... loading ...
ریاض احمدچودھری
علامہ اقبال کے نزدیک امت کے زوال کابہت بڑاسبب قرآن مجیدسے دوری ہے۔علامہ محمد اقبال کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا گہرا ادراک و احساس تھا اور اس عظمت کے کھو جانے کا شدید ملال تھا۔ مگر وہ اس پر ماتم نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا مقام یاد کراتے ہیں اور انہیں یہ مقام پھر سے حاصل کرنے کا ولولہ اور حوصلہ دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے کلام کا بیشتر حصہ ملت اسلامیہ کی عظمت کی بحالی کے عزم سے مزین ہے۔ علامہ نے ملت اسلامیہ کو خواب غفلت سے بیدار ہونے، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور با وقار قوم کی طرح جینے کا ہنر اور حوصلہ دیا ہے۔
عالمی مجلس بیداری فکر اقبال کی ادبی نشست میں محترمہ حیاجہاںنے”اورتم خوارہوئے تارک قرآں ہوکر”کے موضوع پرخطاب میںقرآن مجیدسے قوموں کے عروج و زوال کے اصول و ضوابط بیان کیے اورپھر قدیم تاریخ،یونان اورروم وغیرہ سے ماضی قریب تک کی مختلف اقوام کے عروج و زوال کے تجزیے کومختصر بیان کیا۔انہوں نے مسلمانوں کے دورعروج کو بھی تفصیلاً بیان کیاوربتایاکہ ایک زمانے میں بغدادسمیت شرق و غرب کے بلاداسلامیہ عالمی تہذیب و تمدن اور تعلیم و تعلم کے مراکزتھے لیکن جیسے جیسے مسلمان قرآن مجیدسے دورہوتے گئے ذلت اوررسوائی ان کامقدربنتی گئی حتی کہ ایک وقت آیاکہ کل امت کی گردن میں غلامی کاطوق پیوست ہوگیا۔مقررہ نے موجودہ مسلمان ممالک کینام گنواگنواکربتایاکہ ان کی زمین کے سینوں میں کس قدرقیمتی ترین وسائل کابے پناہ انبارہے لیکن پھربھی دنیامیں ترک قرآن کے باعث زبوں حالی کاشکارہیں۔
شرکاء نے کہا کہ مسلمانوں کازوال ترکی کے کمال اتاترک کے اس رویے کے باعث ہواکہ جب اس نے خداکومسجدمیں بندکرکے تو اجتماعی نظام سے دین کوبے دخل کردیااور ترکی زبان کو انگریزی حروف میں لکھناشروع کیا۔ روزمحشر نبیۖ اللہ تعالی سے شکوہ کریں گے کہ امت نے قرآن مجیدکوچھوڑ دیاتھا۔ کم و بیش تمام مسلمان ممالک میں قرآن مجیدمعطل ہے اورصرف حصول ثواب کے لیے تلاوت کیاجاتاہے۔ علامہ کے نزدیک قدرت انفرادی گناہوں سے چشم پوشی کرلیتی ہے لیکن قومی و ملی گناہ ناقابل معافی ہوتے ہیں۔ قرآن صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے اتاراگیا اورانفرادی اصلاح سے اجتماعی اصلاح کی طرف جاتے ہوئے قرآن پرعمل پیراہواجاسکتاہے۔ قرآن مجیدنے یہودونصاری کی اصلیت بتادی تھی لیکن اس کے باوجود انہیں کے پیچھے چلنے سے زوال ہمارا مقدر ٹہرا۔ صرف قرآن سے بعدہی امت کے زوال کاباعث ہے جب کہ انسانی و مادی وسائل کی کوئی کمی نہیں۔علامہ نے اس زمانے میں مسلمانوں کے طرز عمل سے مایوس ہو کر انہوں نے لکھا:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
ان حالات میں علامہ نے مسلمان اور امت مسلمہ دونوں کو جگانے کا فریضہ ادا کیا اور انہیں آزادی کی قدر و قیمت کا احساس دلایا۔ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے گزشتہ صدی کے عظیم فلسفی کا اضطراب ان کی شاعری سے عیاں ہے۔وہ مسلم امہ کو ان کے حقیقی تشخص سے روشناس کرا کے ان کے روایتی وقار و مرتبے کو بلند دیکھنے کے آرزومند تھے۔برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کا نظریہ ان کے افکار کا ترجمان ہے۔انہوں نے مسلمانان برصغیر کی فکری سطح کو بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔آج پوری دنیا کے مسلمان اس سچے عاشق رسول ۖ علامہ اقبال کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کر عزت و حمیت کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
اقبال نے جس طرح کی ریاست کا خواب دیکھا تھا ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں ارض پاک کی صورت میں اس طرح کی ریاست نہیں ملی۔پاکستان کے بائیس کروڑ باسی یہ چاہتے ہیں کہ وطن عزیز کی تشکیل ایسی ریاست کی صورت میں ہو جہاں مساوات،بھائی چارے اور عدل وانصاف کی حکمرانی ہو۔جہاں ملک میں بسنے والے ہر فرد کو مذہبی آزادی حاصل ہو۔جہاں دین کے نام پر بے گناہ لوگوں کا خون نہ بہایا جائے۔جہاں شدت پسند عناصر تکفیر و قتل کے فتوے نہ بانٹتے پھریں۔علامہ اقبال نے صرف تصور پاکستان ہی نہیں دیا بلکہ یہ بھی سمجھا یا ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کرنے والے ملک میں ہم نے کیسا بن کر رہنا ہے؟ اس مقدس ارض پاک پر جاہلیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے مکینوں نے صرف ایک دوسرے کے لئے ہی معاون و رہنمائی کا کام نہیں کرنا بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے امامت کا ذمہ سنبھالنا ہے۔ انہوں نے اپنے وطن کی پہچان اور زینت بننا ہے۔ علم سے محبت کی شمع اپنے دلوں میں جلانی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی قوم علم و عمل کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔ اپنے دلوں کے اندر ایثار کی دولت پیدا کرکے معاشرے کے محروم لوگوں کو بھی اپنے ساتھ چلانا ہے اور ان کا معاون و مددگار بننا ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے سے ہر پل صراط مستقیم کا طلبگار رہنا ہے۔