... loading ...
سمیع اللہ ملک
فرینک اسٹاکٹن انیسویں صدی کاایک ناکام امریکی افسانہ نویس تھا۔اس کی تمام تصانیف وقت کی گردمیں کھوگئیں لیکن دی لیڈی آر دی ٹائیگراس کی ایسی تخلیق تھی جس نے فرینک اسٹاکٹن کوادب میں ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔یہ دنیا کی وہ کہانی ہے جس کے باعث کسی مصنف کوادب کی تاریخ میں سب سے زیادہ خطوط موصول ہوئے۔جو کروڑوں کی تعداد میں پڑھی اور اس سے کئی گنا زیادہ سنی گئی۔فرینک اسٹاکٹن کی اس کہانی میں کچھ نہیں تھا ماسوائے اختتام کے،نقاد کہتے ہیں یہ دنیاکی واحد اسٹوری تھی جس کے اختتام نے اسے کلاسیک کا درجہ دیا۔
کسی ملک میں ایک بادشاہ کی حکومت تھی،بادشاہ ایک نیم متمدن،نیم وحشی اور نفسیاتی مریض تھا۔اس نے انصاف کا ایک عجیب طریقہ وضع کیا،وہ ملزم کو ایک اسٹیڈیم میں اُتارتا، اسٹیڈیم کے گرد رعایا بیٹھ جاتی اور بادشاہ سامنے چبوترے پر براجمان ہوتا،ملزم کے سامنے دو دروازے ہوتے۔ایک کے پیچھے خونخوار بھوکا شیر ہوتا اور دوسرے دروازے کی اوٹ میں انتہائی حسین و جمیل دوشیزہ۔ملزم کو دونوں دروازوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا۔وہ شیر کا دروازہ کھول دیتا تو شیرباہر آتااوراسے چیر پھاڑ کر کھاجاتا،اسٹیڈیم میں لوہے کی غمگین گھنٹیاں بجتیں،کرائے کے نوحہ گرماتم کرتے ،تماش بین آرزردہ ہوکرسر جھکالیتے اوربادشاہ کفِ افسوس ملتا۔اگر خوش قسمتی سے وہ دوسرادروازہ کھول دیتاتواسٹیڈیم میں ایک پادری داخل ہوتا، اس کے پیچھے ناچنے اورگانے والوں کی منڈلی ہوتی،پیتل کی گھنٹیاں بجا ئی جاتیں،ساز بجتے اور لوگ ملزم پرپھول برسانے لگتے،پادری اسی وقت ملزم اور اس لڑکی کی شادی کروادیتا۔تماشائی تالیاں پیٹتے نعرے لگاتے، بادشاہ نئے جوڑے کوہارپہناتااور وہ عوام کے جلو میں رخصت ہو جاتے۔
شومئی قسمت سے بادشاہ کی اکلوتی بیٹی کسی عام نوجوان پر فدا ہو جاتی ہے،یہ بیٹی بھی اپنے باپ کی طرح نیم متمدن،نیم وحشی اورنفسیاتی مریض ہے۔ بادشاہ کواس عشق کاعلم ہوجاتا ہے ، وہ نوجوان کوگرفتارکرتاہے اوراسٹیڈیم میں لا کھڑا کرتا ہے۔سامنے دروازوں کے پیچھے سلطنت کاانتہائی خطرناک شیراورملک کی سب سے خوبصورت لڑکی چھپادی جاتی ہے۔ اب ذرامنظردیکھئے،اسٹیڈیم لوگوں سے کھچا کھچ بھراہواہے،بادشاہ چبوترے پر شہزادی کے ساتھ فروکش ہے،ملزم سامنے کھڑا ہے،اتنی خاموشی ہے کہ دھڑکنیں تک گنی جاسکتی ہیں۔ ملزم دروازہ کھولنے سے پہلے شہزادی کی طرف مڑتا ہے،شہزادی جو رات بھر کی تگ ودوکے بعد معلوم کرچکی ہے کس دروازے کے پیچھے کیاہے،اس کے چہرے پر کشمکش کاجال بچھا ہے، ملز م حسرت سے اسے دیکھتاہے،اسی لمحے شہزادی ایک فیصلہ کرتی ہے اورآنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے محبوب کوایک دروازے کی نشاندہی کردیتی ہے۔ملزم آگے بڑھتا ہے اوردروازہ کھو ل دیتاہے،،کہانی ختم ہوجاتی ہے۔
دی لیڈی آر دی ٹائیگرکے شائع ہونے کی دیرتھی،پوری دنیامیں شوربپاہوگیا،لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے ملزم نے کون سادروازہ کھولا ۔ سوال حقیقی تھاکیونکہ کہانی پڑھنے والے شہزادی کی فطرت سے واقف تھے۔وہ ایک نیم متمدن،نیم وحشی اورنفسیاتی مریض لڑکی تھی،اس کے سامنے دوراستے تھے،وہ لڑکی والے دروازے کی نشاندہی کرتی تواس کامحبوب اس کی نظروں کے سامنے کسی اور کا ہو جاتا، شادیانے بجتے،لڑکیاں ناچتیں ،پادری نکاح پڑھاتااور وہ دونوں بانہوں میں بانہیں ڈال کر رخصت ہوجاتے۔شہزادی حاسد بھی تھی، وحشی بھی اور نفسیاتی مریض بھی، لہٰذا یہ سب کچھ اسے قبول نہیں تھا۔دوسری صورت میں شیر والے دروازے کی نشاندہی کرتی اورشیرباہرنکل کراس کے محبوب کوچیرپھاڑ کراسے کھا جاتا ، شہزادی کو یہ بھی گوارہ نہیں تھا۔وہ اپنے محبوب سے ٹوٹ کرمحبت کرتی تھی،اس کی موت اسے بھی جیتے جی مار دیتی،شہزادی شدید کشمکش میں تھی، وقت بہت کم تھا۔لہندا عین وقت پر اس نے کوئی فیصلہ کیااور ایک دروازے کی طرف اشارہ کردیا۔
یہ اشارہ اس وقت بھی معمہ تھااورآج بھی فرینک اسٹاکٹن کے ہرقاری کے دماغ میں کنکرکی طرح رڑکتا ہے۔فرینک اسٹاکٹن نے کہانی کے آخرمیں لکھااب میں یہ آپ پرچھوڑتا ہوں اس دروازے سے کیانکلا،شیر یالیڈی۔فرینک اسٹاکٹن کولاکھوں خطوط ملے،ہزاروں لوگ اس کے دروازے پرآئے،لوگ اسے بس،مارکیٹ،ریستوران میں روک کر پوچھتے دروازے کے پیچھے کیا تھا؟ اوروہ ہنس کرجواب دیتا مجھے معلوم ہوتاتو میں آپ کو ضرور بتاتا،میں توخود پریشان ہوں شہزادی نے کس دروازے کی طرف اشارہ کیاتھا۔لوگ یہ سوال پوری زندگی فرینک اسٹاکٹن سے پوچھتے رہے، فرینک اسٹاکٹن فوت ہوگیاتوایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں لیکن معمہ حل نہیں ہو رہا،شاید یہ کبھی حل نہیں ہوگا کیونکہ یہ محبت اورحسد کی کشمکش ہے جس کا فیصلہ کبھی نہیں ہوتا۔
خدا گواہ ہے کہ میں فرینک اسٹاکٹن نہیں ہوں،میں محبت سے لبریز شہزادی اوردی لیڈی آردی ٹائیگرکا نیم متمدن،نیم وحشی اورنفسیاتی مریض بادشاہ بھی نہیں ہوں،میں ان دو دروازوں کے سامنے کھڑاملزم بھی نہیں ہوں،میں پادری،شیر کارنگ ماسٹراورگھنٹیاں بجانے والا اردلی بھی نہیں ہوں،اس خونی کھیل میں میرا کوئی حصہ نہیں،لہٰذا میں حیران ہوں لوگ پھر مجھ سے یہ کیوں پوچھتے ہیں،غزہ کامستقبل کیاہوگا؟کشمیرکا کیابنے گا؟اب عمران خان کا مستقبل کیاہوگا؟کیا٨فروری کوانتخابات ہوں گے؟غزہ میں جزوی جنگ بندی کا اعلان تو ہوگیا لیکن اسرائیل ایک مرتبہ پھرضدپرقائم ہے کہ غزہ کی پٹی پرمکمل قبضہ کرکے چھوڑوں گااوراس کاجنونی وزیرتوسارے فلسطین پرایٹم بم گرانے کی دھمکی دے رہاہے اور دوسراوزیرتمام فلسطینیوں کوآئرلینڈیاکسی صحرامیں منتقل کرنے کی دھمکی دے رہاہے لیکن جمہوریت اورانسانیت کے چیمیئن نہ صرف خاموش تماشائی بلکہ اس وحشیانہ ظلم کاقصورواربھی انہی ذبح ہونے والوں کوقراردے رہے ہیں۔
قارئین !اب آپ ہی بتائیں کہ دروازے کے پیچھے کیاہے،یہاں سے شیر برآمدہوگایاحسینہ عالم،کیاہوگا؟میں پریشان ہوں،میں اپنے ان تمام کرم فرماؤں سے درخواست کرتا ہوں آپ مہربانی فرما کر یہ سوال کسی فرینک اسٹاکٹن سے پوچھا کریں،ایسے فرینک اسٹاکٹن سے جوان دروازوں،ان شیروں اور ان ملزموں کااصل مصنف ہے،جس نے یہ کہانی تخلیق فرمائی تھی،ہم توفقط تماشائی ہیں ،دروازے سے شیر نکل آئے تو رو پڑتے ہیں، حسینہ جلوہ افروز ہو جائے تو تالیاں بجاتے بجاتے سانس تک پھول جاتا ہے،لیکن خالی ہاتھ رہتے ہیں،خالی ہاتھ آتے ہیں اور خالی ہاتھ چلے جاتے ہیں!