وجود

... loading ...

وجود

بس ذرا انتظار ........

منگل 28 نومبر 2023 بس ذرا انتظار ........

ب نقاب/ایم آر ملک

بلاول بھٹونے دبئی یاترا گریزاں ہوکر کی یا نہیں ،مگر عوام یہ سوال پو چھتے ہیں کہ کیا زرداری ایک بڑی پارٹی کی جاں بلب لاش کو آکسیجن فراہم کر سکے گا؟ عوامی حلقوں کی دہلیز پر ٹنگا ہوا یہ سوال شاید تشنہ ہی رہے۔ جبر کے سائے میں دیر بالا میں عوامی سمندر نے واضح کردیا۔ جاگیردارانہ اور لمپن قیادت کی سوچ کا تسلط شاید اب قوم کے شانوں پر اپنا وجود بر قرار نہ رکھ سکے ۔کیا اسے ایک ذلت اور شر مساری سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کہ عرصہ پہلے رائے ونڈ کے مکینوں کا منہ بولابھتیجا اپنے جلسوں میں (جن میں نظریاتی ورکرز نہیں دیہاڑی پر لائے گئے ونگارو ہوتے ) گو نواز گوکے نعرے لگوا کرنفرت کی انتہاؤں پر کھڑا تھا؟ پھر اسی گو نواز گوکی گردان میں مفاہمت کی سیاست نے جنم لیا۔ لاڑکانہ کی سڑک پر گھسیٹنے والوں نے جب مفاہمت کی کال دی تو 70کھانوں کو دیکھ کر باپ کی رالیں ٹپک پڑیں،مفاہمتی سیاست نے رائے ونڈ کی شخصی آمریت کی اطاعت میں عوامی شعور کا قتل کر ڈالا،کون نہیں جانتا کہ زرداری نے سندھ ہاؤس میں ضمیر کی منڈی سجا کر اور بولی لگا کر 25کروڑ عوامی احساسات کو لالچ،مفاد پرستی اور حرص کی گہری کھائی میں دفن کر دیا۔میرے ایک دوست کا استدلال ہے کہ عرصہ قبل زرادی کے ہاتھ گیلانی کی نااہلی کا ایشو پارٹی کی مردہ رگوں میں خون دوڑانے کا باعث تھا مگر اعتزاز احسن کو عدالت میں پیش نہیں ہونے دیا گیا ،بلاول کی تقریروں میں ایک بار پھر عوامی ایشو کو مہنگائی لیگ کے دلفریب نعرہ کے شور میں گم کر نے کی کوشش کی گئی مگر ہر بار ایسا نہیں ہوتا ۔حالات غیر دانستہ طور پرعوامی تحریک کی شکل میں پک کر تیار ہوتے ہیں، دیر میں یہی کچھ ہوا۔ فخر ِ ایشیاء ذوالفقار علی بھٹو کا ورکر اور ایک عام ووٹر اب ایسی لمپن قیادت کی طرف لوٹنے سے رہا جس نے اُس کے قائد کے قاتلوں کے ہاتھ میں نظریاتی ورکروں کا چاک گریباں دے دیا اور بھٹو کے لہو سے رنگا قالین بچھا کر اُن کی اطاعت پر کمر کس لی ،سرمائے کی لوٹ مار اور فرار بچانے کیلئے زراداری نے ایسی شخصی آمریت کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو ترجیح دی جس نے عوام کے دریدہ پیراہن میں غربت،مہنگائی،بیروز گاری، بجلی، پانی، گیس کی قلت،تعلیم و علاج کا فقدان اور معاشی و سماجی بر بادیاں ڈالیں،سرمائے کی جمہوریت کے اس بے ڈھنگے ارتقاء نے جمہوری حقوق کی شکلیں مسخ کر دیں۔تخت ِ لاہور مخالف جھوٹی نعرے بازی کے شور میں چھوٹا زرداری آنے والے کل میں اپنی باری کیلئے بے چین ہے ۔ شاؤ نزم کو اُبھارنے کی بے ہودہ کوشش!۔ اب عوام احمقوں کی جنت میں نہیں رہتے کہ جھوٹی کار گزاریوں کے نعروں پر حمایت جیتی جاسکے ۔ مرتضیٰ بھٹو کی موت شہر کے مرکزی دروازے پر آج بھی سو ال بن کر کھڑی ہے ؟ کس نے ایک جری بھٹو کو اپنے رستہ سے ہٹانے کیلئے انتقام کا خونریز وار کیا؟ لوٹ مار کی جمہوریت کے ڈوبتے سفینے کو شریف زرداری کمپنی مل کر کندھا دینے کی ناکام سعی میں رہے ۔جمہوریت تو دو پارٹیوں کی لوٹ مار کے دو پاٹوں میں پس کر متروک ہوتی رہی ۔منافقت اور تضحیک کے درمیان عوام کے حق ِ خود ارادیت کا قتل ہوتا رہا ۔
عدلیہ اور مقتدر حلقوں کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈکی اختراع منظر عام پر آنے کے بعد کیا ضیاء آمریت سے جنم لینے والی پارٹی اور زرداری لیگ کی یک رنگی سے بیزار عوام ضروریات زندگی کے حصول کی غیر انسانی مشقت سے اب نجات کے خواہاں نہیں؟جن کی محنت کا استحصال کم ہونے کے بجائے تیز ہو رہا ہے عمران کے لئے دو موروثی پارٹیوں سے بیزار عوام سیاسی اظہار کی تلاش میں نکلے ، لوٹ مار اور کرپشن پر اتحاد نے جمہوریت کے فریب اور کھوکھلے پن کو بے نقاب کر دیا ہے ماضی کی فرسودگی کو عوام آئندہ عام انتخابات میں گلے لگانے سے گریزکرنے پر اکتفا کرچکے ، دو افراد کے جمہوری تصورات کے ابہام سے نکلنے کیلئے عمران ان کا انتخاب بنا ۔بیلٹ کی طاقت سے جمہوری تہمت سے داغدار طوق کو گلے سے اتارنے کیلئے اکثریت بے چین دکھائی دیتی ہے ۔چہروں پر پھیلی زہر آلود مسکراہٹیں 8فروری کے عام انتخابات کے روز ان جعلی قیادتوں کا استقبال کریں گے ۔جب مفاہمت کی سیاست کی چھتری تلے محض عوامی حقوق کا قتل عام مقصود ہو تو بیلٹ پیپر پر مہر لگاتے وقت احساسات کی افادیت یکسر مختلف ہو جایا کرتی ہے ۔بھٹو کی پارٹی کے کارکن اور جانثار محترمہ کی شہادت کے بعد شدید مایوسی اور لاچارگی کے عالم میں اپنی قربانیاں اور جدو جہد قیادت کی منڈی میں نیلامی کیلئے لے کر پھرتے رہے ،سسکتے رہے ،آہ و بکا کرتے رہے لیکن زرداری نے اُن کے نظریات اور جذبات کو ایسی سیاست کی سولی پر چڑھا دیا جس نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ تیسری دنیا کے لیڈر کو جن کے سیاسی باپ نے قتل کر کے ان نظریاتی ورکروں سے انتقام لیا۔ نظام کے ہاتھوں مسلط شدہ اُفق پر جو پارٹی عوام کی واحد اُمید تھی کے ساتھ جڑے ہوئے نظریات ریزہ ریزہ ہو چکے ۔عوام کو مرعوب کرنے کیلئے نو خیز زرداری آئندہ اقتدار کیلئے لکھی ہوئی تقاریر کی ریہرسل کرتا رہا اس سے بڑا فریب اور کیا ہو سکتا ہے کہ بھٹو کی پارٹی اقتدار میں ن لیگ کی بی ٹیم بن گئی ۔ لوٹ مار کے آئینے میں سچ کی شکل واضح نظر آرہی ہے ۔ بہت دیر ہو چکی،وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسل گیا اور بھٹو کی پارٹی کے جعلی وارثوں کو خبر تک نہ ہوئی،الفاظ کی چاشنی سے پارٹی کی مردہ سانسیں بحال کرنا ناممکن ہو چکا کہ بھٹو کی پارٹی بھٹو کے قاتلوں کی ذیلی شاخ بن چکی ہے ،سیاست کے ڈاکٹر کے جمہور کش جمہوی پلان میں لوٹ مار کے گٹھ جوڑنے حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ،8فروری کا روز موروثیت کے خلاف ایسا چابک ثابت ہوگا جو وطن عزیز کا روایتی چہرہ بدل کررکھ دے گا،تبدیلی کے حقیقی عناصر عوام اپنی گہری خامشی توڑ کر تاریخ کے میدان میں نکلیں گے ،مفاہمت کی جعلی لفاظی اور لفظ جمہوریت کے ناجائز استعمال سے اُس بے چینی کو ختم نہیں کیا جاسکتا جو معاشرے کی بنیادوں میں ڈائنا مائیٹ کی طرح لگی ہوئی ہے ورکروں کے خلاف جعلی مقدمات اور بنیادی حقوق کی معطلی پر انتقام کایہ ڈائنا مائیٹ پھٹنے کو ہے ۔بس انتظار کہ صبر کے دن تھوڑے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ! وجود جمعرات 28 نومبر 2024
دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ!

روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر