وجود

... loading ...

وجود

ہالینڈ میں اسلام مخالف کی پزیرائی اور حکومت سازی کا مرحلہ

اتوار 03 دسمبر 2023 ہالینڈ میں اسلام مخالف کی پزیرائی اور حکومت سازی کا مرحلہ

حمیداللہ بھٹی

جرمنی،بیلجیئم اورسمندر میں گھراہالینڈ ایک ایساخوبصورت ملک ہے جس کے شہری شخصی آزادی پریقین رکھتے ہیں ۔1768299 آبادی کے اِس ملک کا دارالحکومت ایمسٹرڈیم ہے اور سرکاری زبان کانام ڈچ ہے۔ عالمی عدالت ِ انصاف بھی اسی ملک کے شہر دی ہیگ میں ہے مسلمانوں کی آبادی پانچ فیصد ہی سہی لیکن 83 فیصدعیسائیت کے بعدملک کا دوسرا سب سے بڑا مذہب اسلام ہے۔ یہ ملک اپنے بہترین تعلیمی معیارکے حوالے سے دنیا میں 9ویں نمبرپرہے۔ دنیامیں پھولوں کی تجارت میں اس ملک کا حصہ ساٹھ فیصد کے قریب ہے۔ حالیہ عام انتخابات کے نتائج سے حکومتی تشکیل کا عمل نہایت ہی پیچیدہ ہوچکا ہے جس کی وجہ شہریوں کی اسلام مخالف جماعت کی پزیرائی ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار اتحادی حکومتیں تشکیل پاتی رہی ہیں لیکن موجودہ انتخابی نتائج نے ثابت کردیا ہے کہ اکثریتی آبادی اسلام سے نفرت پر مبنی بیانیے کا شکار اور اب مستقبل میں بڑی تبدیلیاں چاہتی ہے۔ نیز یہ اکثریت یورپی یونین میں خود کوغیر محفوظ تصور کرتی ہے اور دوبارہ الگ تشخص کی خواہشمند ہے۔ حتمی نتائج کے مطابق اسلام دشمن سیاستدان گیرٹ وائلڈرز کی جماعت پی وی وی فریڈم پارٹی نے پارلیمنٹ کی 37نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن یہ حکومت تشکیل دینے کے لیے درکار تعداد سے بہت کم ہے پھربھی قابلِ ذکر سب سے اہم بات یہ ہے کہ فریڈم پارٹی ملک کی تمام جماعتوں میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر نے والی جماعت بن چکی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والا بائیں بازو کا بلاک صرف 24 نشستیں حاصل کر سکا ہے۔ اسی طرح سنٹر رائٹ پارٹی چوبیس نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پرہے۔ انتخابی نتائج کے بعدملک میں حکومت تشکیل دینے کے لیے تمام جماعتوں میں گفت و شنید کا عمل شروع ہو چکا ہے مگر ابھی تک سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے اور اول نمبر پر آنے والی جماعت فریڈم پارٹی کواکثریت ثابت کرنے میں دشواری کا سامنا ہے کیونکہ دیگر جماعتیں دستِ تعاون تھامنے میں پس و پیش کا شکار ہیں جس سے ایسی قیاس آرائیاں تقویت حاصل کرنے لگی ہیں کہ شاید ہی نئی تشکیل پانے والی حکومت اپنی مدت پوری کر سکے۔ اسی بناپرقبل از وقت انتخابات کا امکان ظاہرکیا جانے لگاہے تاکہ ہم خیال جماعتیں واضح اکثریت لیکر ایک مضبوط حکومت تشکیل دینے کے ساتھ اعتماد سے فیصلے کر سکیں۔ موجودہ انتخابی نتائج کی بنیادپر ایک مضبوط و مستحکم حکومت تشکیل پانے کا عمل کسی صورت ممکن نہیں بلکہ موجودہ انتخابی نتائج کی روشنی میں بننے والی حکومت اپنے منشور پر عمل کرنے کے بجائے اتحادی جماعتوں کی خوشنودی برقرار رکھنے تک ہی محدود ہوسکتی ہے ۔
فریڈم پارٹی کو 150رکنی پارلیمنٹ میں حکومت سازی کے لیے 76ارکان کی ضرورت ہے جبکہ اُس کے پاس ارکان کی تعداد محض 37 ہے جو حکومت کی تشکیل کے لیے مناسب نہیں۔ ایسے حالات میں موجودہ حکمران جماعت نے اسلام دشمن گیرٹ وائلڈرزکی جماعت کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے سے بھی صاف انکار کر دیا ہے، جس سے حکومت تشکیل دینے کا عمل آسان نہیں رہا۔ ایک ہی حل ہے کہ زیادہ نشستیں حاصل کرنے والے گیرٹ وائلڈرز اِن حالات میں یا تو اسلام دشمن منشورکے حوالے سے اپنے موقف میں اِس حدتک نرمی کرلیں جو موجودہ حکمران جماعت کے لیے قابلِ قبول ہو یہ اوربھی آسان ہوجاتاہے جب یورپی یونین سے نکلنے کے لیے ریفرنڈم کے لیے حالات کی ناسازگاری کا خود گیرٹ بھی اعتراف کرتے ہیں ۔موقف میں نرمی سے تعاون حاصل کرنے کا عمل آسان ہوسکتا ہے ۔ایسے حالات میںجب یورپی یونین یوکرین کو اسلحہ کی فراہمی پر متفق ہے گیرٹ اِس عمل کے قطعی طورپر خلاف ہیںاور چاہتے ہیں کہ یوکرین کو اسلحہ سپلائی کا عمل فوری طور پر ختم کردیا جائے۔ اسی بناپر گیرٹ اگر بھاگ دوڑ سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو خارجہ امور کی مشکلات ختم نہیں ہوں گی۔ نرمی نہ کرنے کی صورت میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی فریڈم پارٹی کے لیے حکومت بنانے کا مرحلہ سر کرنا دشوار ہوجائے گا اورممکن ہے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے کیونکہ یورپی یونین میں شامل ممالک ایسے کسی عمل کی مزیدحوصلہ افزائی نہیں کریں گے جس سے برطانیہ کے بعد کسی اور ملک کا تنظیم سے الگ ہونے کا راستہ ہموار اورتنظیم سے اختلاف ِ رائے رکھنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اسی بناپرماہرین کا اندازہ ہے کہ ہالینڈ میں ایسی مخلوط حکومت تشکیل پا سکتی ہے جس میں موجودہ حکمران جماعت کے ساتھ دیگر جماعتیں شامل ِاقتدار ہوں۔
گیرٹ وائلڈرز کی جماعت فریڈم پارٹی کے منشور پر موجودہ حکمران جماعت کوایک نہیں کئی اعتراض ہیں۔ حکمران جماعت تمام شہریوں کے لیے برابر حقوق پر یقین رکھتی ہے لیکن گیرٹ کی جماعت کامنشور مساجد،قرآن ،اور حجاب پر پابندی ہے اِس منشورکو موجودہ حکمران جماعت آئین کے منافی تصور کرتی ہے ۔ اسی بناپرموجودہ حکمران جماعت وی وی ڈی پارٹی جس کی اسمبلی میں تعداد24 ہے، زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت سے مل کر حکومت تشکیل دینے سے انکاری ہے اور ایسی کوششوں میں مصروف ہے کہ کسی طرح فارمرزپارٹی اور نیو سوشل پارٹی کوساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنا لے تاکہ ملک میں مذہبی تقسیم کے بڑھتے عمل کو روکاجا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دیگر جماعتوں کو ساتھ ملانے کے دوران حکمران جماعت ایسی کیا پُرکشش پیشکش کرتی ہے جس سے 20نشستوں والی نیو سوشل پارٹی اور 7نشستوں والی فارمرز پارٹی کو گیرٹ وائلڈرز کے ساتھ تعاون کرنے سے روک کر اپنی طرف راغب کرسکے کیونکہ گیرٹ وائلڈرز بھی پوری کوشش میں ہیں کہ کسی طرح حکومت تشکیل دینے کا مرحلہ مکمل کرلیں اور ایساہونے کا امکان کسی حدتک بہرحال موجود ہے کہ نیوسوشل پارٹی اور فارمرز پارٹی اتحادی حکومت میں مناسب حصہ ملنے کے وعدے پر گیرٹ وائلڈرز سے تعاون پر آمادہ ہوجائیں اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف ملک میں مذہبی تقسیم کاعمل خطرناک حد تک بڑھ جائے گابلکہ ہالینڈ جیسے پُرسکون اور آزاد خیال معاشرے میں کئی قسم کی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں اور یورپی یونین کی خارجہ امور کے متعلق طے کی گئی پالیسیاں بھی متاثر ہوں گی جس سے یورپی یونین سے نکلنے کا عمل بڑھے گا۔ اسی لیے ہالینڈ معاشرے نے اگر ٹوٹ پھوٹ سے بچنا اور یورپی یونین سے اتحاد کی فضا برقرار رکھنی ہے تو گیرٹ وائلڈرز کا راستہ روکنا ہوگا۔
یورپ میں اسلام بیزاری کا عمل صرف ہالینڈ تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر کئی ممالک بھی اِس لہر کابُری طرح شکار اور اسلام کے فروغ کو روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔اِس حوالے سے کئی مغربی ممالک میںمسلمانوں سے تعصب پایاجاتاہے بلکہ فرانس نے توحجاب و دیگر اسلامی اقدار پر پابندیاں عائدکردی ہیں۔ پیرس کے چارلس ڈیگال جیسے بین الاقوامی ہوئی اڈے پر نماز کی ادائیگی تک کو ناپسندیدہ قراردیا جا چکا حالانکہ یہ عمل مقامی شہریوں کا نہیں بلکہ روانگی کے انتظارمیں بیٹھے مسافروں کا تھا پھر بھی ملک میں ایسی ہاہاکار مچی جسے تعصب کے سواکوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ایسا تعصب آزاد خیال معاشرے کا نہیں کسی مذہبی جنونی کا ہی ہو سکتا ہے۔ اب ہالینڈ میں ایک اسلام دشمن جماعت کا سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر نا ظاہر کرتا ہے کہ مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر انسانی حقوق کے علمبردار یورپ میں اسلام مخالف رائے عامہ میں نہ صرف شدت آتی جارہی ہے بلکہ مسلمانوں پر نئی پابندیاں بھی لگائی جا سکتی ہیں جن پر عمل درآمد اور سختیوں میں بتدریج اضافہ ہوسکتاہے بظاہر لگتاہے مزیدیورپی ممالک کی اسلام دشمن لہرکے زیرِ اثرایسی پالیسیاں بنانے کی حوصلہ افزائی ہو گی جس سے اسلامی تشخص کی حوصلہ شکنی ہو۔ ہالینڈ کے انتخابی نتائج سے تو ایسے ہی اشارے ملتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیریوں کا جذبہ حریت جواں ہے! وجود هفته 30 نومبر 2024
کشمیریوں کا جذبہ حریت جواں ہے!

پی ٹی آئی مزید طاقتور،لاشوں کا اغوا؟ وجود هفته 30 نومبر 2024
پی ٹی آئی مزید طاقتور،لاشوں کا اغوا؟

''میری جدوجہد'' وجود هفته 30 نومبر 2024
''میری جدوجہد''

ہم بے ''کار'' بھلے وجود هفته 30 نومبر 2024
ہم بے ''کار'' بھلے

سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی وجود جمعه 29 نومبر 2024
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر