... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
پاکستان میں ہمارا عدالتی نظام ایک عام اور غریب آدمی کے لیے امید کی آخری کرن ہے ورنہ تو پولیس سمیت جتنے بھی انتظامی اداروں میں بیٹھے ہوئے وحشی افراد درندے کی طرح انسانوں کو چیر پھاڑ کررکھ دیں اگر کسی کو نہیں یقین تو لاہور میں سابق پولیس انسپکٹرعابد باکسر ابھی زندہ ہے جو خود چشم کشا حقائق کا عینی شاہد ہے۔ اسی طرح کے افراد سے ملک بھر کے ادارے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن ظلم کے ان اندھیروں میں روشنی کی اگر کوئی کرن ہے تو وہ ہماری عدالتیں ہی ہیں اور ان میں بھی سستا اور فوری انصاف اگر کہیں غریب انسان کو ملتا ہے تو وہ وفاقی محتسب کی عدالت ہے جہاں پھوٹی کوڑی سے بھی محتاج ان پڑھ شخص کسی نہ کسی طرح اپنی آواز وفاقی محتسب تک پہنچا دے بس پھر اس کے بعد یہ ادارہ حرکت میں آتا ہے تو انصاف اس غریب انسان کے دروزاے پر ہاتھ باندھے پہنچ جاتا ہے۔ اس ادارے کو اعجاز قریشی اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی محنت نے جتنا عوامی بنا دیا ہے شائد ہی کوئی اور ادارہ انکے مقابل آنے کی جرأت کرسکتا ہو، اسی طرح پنجاب میں صوبائی محتسب کا ادارہ بھی دن رات عوام کی خدمت میں مصروف ہے، خاص کر اس ادارے کے سیکریٹری طاہر رضا ہمدانی نے عام انسان کی سہولت اور انصاف کے حصول میں آسان رسائی کے لیے جو اقدامات کردیے ہیں وہ بھی قابل تعریف ہیں جس طرح محتسب کے یہ دو ادارے عام انسان کو انصاف پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں، اسی طرح مرکزی سطح پر ایک اور ادارہ بھی کام کرتا ہے لیکن اسکے کام میں درخواست دہندہ کو وہ سکون حاصل نہیں ہوتا تھا جو وفاقی محتسب میں ایک عام انسان درخواست دینے کے بعد محسوس کرتا ہے کہ اب اسکا کام کنارے لگ جائیگا لیکن جب سے حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سُپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر)مظہر عالم میاں خیل کوتین سال کی مُدت کے لئے کمپٹیشن اپیلٹ ٹریبیونل کا چیئرمین مُقرر کیا ہے تب سے متاثرین کو امید ہو چکی ہے کہ اب انکے کام بھی اسی طرح ہونگے وفاقی محتسب کررہے ہیں اِس وقت ٹریبیونل میں 212 اپیلیں زیرِاِلتوا ہیں پچھلے دس سال میں سے ساڑھے سات سال ٹریبیونل غیر فعال رہا ہے جِس کی وجہ سے کاروباری ادارے ہائی کورٹ میں سی سی پی آرڈرز کے خلاف رِٹ پٹیشنز دائر کرتے رہے جنکی تعداد 140 کے قریب ہے فیصلوں میں تاخیر سے چینی ، سیمنٹ ، کھاد،ٹیلی کام، بینکوں اوراشیائے صرف سمیت اہم شعبوں میں ضروری سی سی پی آرڈرز کے نفاذ پر منفی اثر ہواہے جبکہ ٹریبیونل شوگر کارٹل کیس کی سماعت بھی کر رہا ہے جس میں سی سی پی نے پاکستان شوگر مِلز ایسوسی ایشن اور اُس کی ممبر شوگر مِلز پر 44 ارب رُوپے جُرمانہ بھی عائدکررکھا ہے اور یہ تمام کے تمام پیسے ان غریب محنت کش کسانوں کے ہیں جو سارا سال محنت کرتے ہیں مٹی میںمٹی ہو جاتے ہیں اور پھر سال کے بعد جب انہیں انکی محنت کا پھل ملنا ہوتا ہے تو تب یہ شوگر مافیا انکے پیسوں پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے انہیںتڑپاتا ہے انکے بچوں کے مستقبل سے کھیلتا ہے اور پھر انہیں عدالتوں میں گھسیٹتا ہے لیکن انہیں انکے پیسے نہیںدیتا اب اس اداے کے سربراہ کے طور پر ایسے شخص جسٹس (ر)مظہر عالم میاں خیل کو لگایا گیا ہے جسکا ماضی بے داغ ہے اور عوامی دکھ درد ان کے اندرکوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اس ادارے کی سربراہی بلا شبہ ایسے ہی شخص کو سونپی جانی چاہیے تھی جو فیصلوں کو تیزی سے انکے انجام تک پہنچائے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے1982 میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے والے مظہر عالم میاں خیل نے ہر عہدے کے ساتھ خوب انصاف کیا اور انکا پیشہ ورانہ کیریئراس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ایسے چند اور افراد اگر پاکستان کو مل جاتے تو آج پاکستان بھی دنیا کے سر فہرست ممالک میں ہوتا 1982 میں اپنی وکالت کا آغاز کرنے والے اس نوجوان وکیل نے انصاف غریب کی دہلیز پر پہنچانے کا جو سلسلہ شروع کیا وہ اب تک جاری ہے۔ ان کی زندگی میں بہت سی بہاریں بھی آئی اور خزاں کا موسم بھی انہوں نے دیکھا آپ نائب صدر اور سیکریٹری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ڈی آئی خان کے عہدے پر فائز رہے، نائب صدر اور سیکرٹری ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ڈی آئی خان بنچ کے عہدے پر فائز رہے ۔سیشن 1999 سے 2003 اور 2004 سے 2009 تک N.W.F.P بار کونسل کے ممبر بھی رہے سال 1998 سے 2000 تک لاء کالج، گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان میں بطور وزٹنگ پارٹ ٹائم لیکچرار رہے۔ 7-9-2009 کو ایڈیشنل جج کے طور پر بنچ میں شامل ہوئے اور 5-9-2011 کو پشاور ہائی کورٹ کے مستقل جج کے عہدے پر فائز ہوئے سرحد یونیورسٹی کے ممبر سنڈیکیٹ کے طور پربھی رہے اورچیئرمین الیکشن ٹربیونل اینڈ کمپنیز جج کے طور پربھی کام کیا مینگورہ بینچ میں پراونشل بار کونسل خیبرپختونخوا کی انرولمنٹ کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ پشاور ہائی کورٹ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے ممبر کے طور پربھی کام کیا 8 اپریل 2014 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا ۔اپنے پورے کیرئیر میں معزز جج نے انصاف اور قانون کی حکمرانی میں گہری دلچسپی لی امید ہے کہ اب کمپٹیشن اپیلٹ ٹریبیونل میں عرصہ دراز سے سے زیرالتوا کیس جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچیں گے یہ ادارہ صرف پاکستان میںہی کام نہیںکرتا بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اس ادارے کا نیٹ ورک ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اس ادارے کا بہت اچھا کام جارہا ہے اور اگر ہم یونائیٹڈ کنگڈم کمپیٹیشن اپیل ٹربیونل کی بات کریں تو وہاں بھی یہ ایک ماہر عدالتی ادارہ ہے جس میں قانون، معاشیات، کاروبار اور اکاؤنٹنسی میں بین الضابطہ مہارت ہے جس کا کام مسابقت یا اقتصادی ضابطہ کار کے مسائل سے متعلق مقدمات کی سماعت اور فیصلہ کرنا ہے مسابقتی اپیل ٹربیونل (“ٹربیونل”) انٹر پرائز ایکٹ 2002 کے سیکشن 12 اور شیڈول 2 کے ذریعہ بنایا گیا تھا جو 1 اپریل 2003 کو نافذ ہوا تھا ٹریبونل کا دائرہ اختیار پورے برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے جہاںمقدمات کی سماعت تین ممبران پر مشتمل ٹریبونل کے سامنے کی جاتی ہے جن میں صدر یا چیئرمین اور دو عام ممبران ہوتے ہیں چیئر مین انگلینڈ اور ویلز کی ہائی کورٹ ( اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں مساوی عدالتیں) کے جج ہوتے ہیں اور عام اراکین قانون، کاروبار، اکاؤنٹنسی، معاشیات اور دیگر متعلقہ شعبوں میں مہارت رکھتے ہیںہم انکے نظام انصاف سے اپنا مقابلہ تو نہیںکرسکتے لیکن عوام کو انصاف دینے میں اپنا حصہ تو ڈال سکتے ہیں کیونکہ عدالتیں ہی پاکستان کی پسماندہ ترین عوام کی امید کی آخری کرن ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔