... loading ...
عماد بزدار
یاسر پیرزادہ کا 06 اپریل 2022 کا کالم”نام نہاد پڑھی لکھی اشرافیہ کا جرم”پڑھ رہا تھا جس میں وہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ کیا بتاتے ہیں اور اس کی وضاحت کس طرح کرتے ہیں آیئے ان کے کالم سے پڑھ کر دیکھتے ہیں ( نمبرنگ میری ہے )
1۔مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ کیا ہے تو میرا جواب ہوگا کہ پاکستان کی نام نہاد پڑھی لکھی اشرافیہ کا آئین اور قانون
کو جوتی کی نوک پر لکھنا ہی اِس ملک کا بنیادی مسئلہ ہے اور اس لیے یہ اشرافیہ ہی ملک کی اصل مجرم ہے ۔
2۔ ایک غریب اور ان پڑھ آدمی، جسے صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے یہ فکر لاحق ہو کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کھانے کا بندوبست کیسے کرے
گا، اگر آئین اور قانون کے بارے میں نہیں جانتا تو وہ قابلِ معافی ہے ، مگر یہ انگریزی اسکولوں کے پڑھے ہوئے لوگ ہر گز قابلِ معافی نہیں جو آئین کو محض کاغذ کا ٹکڑا سمجھتے ہیں
3 ۔ یہ وہی پڑھی لکھی اشرافیہ ہے جو ہر ڈکٹیٹر کو انگریزی میں خوش آمدید کہتی ہے ، آئین کو پامال کرنے کے لیے ڈکٹیٹر جو تاویلیں گھڑتاہے ، یہ اشرافیہ اسے من و عن تسلیم کر لیتی ہے ۔اس کے بعد یاسر پیرزادہ صاحب اس اشرافیہ کی قسمیں کچھ اس طرح بتاتے ہیں
1۔جس اپر مڈل کلاس اشرافیہ کی میں نے بات کی اُن میں پہلی قسم اُن لوگوں کی ہے جنہیں آپ کسی بھی قسم کی دلیل سے قائل نہیں کر سکتے ۔ اِن لوگوں کی مثال بھی اسی خود کُش بمبار جیسی ہے جس کی برین واشنگ کر دی گئی ہے ، اِن لوگوں کو قائل کرنا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک انہیں دوبارہ پہلی جماعت میں داخل کرکے بارہ سال تک یہ نہ پڑھایا جائے کہ آئین کس قدر مقدس دستاویز ہے اور کسی ملک کا انتظام و انصرام آئین کے تحت کیسے چلایا جاتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک ناممکن کام ہے ۔
2۔دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو حقیقت میں ذہین و فطین اور پڑھے لکھے ہیں اور آئینی معاملات کی باریکیوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں،مگر ذاتی مفادات کے تابع ہو کر اِس کی درست تشریح نہیں کرتے ، یہ لوگ ہر گز قابلِ معافی نہیں۔
3۔تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو خلوصِ دل سے دلیل اور مکالمے پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے نظریات اور فکر کی بنیاد پر آئین اور قانون کی
تشریح کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حق کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آخر میں پسے ہوئے طبقات کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دوسرا، یہ دیکھا جائے کہ معاشرے کا پسا ہوا اور مظلوم طبقہ کیا سوچتا ہے ، عموماً ایسے طبقے کی سوچ اُن تمام نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی سوچ سے بہتر ہوتی ہے جن کی بغل میںا سٹینفورڈ اور آکسفورڈ کی ڈگریاں ہوتی ہیں اور وہ آمریت کا آلہ کار بن کر ماورائے آئین اقدامات کی تاویلیں گھڑتے ہیں۔
یہ سب پڑھ کر آپ کو بھی میری طرح یقین آجائے گا کہ پیرزادہ صاحب خلاف آئین تھوکتے بھی نہیں۔ لیکن ٹھہریئے ! یہ پچھلی حکومت تھی جب پیرزادہ صاحب کی نظر میں آئین مقدس ہوا کرتا تھا ،حکومت تبدیل ہوتے ہی آئین کی حرمت کے بارے میں پیرزادہ صاحب کی حساسیت ختم ہوگئی۔
05 نومبر ، 2023 کو اپنے” لمز کے بچے” میں پیرزادہ صاحب ہمیں وہی پڑھی لکھی اشرافیہ کے نمائندہ نظر آتے ہیں جو پچھلی حکومت میں پیرزادہ صاحب کی نظر میں قابل گردن زدنی ہوا کرتے تھے ۔ پہلے طالب علموں کے سوالات کے بارے میں دو نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
”طلبا نے بلا خوف و خطر حاکمِ وقت سے سوالات کیے اور پوچھاکہ تم تقریب میں پچاس منٹ دیر سے کیوں آئے ہو، ہمارا وقت ضائع کرنے کا حق تمہیں کس نے دیا، کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ اور کسی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر صابر حکمران کے لتے لیے اور کہا کہ کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ، کیا تم نے آئین کے تحت حلف نہیں اٹھایا ، کیا تمہیں جواب دہی کا خوف نہیں؟”
اس کے بعد اپنی رائے یوں پیش کرتے ہیں
1۔یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اِس معاملے میں میرا نقطہ نظر کیا ہے ۔خدانخواستہ میں اِن نوجوانوں کی تحقیر نہیں کر رہا اور نہ ہی یہ
چاہتا ہوں کہ آئندہ یہ کسی محفل میں تند و تیز سوالات نہ کریں ، سو دفعہ کریں ، مگر اُس سے پہلے ایک مرتبہ خود اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کر دیکھ لیں۔
2۔ یہ لمز اور اِس نوع کی دیگر جامعات میں پڑھنے والے وہی نوجوان ہیں جو گھر سے اپنی گاڑی میں نکلتے ہیں تو نہ کسی اشارے کی پروا
کرتے ہیں اور نہ ون وے کی، کوئی غریب ٹریفک سنتری انہیں روک کر چالان کرنے کی کوشش کرے تو یہ اُسے ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں،اسے اپنے باپ کے عہدے کی دھمکی دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو اُس پر گاڑی چڑھانے سے بھی نہیں چُوکتے ۔
3۔ ان کے احساس برتری کا یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا پر اب اُن کے چٹکلے بنتے ہیں ۔اور رہی بات اِن کی حق گوئی اور بیباکی کی تو اُس کا
پول تو اسی دن کھُل گیا تھا جب اصلی تے وڈا حاکم لمز آیا تھا ، اُس روزیہ سب اچھے بچے بن کر انکل کی باتیں سنتے رہے ، اُس روز کسی کا ضمیر نہیں جاگا، کسی نے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ انکل آپ لمز میں کیا لینے آئے ہیں، آپ کا یہاں کیا کام، کیا آپ اتنے ویلے ہیں ؟
ہم سب جانتے ہیں اس وقت آئین کا کیا حال ہے انتخابات کرانے کے لئے آئین کے حکم کے ساتھ عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں جو کہ نہیں مانے گئے ۔مان لیا لمز کے طالب علم بہت غلط لوگ ہیں جو اشارے پر گاڑی نہیں روکتے ، بد اخلاق ہیں ماں بہن کی گالیاں نکالتے ہیں، اصلی حاکم کے سامنے سوال اٹھانے سے ڈرتے ہیں اس لئے انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ آئین کے روشنی میں انتخابات کا مطالبہ کریں۔
پیرزادہ صاحب تو سراپا آئین و قانون ہیں پاکستان کے بنیادی مسائل کی تشخیص بھی پچھلی حکومتوں میں کرتے آرہے ہیں، طالب علموں کی طرح بزدل بھی نہیں ہیں، جو اصلی حاکموں سے سوال نہ کرسکیں۔ سمجھ نہیں آتی وہ اس معاملے میں آواز اٹھانے کے بجائے ان قوتوں کی سہولت کاری کیوں کررہے جو آئین کی پامالی کے ذمہ دار ہیں۔ کیا میں پیرزادہ صاحب کی زبانی یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ کیا ہے تو میرا جواب ہوگا کہ پاکستان کے دانشوروں کا آئین اور قانون کو جوتی کی نوک پر لکھنا ہی اِس ملک کا بنیادی مسئلہ ہے اور اس لیے یہ دانشور ہی ملک کے اصل مجرم ہیں۔
٭٭٭