... loading ...
ریاض احمدچودھری
بالآخر غزہ میں قیام امن کی کوششیں رنگ لائیں اور اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ ہو گیا۔اس معاہدے کو چند ایک ممالک کے سوا پوری دنیا نے سراہا مگر امریکہ اور اسرائیل نے ظاہری طورپر اس معاہدہ کی منظوری دے دی لیکن اصل میں یہ دونوں ممالک جنگ بندی نہیں چاہتے تھے بلکہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اسرائیل امریکی پشت پناہی کی بدولت فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف تھا۔ اسرائیل و حماس کے درمیان جنگ بندی کا یہ وقفہ 4 دن تک برقرار رہے گا جس کے دوران حماس کی جانب سے مرحلہ وار 50 خواتین اور بچوں (19 سال سے کم عمر) کو رہا کیا جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے 15 فلسطینی بچوں (19 سال سے کم عمر) اور خواتین کو رہا کیا جائے گا۔ قیدیوں کا تبادلہ ہلال احمر’ اسرائیل’ قطر اور حماس کی معاونت سے عمل میں آئے گا۔ قیدیوںکے تبادلے کے بعد غزہ میں امدادی سامان کی فراہمی کو بڑھایا جائے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے اختتام پر غزہ میں پھر سے فوجی کارروائیوں کا آغاز ہوگا۔ البتہ معاہدے کے تحت حماس کی جانب سے ہر بار 10 یرغمالیوںکو رہا کرنے پر جنگ بندی کے دورانیے میں ایک دن کا اضافہ ہوگا۔ قطر، جس نے جنگ بندی معاہدے میں اہم کردار ادا کیا ہے، کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی معاہدہ انسانی بنیادوں پر ہوا جس کے تحت امدادی سامان لے جانے کی اجازت ہوگی جبکہ امدادی سامان میں ایندھن کی ترسیل بھی شامل ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کے پہلے مرحلے میںقید خواتین اور بچوں کی رہائی کا تبادلہ شامل ہے۔ حماس مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا عہد کرے تو جنگ بندی میںتوسیع ہوسکتی ہے۔ 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی بمباری میں 14,128 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ اب تک شہید ہونے والوں میں 5,840 بچے اور 3,920 خواتین شامل ہیں۔ بمباری کے نتیجے میں مزید 33000 افراد زخمی بھی ہوئے۔ یورپی کمشن نے غزہ میں جاری امدادی کارروائیوں سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے کہ امدادی سامان حماس کے لوگوں کو مل رہا ہو۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان چار روزہ جنگ بندی کا علاقائی اور بین الاقوامی سطح کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ خیر مقدم کرنے والے ممالک نے اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ یہ کوشش جاری بحران کے خاتمے کے لیے ایک بڑی پیش رفت ثابت ہو گی۔ اس امید اور خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس چار دن کی جنگ بندی یا وقفے کو لمبا کیا جائے۔ کئی ملکوں نے اسے مستقل جنگ بندی بنانے اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ فلسطینی کے حل کے لیے کوششوں کو سنجیدہ اور تیز کرنے پر زور دیا ہے کئی ملکوں نے دو ریاستی حل کے لیے کوششیں تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ترک وزارت خارجہ نے اس معاہدے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ اس معاہدے پر پوری طرح عمل کیا جائے گا۔ ترک وزارت خارجہ نے بھی امید لگائی ہے کہ انسانی بنیادوں پر جنگ میں کیا جانے والا ‘یہ وقفہ موجودہ جنگ کے مستقل خاتمے کا پیش خیمہ بھی بنے گا۔ یہ بھی امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ پائیدار امن کی راہ بنے گا جس پر چل کر دو ریاستی حل کی منزل ملے گی۔
اردن نے یہی بات کی ہے کہ ‘اس جنگ بندی کو غزہ میں جنگ کے خاتمے کی طرف ایک قدم بنایا جائے تاکہ فلسطینیوں کو بے گھر ہونے کے لیے ہدف بنانے کا سلسلہ رک سکے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جنگ میں چار دن کا وقفہ زیر محاصرہ پٹی پر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ امداد پہنچ سکنے کا باعث بنے گا۔مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے انسانی بنیادوں پر جنگ روکنے کا خیر مقدم کیا کہ اس کی وجہ سے غزہ کی پٹی پر جنگ رک سکے گی۔ السیسی نے اس معاہدے کے نتیجے میں قیدیوں کی رہائی اور تبادلے پر اتفاق کی بھی پزیرائی کی۔برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا اور کہا ‘یہ ایک انتہائی قدم ہے ان خاندانوں کے لیے جن کے افراد خانہ مغوی تھے۔ ان خاندانوں کے لیے ریلیف کا سامان ہو گا۔ اس معاہدے سے غزہ میں جاری بحران انسانی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش ہو سکے گی۔
جرمن وزیر خارجہ اینا لینا نے اس معاہدے کو ایک بڑا ‘بریک تھرو’ قرار دیا۔ انہوں مغویوں کے پہلے بڑے گروپ کی رہائی کا ذکر کرتے ہوئے ‘اس کی تحسین کی اور کہا یہ بڑی پیش رفت ہے۔ اگرچہ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ان پر گزرنے والی مصیبت کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔’ اینا لینا نے کہا ‘جنگ میں اس وقفے کو غزہ کے لوگوں کے لیے امداد فراہمی کے لیے اچھے طریقے سے استعمال ہونا چاہیے۔چین نے توقع ظاہر کی ہے کہ یہ معاہدہ سات اکتوبر سے پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی کا باعث بنے گا۔ ‘ہم اس عارضی جنگ بندی معاہدے پر متعلقہ فریقوں کے راضی ہونے کا خیر مقدم کرتے ہیں ‘ یہ عارضی جنگ بندی انسانی بحران کے مصائب کو کم کرنے میں مدد دے گی۔ اس کے نتیجے میں تصادم کی فضا میں کمی آئے گی۔ ‘
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کہا ‘کریملن اس معاہدے کو غزہ سے ایک عرصے بعد پہلی اچھی خبر کے طور پر دیکھتا ہے۔’روس اور دوسرے بہت سارے ملک جنگ بندی یا ایک جنگی وقفے کے لیے کہہ رہے تھے۔ کیونکہ اس طرح کی جنگ بندی یا وقفے کے ذریعے ہی ایک پائیدار حل اور امن کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔ فرانس نے بھی اس عارضی جنگ بندی کی پزیرائی کی اور کہا امید ہے آٹھ فرانسیسی شہریوں کی واپسی بھی ممکن ہو سکے گی۔ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکروں نے کہا ‘ہم بغیر تھکے ہوئے اور بے تابی کے ساتھ مغویوں کی رہائی کا انتظار کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔