وجود

... loading ...

وجود

عدالتی نظام اور وحشی درندے

منگل 05 دسمبر 2023 عدالتی نظام اور وحشی درندے

میری بات/روہیل اکبر
پاکستان میں ہمارا عدالتی نظام ایک عام اور غریب آدمی کے لیے امید کی آخری کرن ہے ورنہ تو پولیس سمیت جتنے بھی انتظامی اداروں میں بیٹھے ہوئے وحشی افراد درندے کی طرح انسانوں کو چیر پھاڑ کررکھ دیں اگر کسی کو نہیں یقین تو لاہور میں سابق پولیس انسپکٹرعابد باکسر ابھی زندہ ہے جو خود چشم کشا حقائق کا عینی شاہد ہے۔ اسی طرح کے افراد سے ملک بھر کے ادارے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن ظلم کے ان اندھیروں میں روشنی کی اگر کوئی کرن ہے تو وہ ہماری عدالتیں ہی ہیں اور ان میں بھی سستا اور فوری انصاف اگر کہیں غریب انسان کو ملتا ہے تو وہ وفاقی محتسب کی عدالت ہے جہاں پھوٹی کوڑی سے بھی محتاج ان پڑھ شخص کسی نہ کسی طرح اپنی آواز وفاقی محتسب تک پہنچا دے بس پھر اس کے بعد یہ ادارہ حرکت میں آتا ہے تو انصاف اس غریب انسان کے دروزاے پر ہاتھ باندھے پہنچ جاتا ہے۔ اس ادارے کو اعجاز قریشی اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی محنت نے جتنا عوامی بنا دیا ہے شائد ہی کوئی اور ادارہ انکے مقابل آنے کی جرأت کرسکتا ہو، اسی طرح پنجاب میں صوبائی محتسب کا ادارہ بھی دن رات عوام کی خدمت میں مصروف ہے، خاص کر اس ادارے کے سیکریٹری طاہر رضا ہمدانی نے عام انسان کی سہولت اور انصاف کے حصول میں آسان رسائی کے لیے جو اقدامات کردیے ہیں وہ بھی قابل تعریف ہیں جس طرح محتسب کے یہ دو ادارے عام انسان کو انصاف پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں، اسی طرح مرکزی سطح پر ایک اور ادارہ بھی کام کرتا ہے لیکن اسکے کام میں درخواست دہندہ کو وہ سکون حاصل نہیں ہوتا تھا جو وفاقی محتسب میں ایک عام انسان درخواست دینے کے بعد محسوس کرتا ہے کہ اب اسکا کام کنارے لگ جائیگا لیکن جب سے حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سُپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر)مظہر عالم میاں خیل کوتین سال کی مُدت کے لئے کمپٹیشن اپیلٹ ٹریبیونل کا چیئرمین مُقرر کیا ہے تب سے متاثرین کو امید ہو چکی ہے کہ اب انکے کام بھی اسی طرح ہونگے وفاقی محتسب کررہے ہیں اِس وقت ٹریبیونل میں 212 اپیلیں زیرِاِلتوا ہیں پچھلے دس سال میں سے ساڑھے سات سال ٹریبیونل غیر فعال رہا ہے جِس کی وجہ سے کاروباری ادارے ہائی کورٹ میں سی سی پی آرڈرز کے خلاف رِٹ پٹیشنز دائر کرتے رہے جنکی تعداد 140 کے قریب ہے فیصلوں میں تاخیر سے چینی ، سیمنٹ ، کھاد،ٹیلی کام، بینکوں اوراشیائے صرف سمیت اہم شعبوں میں ضروری سی سی پی آرڈرز کے نفاذ پر منفی اثر ہواہے جبکہ ٹریبیونل شوگر کارٹل کیس کی سماعت بھی کر رہا ہے جس میں سی سی پی نے پاکستان شوگر مِلز ایسوسی ایشن اور اُس کی ممبر شوگر مِلز پر 44 ارب رُوپے جُرمانہ بھی عائدکررکھا ہے اور یہ تمام کے تمام پیسے ان غریب محنت کش کسانوں کے ہیں جو سارا سال محنت کرتے ہیں مٹی میںمٹی ہو جاتے ہیں اور پھر سال کے بعد جب انہیں انکی محنت کا پھل ملنا ہوتا ہے تو تب یہ شوگر مافیا انکے پیسوں پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے انہیںتڑپاتا ہے انکے بچوں کے مستقبل سے کھیلتا ہے اور پھر انہیں عدالتوں میں گھسیٹتا ہے لیکن انہیں انکے پیسے نہیںدیتا اب اس اداے کے سربراہ کے طور پر ایسے شخص جسٹس (ر)مظہر عالم میاں خیل کو لگایا گیا ہے جسکا ماضی بے داغ ہے اور عوامی دکھ درد ان کے اندرکوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اس ادارے کی سربراہی بلا شبہ ایسے ہی شخص کو سونپی جانی چاہیے تھی جو فیصلوں کو تیزی سے انکے انجام تک پہنچائے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے1982 میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے والے مظہر عالم میاں خیل نے ہر عہدے کے ساتھ خوب انصاف کیا اور انکا پیشہ ورانہ کیریئراس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ایسے چند اور افراد اگر پاکستان کو مل جاتے تو آج پاکستان بھی دنیا کے سر فہرست ممالک میں ہوتا 1982 میں اپنی وکالت کا آغاز کرنے والے اس نوجوان وکیل نے انصاف غریب کی دہلیز پر پہنچانے کا جو سلسلہ شروع کیا وہ اب تک جاری ہے۔ ان کی زندگی میں بہت سی بہاریں بھی آئی اور خزاں کا موسم بھی انہوں نے دیکھا آپ نائب صدر اور سیکریٹری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ڈی آئی خان کے عہدے پر فائز رہے، نائب صدر اور سیکرٹری ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ڈی آئی خان بنچ کے عہدے پر فائز رہے ۔سیشن 1999 سے 2003 اور 2004 سے 2009 تک N.W.F.P بار کونسل کے ممبر بھی رہے سال 1998 سے 2000 تک لاء کالج، گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان میں بطور وزٹنگ پارٹ ٹائم لیکچرار رہے۔ 7-9-2009 کو ایڈیشنل جج کے طور پر بنچ میں شامل ہوئے اور 5-9-2011 کو پشاور ہائی کورٹ کے مستقل جج کے عہدے پر فائز ہوئے سرحد یونیورسٹی کے ممبر سنڈیکیٹ کے طور پربھی رہے اورچیئرمین الیکشن ٹربیونل اینڈ کمپنیز جج کے طور پربھی کام کیا مینگورہ بینچ میں پراونشل بار کونسل خیبرپختونخوا کی انرولمنٹ کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ پشاور ہائی کورٹ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے ممبر کے طور پربھی کام کیا 8 اپریل 2014 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا ۔اپنے پورے کیرئیر میں معزز جج نے انصاف اور قانون کی حکمرانی میں گہری دلچسپی لی امید ہے کہ اب کمپٹیشن اپیلٹ ٹریبیونل میں عرصہ دراز سے سے زیرالتوا کیس جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچیں گے یہ ادارہ صرف پاکستان میںہی کام نہیںکرتا بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اس ادارے کا نیٹ ورک ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اس ادارے کا بہت اچھا کام جارہا ہے اور اگر ہم یونائیٹڈ کنگڈم کمپیٹیشن اپیل ٹربیونل کی بات کریں تو وہاں بھی یہ ایک ماہر عدالتی ادارہ ہے جس میں قانون، معاشیات، کاروبار اور اکاؤنٹنسی میں بین الضابطہ مہارت ہے جس کا کام مسابقت یا اقتصادی ضابطہ کار کے مسائل سے متعلق مقدمات کی سماعت اور فیصلہ کرنا ہے مسابقتی اپیل ٹربیونل (“ٹربیونل”) انٹر پرائز ایکٹ 2002 کے سیکشن 12 اور شیڈول 2 کے ذریعہ بنایا گیا تھا جو 1 اپریل 2003 کو نافذ ہوا تھا ٹریبونل کا دائرہ اختیار پورے برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے جہاںمقدمات کی سماعت تین ممبران پر مشتمل ٹریبونل کے سامنے کی جاتی ہے جن میں صدر یا چیئرمین اور دو عام ممبران ہوتے ہیں چیئر مین انگلینڈ اور ویلز کی ہائی کورٹ ( اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں مساوی عدالتیں) کے جج ہوتے ہیں اور عام اراکین قانون، کاروبار، اکاؤنٹنسی، معاشیات اور دیگر متعلقہ شعبوں میں مہارت رکھتے ہیںہم انکے نظام انصاف سے اپنا مقابلہ تو نہیںکرسکتے لیکن عوام کو انصاف دینے میں اپنا حصہ تو ڈال سکتے ہیں کیونکہ عدالتیں ہی پاکستان کی پسماندہ ترین عوام کی امید کی آخری کرن ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر