وجود

... loading ...

وجود

خطرے کی گھنٹی

هفته 09 دسمبر 2023 خطرے کی گھنٹی

ایم سرور صدیقی

لگتاہے عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں ہر آنے والے دن میں موصوف کے لئے عجیب و غریب اور نت نئی باتوںکا انکشاف ہورہاہے لوگوںکے ذہنوںمیں ایک سوال گردش کررہاہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کی کردارکشی کرکے ان کی شخصیت کو مسخ کیا جارہا ہو شاید ان کے سیاسی مخالفین ایسا ہی چاہتے ہیں جبکہ تحریک ِ انصاف کے کارکنوںکا الزام ہے کہ عمران خان کا الیکشن میں حصہ لینا سیاست اور جمہوریت پر قابض مافیا کے لیے ڈراؤنا خواب بن چکا ہے وہ ہرقیمت پر عمران خان کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بدترین شکست ان کا مقدر ہے! اس لیے ہر قسم کا حربہ آزما کر عمران خان کو الیکشن سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔
عمران خان پر اس وقت سینکڑوں مقدمات چل رہے ہیں ایک کیس میں ضمانت ہوتی ہے تو دوسرے کی سماعت شروع ہو جاتی ہے۔ عمران خان کے خلاف تین مقدمات انتہائی خطرناک ہیں۔ ایک سائفر اور دوسرے کا تعلق9مئی سے ہے جس کے نتیجہ میں ایک مقبول ترین پارٹی ٹکے ٹوکری ہوگئی۔ بڑے بڑے رہنمائوں نے عمران خان سے اظہارِ لاتعلقی کرڈالا۔ عملاً پارٹی تبربترہوگئی اور تادم ِ تحریر9مئی کی وضاحتیں اور صفائیاں پیش کی جارہی ہیں ۔تیسرے خطرناک مقدمہ کا تعلق بشریٰ بی بی سے ہے ،جن سے عدت کے دوران نکاح کا شور مچا ہوا ہے۔ بشریٰ بی بی کے سابقہ شوہر خاور مانیکا کے تہلکہ خیز انٹرویو کے بعدعمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی نے ایک نیا موڑ لے لیاہے، اب گھرکے بھیدی نے لنکا ڈھادی ہے ۔خاور مانیکا کے گھریلو ملازم نے نکاح سے پہلے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے درمیان ناجائز تعلقات کی گواہی دیدی اور عدالت کو بتا یا کہ عمران، خاور مانیکا کی غیرموجودگی میں بشریٰ بی بی سے ملنے آتے تھے۔سول جج اسلام آباد قدرت اللہ نے بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کی جانب سے دائر مبینہ غیر شرعی نکاح کیس کی سماعت کی، عدالت نے مقدمے کے قابل سماعت ہونے سے متعلق مزید دلائل طلب کرلئے ہیں۔ اس سے پہلے بشری ٰ بی بی کے سابقہ شوہرخاور مانیکا عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور حاضری لگوا کر واپس روانہ ہو گئے۔ دوران سماعت مقدمہ کے چوتھے گواہ خاور مانیکا کے گھریلو ملازم محمد لطیف نے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کا بنی گالہ میں خاور مانیکا کے گھر2015 ء میں آنا جانا شروع ہوا ان کا رات کے وقت آنا جانا زیادہ تھا اور وہ ہمیشہ خاور مانیکا کی غیر موجودگی میں آتے اور دونوں ساتھ کمرے میں چلے جاتے ، بشریٰ بی بی کا نمبر بند ملنے پر خاور مانیکا مجھے ان سے بات کرانے کا کہتے تھے ۔ خاور مانیکا کا فون آنے پر جب کمرے میں گیا تو دونوں کو قابل اعتراض حالت میں پایا ، پہلی مرتبہ ان کی یہ حالت میں دیکھ کر میرے زمین پاؤں کے نیچے سے نکل گئی ۔میں نے فوراًخاور مانیکا کو اطلاع دی، اس حالت میں انہیں تین چار بار دیکھا ، بعد میں خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کی لڑائیاں شروع ہو گئیں اور 2017 ء میں خاور مانیکا نے بشریٰ بی بی کو طلاق دیدی۔ گواہ محمد لطیف نے بیان میں کہا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو کئی بار ڈرائنگ روم میں بھی نازیبا حرکات کرتے دیکھا ۔ خاور مانیکا کے کہنے پر کئی بار عمران خان کو گھر سے نکالا ، خاور مانیکا کی فون پر بات کرانے بشریٰ بی بی کے پاس اندر جاتا تو مجھے ڈانٹ پڑتی ، خاور مانیکا درمیان میں نہ ہوتے تو بشریٰ بی بی مجھے نوکری سے نکال دیتی۔ عمران خان کے خلاف دوسراا خطرناک مقدمہ سائفر سے متعلق ہے جس کا منطقی انجام عمرقید یا سزائے موت ہو سکتا ہے ۔ ایسا ہواتو یہ ملکی تاریخ پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرے گا۔عمران خان کو بھی ذوالفقارعلی بھٹو جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ بھٹو کی پھانسی کی سزا کو تو آج عدالتی قتل قراردیا جارہاہے۔ عمران خان کو سزا ہوگئی تو اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ بہرحال اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں سیاست کے نام پر چلنے والے فیملی لمیٹڈ کاروباروں نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے بائیس کروڑ عوام پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والوںکے جانشینوں کی ذاتی قابلیت پوچھی جائے تو سب ایک دوسرے کو تکتے رہ جاتے ہیں بیشترکا تعلق پاکستان کے کرپٹ ترین خاندانوں سے ہے جن کے خلاف کئی دہائیوں سے کرپشن، آمدن سے زائد اثاثوں، بے نامی اکائونٹس میں اربوں کھربوں کی ٹرانزیکشن کے مقدمات چل رہے ہیں۔ ملزمان کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ اس حمام میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان بھی شامل ہوگئے ہیں جن کے خلاف توشہ خانہ کیس، قادر یونیورسٹی سمیت کئی مقدمات زیر ِ سماعت ہیں لیکن اس سے بھی انکار محال ہے کہ ان الزامات کے باوجود عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول و ہردلعزیز سیاستدان ہیں جن کے حامیوں کو یقین ہے کہ ہمارے لیڈر کے خلاف من گھڑت الزامات پرعوام کا شعور اور جذبہ ظلمت کے اندھیروں میں بھی امید کی شمع جلائے ہوئے ہے!!
بدترین فسطائیت کے دور میں بھی پاکستان کے غیور عوام نے جس طرح عمران خان کو پزیرائی دی ہے، وہ قابلِ تحسین ہے! جس ملک میں تھوڑے سے لوگ امیر جبکہ باقی غریبوں کا سمندر ہو، اور وسائل پر قابض طبقہ صرف ذاتی مفادات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں ترتیب دے، وہاں کبھی استحکام نہیں آسکتا جبکہ تحریک ِ انصاف کے مخالفین عمران خان کو پلے بوائے، یہودی ایجنٹ اور اسلامی ٹچ دینے والاڈرامے باز قرار دیتے نہیں تھکتے۔ اب عمران خان نے ایک سابق آرمی چیف کوعدالت میں طلب کرنے کااعلان کیا ہے۔ بہرحال عمران خان کے خلاف
تین خطرناک مقدمات تحریک ِ انصاف کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جس کے نتیجہ میںعمران خان کو تاحیات نااہل کیاجاسکتاہے ،یا پارٹی پر پابندی لگاکر کالعدم قراردیا جاسکتاہے کیونکہ حالات نے عمران خان کے گرد ایسا شکنجہ کس دیا ہے جس سے بظاہر بچ نکلنا محال لگتاہے۔ کوئی معجزہ ہو جائے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر