... loading ...
ریاض احمدچودھری
پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس وقت یہاں پر ایک عرب اکثریت میں جبکہ یہودی اقلیت میں تھے۔دونوں برادریوں میں تناؤ اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی برادری نے برطانیہ کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہودی کمیونٹی کے لیے فلسطین میں ‘قومی گھر’ کی تشکیل کریں۔یہودیوں کے نزدیک یہ ان کا آبائی گھر تھا مگر اکثریت میں موجود فلسطینی عربوں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔1920 کی دہائی سے لے کر 1940 کی دہائی کے دوران یہاں آنے والے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ دوسری جنگ عظیم میں یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے تھے۔مگر اس دوران یہودیوں اور عربوں کے درمیان اور برطانوی حکومت کے خلاف پْرتشدد واقعات بڑھنے لگے۔ 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گا۔اس تجویز کو یہودی رہنمائوں نے تسلیم کر لیا جبکہ عربوں نے بکثرت مسترد کر دیا اور اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ 1948 میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہی یہ خطہ چھوڑ کر چلے گیے۔ ادھر یہودی رہنمائوں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔بہت سے فلسطینیوں نے اس کی مخالفت کی اور پھر جنگ چھڑ گئی۔ ہمسایہ عرب ممالک کی فوجوں نے بھی اس جنگ میں حصہ کی۔لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کر دیا گیا اور انھیں جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ اس واقعے کو النکبہ (یعنی تباہی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اگلے برس جنگ بندی کا اعلان ہوا تو اسرائیل نے زیادہ تر خطے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
قیام پاکستان سے قبل ہی ہمارے مسلم قائدین نے اسرائیل کو برطانوی سامراج کی ناجائز تخلیق قرار دیا اور پاکستان آج بھی فلسطین کی آزادی اسرائیلی تسلط کے خلاف بین الاقوامی فورم پر آواز اٹھا رہا ہے۔ قائدین قائد اعظم محمد علی جناح،علامہ محمد اقبال اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے ہمیشہ فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کی۔ قائدِ اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ ہمیشہ فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ فلسطین کی حمایت میں 1933 سے 1946 تک اٹھارہ قرار دادیں منظور کی گئیں۔پورے برصغیر میں آل انڈیا مسلم لیگ باقاعدگی کے ساتھ یومِ فلسطین پر سیاسی سرگرمیوں کا انعقاد کرکے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتی رہی۔
برطانیہ کی طرف سے اعلان بالفور کے سامنے آنے کے ساتھ ہی اس معاملے میں قائد اعظم کی دلچسپی شروع ہوگئی اور انہوں نے فلسطین اور فلسطینی مسلمانوں کے مستقبل کو درپیش ہونے والے خطرات کو محسوس کر لیا۔ قائد کا کہنا تھا کہ ‘میں برطانوی حکومت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کو اگر منصفانہ اور آبرومندانہ طریقے سے حل نہ کیا گیا تو سلطنت برطانیہ کے لیے یہ تبدیلی کا نکتہ آغاز ہو گا۔ برطانیہ نے فلسطینی عربوں کی رائے عامہ کو طاقت وجبر سے کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم برصغیر کے مسلمان اس موڑ پر عرب موقف کے حامی ہیں اور ان کی منصفانہ جدوجہد میں ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ عرب مسلمان اپنے جائز حق کی جدوجہد میں ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔’مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو میں 15 اکتوبر 1937 کو قائد اعظم نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے برطانوی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
23 مارچ،1940 ء کو قرار دادِ لاہور منظور کی گئی جو قرار دادِ پاکستان کہلاتی ہے، اس تاریخی موقع پر بھی فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی قرار داد منظور کی گئی۔ صیہونیت کی پشت پناہی کے لیے چونکہ برطانیہ صف اوّل میں کھڑا تھا اس لیے قائدِ اعظم محمد علی جناح جہاں برّصغیر پاک و ہند کے مسلمانان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے وہیں جدوجہدِ آزادی فلسطین کے لیے بھی مسلسل تگ و دو کر رہے تھے کیونکہ ملّت کا پاسبان ہونے کے ناطے پوری امّتِ مسلمہ کا غم آپ کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھا۔
فلسطین کی صورتِ حال کے متعلق چرچل (وزیرِ اعظم برطانیہ) کے نام قائد اعظم کا ٹیلی گرام:ـ”آل انڈیا مسلم لیگ برطانوی حکومت پر زور دیتی ہے کہ وہ مسلم لیگ کو فلسطین کانفرنس میں نمائندگی دے اور ”فلسطین قومی عرب مطالبات” کو تسلیم کرے۔ مسلم ہند نہایت بے قراری کے ساتھ نتائج کا منتظر ہے۔میں برقیہ کے ذریعہ سے سارے ہند میں پھیلے ہوئے جذبات کی شدت اور تاثرات کا کماحقہ اظہار نہیں کرسکتا۔ کانفرنس کی ناکامی کا سارے عالَمِ اسلام میں تباہ کن اثر ہوگا اور سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ میں بھروسہ کرتا ہوں کہ آپ اس مخلصانہ اپیل پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گے۔”
تقسیم فلسطین کی تجویز کے دنوں میں علامہ اقبال کی صحت خاصی بگڑ چکی تھی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام تھے لیکن اس کے باوجود وہ اس کے تصور سے مسلسل بے چین اور افسردہ رہے۔ اقبال نے اس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کر دی تھیں۔ جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست مانتے تھے، اس کے جارحانہ اور مجرمانہ عزائم سے خوب واقف تھے۔ اس بارے ان کا ٹھوس مؤقف تھا کہ اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کو ختم ہونا چاہیے۔مولانا مودودی کا ماننا تھا کہ اسرائیلی ریاست کے باقی رہتے ہوئے مسجد اقصی کے حل کی کوئی صورت ممکن نہیں اور مسجد اقصی کا مسئلہ اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے جبکہ ناجائز یہودی ریاست کا خاتمہ ہو اور فلسطین کو آزاد کرالیا جائے،اس کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔