ زکوة لیے لیے پھریں گے مگر زکوة لینے والا کوئی نہ ہو گا۔زمین اپنے خزانے اُگل دے گی۔ امن و اما ن ہوگا۔ عدل و انصاف ہو گا۔ انسان کو عزتِ نفس ملے گی۔ کوئی کسی کو ناحق قتل نہیں کرے گا۔ کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا۔دولت کی منصفانہ تقسیم ہوگی۔ بڑی بڑی جاگیر داریاں ختم ہو نگی۔ گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ،مہنگائی،بھتہ خوری، اسٹریٹ کرائمز،کرپشن ، بے روزگاری اورپاکستان میں بیرونی مداخلت ختم ہوگی۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرضوں سے نجات حاصل کریں گے امریکی تسلط اور غلامی سے چھٹکارا ملے گا، سب سے بڑی بات کہ ہمارا ربّ ہم سے خوش ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پاکستان میں مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست جیسی اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنے کی توفیق عطا فرما ئے آمین۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ