... loading ...
حمیداللہ بھٹی
جرمنی،بیلجیئم اورسمندر میں گھراہالینڈ ایک ایساخوبصورت ملک ہے جس کے شہری شخصی آزادی پریقین رکھتے ہیں ۔1768299 آبادی کے اِس ملک کا دارالحکومت ایمسٹرڈیم ہے اور سرکاری زبان کانام ڈچ ہے۔ عالمی عدالت ِ انصاف بھی اسی ملک کے شہر دی ہیگ میں ہے مسلمانوں کی آبادی پانچ فیصد ہی سہی لیکن 83 فیصدعیسائیت کے بعدملک کا دوسرا سب سے بڑا مذہب اسلام ہے۔ یہ ملک اپنے بہترین تعلیمی معیارکے حوالے سے دنیا میں 9ویں نمبرپرہے۔ دنیامیں پھولوں کی تجارت میں اس ملک کا حصہ ساٹھ فیصد کے قریب ہے۔ حالیہ عام انتخابات کے نتائج سے حکومتی تشکیل کا عمل نہایت ہی پیچیدہ ہوچکا ہے جس کی وجہ شہریوں کی اسلام مخالف جماعت کی پزیرائی ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار اتحادی حکومتیں تشکیل پاتی رہی ہیں لیکن موجودہ انتخابی نتائج نے ثابت کردیا ہے کہ اکثریتی آبادی اسلام سے نفرت پر مبنی بیانیے کا شکار اور اب مستقبل میں بڑی تبدیلیاں چاہتی ہے۔ نیز یہ اکثریت یورپی یونین میں خود کوغیر محفوظ تصور کرتی ہے اور دوبارہ الگ تشخص کی خواہشمند ہے۔ حتمی نتائج کے مطابق اسلام دشمن سیاستدان گیرٹ وائلڈرز کی جماعت پی وی وی فریڈم پارٹی نے پارلیمنٹ کی 37نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن یہ حکومت تشکیل دینے کے لیے درکار تعداد سے بہت کم ہے پھربھی قابلِ ذکر سب سے اہم بات یہ ہے کہ فریڈم پارٹی ملک کی تمام جماعتوں میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر نے والی جماعت بن چکی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والا بائیں بازو کا بلاک صرف 24 نشستیں حاصل کر سکا ہے۔ اسی طرح سنٹر رائٹ پارٹی چوبیس نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پرہے۔ انتخابی نتائج کے بعدملک میں حکومت تشکیل دینے کے لیے تمام جماعتوں میں گفت و شنید کا عمل شروع ہو چکا ہے مگر ابھی تک سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے اور اول نمبر پر آنے والی جماعت فریڈم پارٹی کواکثریت ثابت کرنے میں دشواری کا سامنا ہے کیونکہ دیگر جماعتیں دستِ تعاون تھامنے میں پس و پیش کا شکار ہیں جس سے ایسی قیاس آرائیاں تقویت حاصل کرنے لگی ہیں کہ شاید ہی نئی تشکیل پانے والی حکومت اپنی مدت پوری کر سکے۔ اسی بناپرقبل از وقت انتخابات کا امکان ظاہرکیا جانے لگاہے تاکہ ہم خیال جماعتیں واضح اکثریت لیکر ایک مضبوط حکومت تشکیل دینے کے ساتھ اعتماد سے فیصلے کر سکیں۔ موجودہ انتخابی نتائج کی بنیادپر ایک مضبوط و مستحکم حکومت تشکیل پانے کا عمل کسی صورت ممکن نہیں بلکہ موجودہ انتخابی نتائج کی روشنی میں بننے والی حکومت اپنے منشور پر عمل کرنے کے بجائے اتحادی جماعتوں کی خوشنودی برقرار رکھنے تک ہی محدود ہوسکتی ہے ۔
فریڈم پارٹی کو 150رکنی پارلیمنٹ میں حکومت سازی کے لیے 76ارکان کی ضرورت ہے جبکہ اُس کے پاس ارکان کی تعداد محض 37 ہے جو حکومت کی تشکیل کے لیے مناسب نہیں۔ ایسے حالات میں موجودہ حکمران جماعت نے اسلام دشمن گیرٹ وائلڈرزکی جماعت کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے سے بھی صاف انکار کر دیا ہے، جس سے حکومت تشکیل دینے کا عمل آسان نہیں رہا۔ ایک ہی حل ہے کہ زیادہ نشستیں حاصل کرنے والے گیرٹ وائلڈرز اِن حالات میں یا تو اسلام دشمن منشورکے حوالے سے اپنے موقف میں اِس حدتک نرمی کرلیں جو موجودہ حکمران جماعت کے لیے قابلِ قبول ہو یہ اوربھی آسان ہوجاتاہے جب یورپی یونین سے نکلنے کے لیے ریفرنڈم کے لیے حالات کی ناسازگاری کا خود گیرٹ بھی اعتراف کرتے ہیں ۔موقف میں نرمی سے تعاون حاصل کرنے کا عمل آسان ہوسکتا ہے ۔ایسے حالات میںجب یورپی یونین یوکرین کو اسلحہ کی فراہمی پر متفق ہے گیرٹ اِس عمل کے قطعی طورپر خلاف ہیںاور چاہتے ہیں کہ یوکرین کو اسلحہ سپلائی کا عمل فوری طور پر ختم کردیا جائے۔ اسی بناپر گیرٹ اگر بھاگ دوڑ سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو خارجہ امور کی مشکلات ختم نہیں ہوں گی۔ نرمی نہ کرنے کی صورت میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی فریڈم پارٹی کے لیے حکومت بنانے کا مرحلہ سر کرنا دشوار ہوجائے گا اورممکن ہے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے کیونکہ یورپی یونین میں شامل ممالک ایسے کسی عمل کی مزیدحوصلہ افزائی نہیں کریں گے جس سے برطانیہ کے بعد کسی اور ملک کا تنظیم سے الگ ہونے کا راستہ ہموار اورتنظیم سے اختلاف ِ رائے رکھنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اسی بناپرماہرین کا اندازہ ہے کہ ہالینڈ میں ایسی مخلوط حکومت تشکیل پا سکتی ہے جس میں موجودہ حکمران جماعت کے ساتھ دیگر جماعتیں شامل ِاقتدار ہوں۔
گیرٹ وائلڈرز کی جماعت فریڈم پارٹی کے منشور پر موجودہ حکمران جماعت کوایک نہیں کئی اعتراض ہیں۔ حکمران جماعت تمام شہریوں کے لیے برابر حقوق پر یقین رکھتی ہے لیکن گیرٹ کی جماعت کامنشور مساجد،قرآن ،اور حجاب پر پابندی ہے اِس منشورکو موجودہ حکمران جماعت آئین کے منافی تصور کرتی ہے ۔ اسی بناپرموجودہ حکمران جماعت وی وی ڈی پارٹی جس کی اسمبلی میں تعداد24 ہے، زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت سے مل کر حکومت تشکیل دینے سے انکاری ہے اور ایسی کوششوں میں مصروف ہے کہ کسی طرح فارمرزپارٹی اور نیو سوشل پارٹی کوساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنا لے تاکہ ملک میں مذہبی تقسیم کے بڑھتے عمل کو روکاجا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دیگر جماعتوں کو ساتھ ملانے کے دوران حکمران جماعت ایسی کیا پُرکشش پیشکش کرتی ہے جس سے 20نشستوں والی نیو سوشل پارٹی اور 7نشستوں والی فارمرز پارٹی کو گیرٹ وائلڈرز کے ساتھ تعاون کرنے سے روک کر اپنی طرف راغب کرسکے کیونکہ گیرٹ وائلڈرز بھی پوری کوشش میں ہیں کہ کسی طرح حکومت تشکیل دینے کا مرحلہ مکمل کرلیں اور ایساہونے کا امکان کسی حدتک بہرحال موجود ہے کہ نیوسوشل پارٹی اور فارمرز پارٹی اتحادی حکومت میں مناسب حصہ ملنے کے وعدے پر گیرٹ وائلڈرز سے تعاون پر آمادہ ہوجائیں اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف ملک میں مذہبی تقسیم کاعمل خطرناک حد تک بڑھ جائے گابلکہ ہالینڈ جیسے پُرسکون اور آزاد خیال معاشرے میں کئی قسم کی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں اور یورپی یونین کی خارجہ امور کے متعلق طے کی گئی پالیسیاں بھی متاثر ہوں گی جس سے یورپی یونین سے نکلنے کا عمل بڑھے گا۔ اسی لیے ہالینڈ معاشرے نے اگر ٹوٹ پھوٹ سے بچنا اور یورپی یونین سے اتحاد کی فضا برقرار رکھنی ہے تو گیرٹ وائلڈرز کا راستہ روکنا ہوگا۔
یورپ میں اسلام بیزاری کا عمل صرف ہالینڈ تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر کئی ممالک بھی اِس لہر کابُری طرح شکار اور اسلام کے فروغ کو روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔اِس حوالے سے کئی مغربی ممالک میںمسلمانوں سے تعصب پایاجاتاہے بلکہ فرانس نے توحجاب و دیگر اسلامی اقدار پر پابندیاں عائدکردی ہیں۔ پیرس کے چارلس ڈیگال جیسے بین الاقوامی ہوئی اڈے پر نماز کی ادائیگی تک کو ناپسندیدہ قراردیا جا چکا حالانکہ یہ عمل مقامی شہریوں کا نہیں بلکہ روانگی کے انتظارمیں بیٹھے مسافروں کا تھا پھر بھی ملک میں ایسی ہاہاکار مچی جسے تعصب کے سواکوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ایسا تعصب آزاد خیال معاشرے کا نہیں کسی مذہبی جنونی کا ہی ہو سکتا ہے۔ اب ہالینڈ میں ایک اسلام دشمن جماعت کا سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر نا ظاہر کرتا ہے کہ مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر انسانی حقوق کے علمبردار یورپ میں اسلام مخالف رائے عامہ میں نہ صرف شدت آتی جارہی ہے بلکہ مسلمانوں پر نئی پابندیاں بھی لگائی جا سکتی ہیں جن پر عمل درآمد اور سختیوں میں بتدریج اضافہ ہوسکتاہے بظاہر لگتاہے مزیدیورپی ممالک کی اسلام دشمن لہرکے زیرِ اثرایسی پالیسیاں بنانے کی حوصلہ افزائی ہو گی جس سے اسلامی تشخص کی حوصلہ شکنی ہو۔ ہالینڈ کے انتخابی نتائج سے تو ایسے ہی اشارے ملتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔