... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
52 سالہ نکھل گپتا عرف’ نِک ‘ منشیات و غیر قانونی اسلحہ کا اسمگلرہے ۔ مبینہ طور پر سرکار نے اس سے ٹارگٹ کلنگ کا کام لینے کی کوشش کی ۔ وہ اپنے ہدف کو تو ٹھکانہ نہیں لگا سکا مگر ملک کی ساکھ کو ملیا میٹ کردیا۔ نکھل اپنے مذکورہ بالا جرائم کے سبب گجرات پولیس کو مطلوب تھا مگر اس کو اپنے کام کے لیے سرکار کی واشنگ مشین میں پوتر کردیا گیا ۔موصوف فی الحال جمہوریہ چیک کے اندر زیر حراست ہے اور بہت جلد امریکہ اسے تحویل میں لے کر اس پر کرائے کا قتل، سازش اور دھوکہ دہی کے الزامات کا مقدمہ چلائے گا۔امریکی اٹارنی ڈیمیئن ولیم نے ایک بیان میں کہا، “ملزم نے ہندوستان سے یہاں نیویارک شہر میں، ایک ایسے ہندوستانی نژاد امریکی شہری کو قتل کرنے کی سازش کی، جس نے کھلے عام سکھوں کے لیے ایک خودمختار ریاست کے قیام کی وکالت کی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ “ہم امریکی سرزمین پر امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوششوں کو برداشت نہیں کریں گے ۔ہندوستان کے لیے خالصتان کا مطالبہ بغاوت کے مترادف ہے لیکن امریکہ کا قانون ایسا نہیں سمجھتا۔ حکومت ہند کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے تھی کہ گرپتونت سنگھ پنو ایک زمانے میں ہندوستانی تھا مگر اب نہیں ہے اور اس امریکی شہری پر ہندوستان کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوسکتا ۔
ماورائے قانون قتل نہ صرف امریکہ بلکہ ہندوستان کے اندر بھی غیر قانونی حرکت ہے گوکہ اس پر کھلے عام سرکارکے ایماء پرعمل ہوتا ہے ۔ عتیق احمد اور وکاس دوبے کا انکاونٹر کرکے اس کا سیاسی فائدہ بھی اٹھایا جاتا ہے ۔ نکھل گپتا نے گرپتونت کے قتل کی سازش میں جس لاپروائی کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ یہ ساری دنیا میں مودی سرکار کا نام روشن کرنے کے لیے کافی ہے ۔ ملزم گپتا نے اس مہم کو انجام دینے کے اپنے منشیات کی دنیا میں سے جس فرد کو جرائم پیشہ سمجھ کر ‘ہٹ مین’کی تلاش کے لیے منتخب کیا وہ دراصل امریکہ کی ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی(DEA) کا ایک خفیہ ایجنٹ تھا۔ اس ایجنٹ نے امریکی قانون نافذ کرنے والے انڈر کور افسر کا گپتا سے ایک ہٹ مین کے طور پرتعارف کروایا ۔ اس کے بعد اپنے آقا سمیت نکھل گپتا بڑے آرام سے ان کے جال میں پھنستا چلا گیا ۔اب یہ حال ہے کہ ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کی ایڈمنسٹریٹر این ملگرام سینہ ٹھونک کرکہتے ہیں “جب ایک غیر ملکی سرکاری ملازم نے مبینہ طور پر امریکی سرزمین پر ایک امریکی شہری کو قتل کرنے کے لیے منشیات اوراسلحہ کے بین الاقوامی اسمگلر کو بھرتی کرنے کا ڈھٹائی سے ارتکاب کیا، تو ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی اس سازش کو روکنے کے لیے موجود تھی۔
ہندوستانی فلموں میں جاسوسی کی جو بڑی بڑی حماقتیں دکھائی جاتی ہیں ان کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے لیکن اس تفصیل کے سامنے تو وہ سب پانی بھرتے ہیں۔ آر ایس ایس تقریباً سو سال پرانی تنظیم ہے ۔ اس کے ہزاروں کا رکن امریکہ میں ‘ہندو سیوک سنگھ’ کے نام سے کرتے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے وہ اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سوال یہ ہے اس سازش پر عملدر آمد کرنے کے لیے ان میں سے کسی کی خدمات کیوں نہیں لی گئیں؟ اس سوال کے دو جوابات ہوسکتے ہیں اول تو یہ وہ نااہل ہیں یا بزدل ہیں ۔ ان کے اندر ایسے کام کو کرنے کی نہ صلاحیت ہے اور نہ جرأت ہے ۔ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کرنے کے سوا وہ کوئی اور کام نہیں کرسکتے نیز اس طرح کے پر خطر کاموں میں ان پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔ خفیہ ایجنسی کو اگر سنگھ پریوار پر اعتبار نہ ہو تو کسی باہر کے صاف ستھرے آدمی کی خدمات حاصل کرتی مگر اس کے لیے ایک منشیات اور اسلحہ کا تاجر ہی ملا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ نکھل گپتا آخر کس کوغیر قانونی اسلحہ فروخت کرتا تھا کیونکہ ہندوستانی فوج کو ہتھیار کی فراہمی کے لیے وزارت دفاع موجود ہے ۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اس نے یہ کاروبار کرنے کے لیے گجرات کو اپنا مرکز کیوں بنایا ؟ وہ اگر ایسا نہ کرتا تو گجرات پولیس کو مطلوب نہ ہوتا ۔ اس سے قبل اڈانی کے زیر اہتمام بندر گاہ پر ہزاروں کروڈ کی ہیروئن پکڑی گئی اور اب گجرات کے اندر منشیات کا ایک مطلوب شخص جاسوسی کے الزام میں امریکہ کے ہتھے چڑھ گیا ۔ دنیا بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی اور گجرات ہی کے رہنے والے وزیر داخلہ کے گھر میں آخریہ کیا چل رہا ہے ؟ اتنی نازک مہم پر کام کرنے والا نکھل گپتا اس قدر کند ذہن ہے کہ وہ پہلے تو نیویارک کے علاوہ سان رانسسکو میں بھی اپنے ہدف کے بارے میں معلومات دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اسے کینیڈا میں بھی کئی لوگوں کا صفایہ کرنا ہے ۔
اس احمق کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ فون کی ساری گفتگو نکال کر شواہد کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے ۔ وہ اپنے فون پر ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا بھی اعتراف کرلیتا ہے اس طرح کینیڈا کے وزیر اعظم کو ٹروڈو کے لیے بھی آسانی فراہم کردیتا ہے ۔امریکی عدالت میں جمع کردہ فردِ جرم کے ساتھ ہندوستانی ایجنٹ سے موصول شدہ پیغامات کے اسکرین شاٹس بھی ہیں ۔ ان میں سے ایک میں اسے سارے الزامات سے بری کرنے کا ذکر ہے حالانکہ اس معلومات کا امریکی ایجنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان پیغامات میں رقومات کے لین دین کی بات اور اس تصدیق بھی موجود ہے ۔ نام نہاد ہٹ مین کو پیشگی رقم ایک ایسی گاڑی میں دی گئی جس میں چہار جانب کیمرے لگے ہوئے تھے اور اس ساری کارروائی کی فلمبندی کی جاچکی ہے ۔ ایک ایسی ویڈیو کال بھی عدالت میں پیش کی گئی ہے جس میں نکھل گپتا اپنے ساتھ بیٹھے چار لوگوں کو دکھا کر کہتا ہے کہ ہم سب اس کارروائی کا انجام دیکھنے کا شدت انتظار کررہے ہیں ۔ ایک پیغام میں وہ کہتا ہے کہ گر پتونت نجر کی موت کے بعد محتاط ہوگیا ہوگا اس لیے اگر کوئی اس کے ساتھ ہو تو اسے بھی مار دیا جائے ۔
سرکار کو اس مہم سے دستبردادر ہونے سے روکنے کے لیے وہ پہلے تو وزیر اعظم کے دورے سے قبل ہی کام کو انجام دینے پراصرار کرتا ہے مگر اس میں تاخیر بعد کہتا ہے دورے کے دوران یہ نہیں کیا جائے ۔ اس کے باوجود اگر وزارت خارجہ کا ترجمان کہے کہ اس میں سرکار ملوث نہیں ہے تو اس پر کون یقین کرے گا ؟ اس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوجائے گا کہ اگر حکومت نے نہیں تو کس کی ایماء پر اس سازش کو رچا گیا اور سرکار ان کو کیا سزا دے گی یا نہیں ؟ اس معاملے کو اگر کوئی سنگھ پریوار کی جانب موڑنے کی کوشش کرے تو اس میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔ نکھل گپتا کا امریکی افسران کو یہ ساری معلومات فراہم کرکے آسانی پکڑا جانا اس کے ڈبل ایجنٹ ہونے کا شک بھی پیدا کرتا ہے ۔ معروف صحافی شیکھر گپتا اس معاملے کو اتنے دن صیغۂ راز میں رکھنے پر شک ظاہر کرتے ہیں لیکن شواہد جمع کرنے کے لیے یہ ضروری تھا ۔ اس کے علاوہ اخبارواشنگٹن پوسٹ نے یہ بھی لکھا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو اس مبینہ سازش کے بارے میں جب اگلے ماہ یعنی جولائی علم ہوگیا اور اس نے اسے ہندوستانی حکومت کے اعلیٰ حکام کے ساتھ اٹھایا۔
اخباری رپورٹ کے مطابق اگست کے شروع میں قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے خطے کے ایک اور ملک میں اپنے ہم منصب اجیت ڈوول سے ملاقات کے دوران ذاتی طور پر اپنے خدشات پیش کیے ۔ آگے چل کر اسی پیغام کو سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے ہندوستان کی خارجہ خفیہ ایجنسی کے ریسرچ اینڈ اینیلسز ونگ کے سربراہ روی سنہا سے ملنے کے لیے نئی دہلی کا دورہ کیا ۔ صدر بائیڈن نے بھی اس معاملے کو ستمبر میں نئی دہلی کے اندر گروپ۔ 20 سربراہی اجلاس میں نریندرمودی سے ملاقات کے دوران اٹھایا۔ یہ سب ہونے کے باوجود جب پچھلے ہفتہ اس سازش کے بارے میں پہلی بار فنانشل ٹائمز کی رپورٹ شائع کی تو ہندوستانی عہدے داروں نے حیرت اور تشویش کا اظہار کیا ۔امریکی اہلکار ایڈرین واٹسن کے مطابق،ان ہندوستانی ہم منصب نے کہا کہ اس نوعیت کی سرگرمی ان کی پالیسی نہیں ہے ۔
حکومت ِ ہندنے اس میں ملوث ہونے کے الزامات کی چھان بین کے لیے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری قائم کردی ہے مگر ‘اب پچھتاوے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت’۔ نکھل کے ذریعہ جو نقصان ہونا تھا سو ہوچکا۔ یہ تو اتفاق ہے کہ جنوب ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے رسوخ کوکم کرنے کے لیے امریکہ کو ہندوستان کی ضرورت ہے ورنہ کب کا ہنگامہ ہوگیا ہوتا لیکن اس کے ذریعہ چین ہندوستان پر دباو ڈال کر بلیک میل کرے گا اور حکومت ہند کے لیے اس کے احکامات کی بجا آوری کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوگا۔ نکھل گپتا عرف نِک کی یہ رسوائی ایک فرد کی ناکامی نہیں ہے بلکہ اس کی ذمہ داری اس کے آقاؤں پر ہے جنھوں نے ایک غلط کام کے لیے غلط فرد کا انتخاب کرکے عظیم سفارتی غلطی کا ارتکاب کیا۔ ملک کے عوام کو چاہیے کہ وقت آنے پر اس کا ارتکاب کرنے والوں کوقرار واقعی سزا دے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔