... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
تہواروں کے موسم میں گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے لیے دُکاندار طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سہولتوں کا بول بالا ہوتا ہے جو چالیس سے اسیّ فیصد تک ہوتی ہیں ۔ یہ سراسر فریب ہوتا ہے اس کے باوجود لوگ جھانسے میں آجاتے ہیں ۔ ابھی حال میں پانچ صوبوں کے اندر سیاست کا بازار سجا تو رائے دہندگان کو لبھانے کی خاطرسیاست کے تاجر نت نئے جال لے کرمیدان میں آگئے ۔ مرکز میں اقتدار کی دعویدار کانگریس اور بی جے پی کے درمیان کانٹے کی ٹکر مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ہے ۔ ان دونوں میں فی الحال ہر دو کو ایک ایک مقامات پر اقتدار حاصل ہے اور وہ اسے قائم رکھنے کے لیے پریشان ہیں ۔ ریاستِ مدھیہ پردیش میں 17 نومبر کو ووٹنگ ہوچکی ۔وہاں پر بی جے پی نے جب اپنا 96 صفحات پر مشتمل منشور جاری کیا تھا تو بے ساختہ وزیر اعظم کی ڈیڑھ سال قبل والی مفت کی ریوڈیاں یاد آگئیں۔ ایم پی کے بعد راجستھان اور تلنگانہ میں تو بی جے پی نے گارنٹی کے نام ایسے ایسے وعدے کردیئے کہ اس سے کیجریوال بھی شرما جائیں۔
ایک زمانے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے مفت میں سہولیات فراہم کرنے کی سیاست پر تنقید کرتے ہوئے ریوڑی کلچرکو ملک کی ترقی کے لئے نہایت خطرناک قرار دیا تھا ۔ گزشتہ سال جولائی میں تقریباً 14850 کروڑ روپے کی لاگت سے بنائے گئے بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کا افتتاح کرنے کے بعد ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا تھا ، یہ ریوڑی کلچر کے لوگ آپ کے لیے کبھی بھی نئے ایکسپریس وے نہیں بنائیں گے ۔ نئے ہوائی اڈے یا دفاعی راہداری نہیں بنائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ ایکسپریس ہائی وے کے بنانے سے کس کا فائدہ ہوتا ہے اور اس پر کون اپنی خوبصورت گاڑیاں دوڑاتا ہے ؟ کیا مودی نامکس عوام کے ذریعہ بلاواسطہ ٹیکس جمع کرکے اسے سڑک بنانے والے ٹھیکیداروں کی جھولی میں ڈال دینے کا نام ہے ؟ ٹھیکیداروں سے رشوت لے کر اپنے خزانے بھرنے والی کی زبان پر ریوڈی کا مذاق اڑانا کتنا درست ہے ؟
وزیر اعظم اترپردیش میں جالون ضلع کے کیتھری گاؤں کے اندر نے بڑے طمطراق کے ساتھ کہا تھاکہ ریوڑی ثقافت والے عوام کو مفت ریوڑی بانٹ کر خریدنا چاہتے ہیں۔ ہمیں مل کر ان کی سوچ کو شکست دینا ہوگی، ریوڑی کلچر کو ملک کی سیاست سے ہٹانا ہوگا۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب گجرات اور ہماچل پر دیش کا انتخاب سامنے تھا۔ بی جے پی کو یقین تھا کہ وہ بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی اور بیس سال پرانے فساد کی یاد دلا کر انتخاب جیت لے گی ۔اس حکمت عملی سے مودی اور شاہ گجرات میں تو کامیاب ہوگئے مگر ہماچل میں انہیں منہ کی کھانی پڑی اورریوڈیوں کی اہمیت سمجھ میں آگئیْ ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات کے لیے پارٹی کا جو منشور بنام ‘سنکلپ پتر’ جاری کیا تھااس نے تو ریوڈیوں کی سونامی برپا کردی تھی اور تلنگانہ و راجستھان میں اس کا بھی ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے ۔ بی جے پی نے وعدہ کرکھا ہے کہ اگر ریاست میں اس کی حکومت بنتی ہے تو لاڈلی بہنا اسکیم کے مستفیدین کوپکے مکان دے گی اور ہر خاندان میں کم از کم ایک فرد روزگار یا خود روزگار کا موقع فراہم کیا جائے گا۔
بی جے پی والے جب روزگار کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے دس سال پہلے کیا جانے والا ہر سال دو کروڈ نوکریوں کا جملہ یاد آجاتا ہے۔ یہ وعدہ اگر پورا ہوگیا ہوتا تو ہندوستان میں بیروزگاری ختم ہوجاتی اور مودی جی کومفت راشن کی اسکیم چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی مگر اڈانی اور امبانی کی خیر خواہ سرکار کے نزدیک ملک کے گریجویٹ طلبا کا پکوڑا تلنا بھی روزگار ہے ۔ مودی جی خود تو دس لاکھ کا کوٹ پہن کر ٨ ہزار کروڈ کے جہاز میں چلتے ہیں اور ملک کے پڑھے لکھے نوجوان کو پکوڑے تلنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔وزیر اعظم کو اس بات پر بڑافخر ہے کہ اڈانی اور امبانی جیسے لوگوں کی مدد سے بہت جلد یہ ملک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا ۔فی الحال ہندوستان پانچویں بڑی معیشت ہے لیکن اتفاق سے بیروزگاری کے معاملے میں بھی اس ملک کا نمبر پانچواں ہی ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا بھر میں صرف چار ایسے ممالک ہیں جہاں ہندوستان سے زیادہ بیروزگاری کی شرح ہے ۔ مودی جی پر جو تیسری بڑی معیشت بننے کا جنون سوار ہے اس کے سبب کہیں یہ نہ ہو کہ بے روزگاری کے معاملے میں بھی یہ ملک دنیا میں پانچویں نمبر سے کھسک کرتیسرے پر نہ پہنچ جائے ۔ایک حالیہ سروے اور ریسرچ گروپ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق فی الحال ملک میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی توجہ بے روزگاری کو روکنے پر نہیں ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک میں ملازمت کے متلاشی افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔پچیس سال سے کم عمر گریجویٹ نوجوانوں میں تو بیروزگاری کی شرح پینتالیس فیصد کو چھورہی ۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کی پوری توجہ انتخابات پر مرکوز ہے ۔
انہیں انتخابی مہم سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ملک پردھان منتری نہیں بلکہ پارٹی کے پرچار منتری ہیں۔سالانہ دو کروڑ نوکریاں کے علاوہ بے روزگاری کے مسئلہ کو حل کرنے کی خاطر اس حکومت نے نوجوانوں کی ہنر مندی کیلئے بڑی دھوم دھام سے وزارت اسکل ڈیولپمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ کروڑوں روپے توصرف اس نئی وزارت کی تشہیر پر خرچ ہوگئے لیکن لیبر بیورو کی رپورٹ نے پول کھول دی۔ ایچ ایس بی سی بنک کی ہندوستانی شاخ کے سربراہ اور معروف ماہر معاشیات پرنجول بھنڈاری کے مطابق اگلے دس سالوں تک ہر سال ملک میں 7 کروڈ ملازمت کی ضرورت ہے جبکہ صرف 2 کروڈ 40لاکھ نئی ملازمتیں آرہی ہیں اس طرح4 کروڈ 60لاکھ لوگ بیروزگار رہ جاتے ہیں۔مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہنر مند ورکرس کی تعداد صرف دو فیصد ہے جبکہ جنوبی کوریا میں یہ 96 فیصد اور جاپان میں تقریباً 80 فیصد ہنر مند محنت کش تھے ۔ یہ اعدادو شمار حکومت کی لاپرواہی اور غیر موثر ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ اڈانی جیسے سرمایہ داروں کو ملازمتوں میں اضافہ کی فکر نہیں یہی وجہ ہے کہ معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہورہاہے ۔ اس سال کے اوائل میں سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اورگزشتہ سال
دسمبر کے مہینے میں اس کی شرح بڑھ کر 8.3 فیصد ہو گئی۔ بے روزگاری کی یہ شرح اس سے قبل والے 16 ماہ میں سب سے زیادہ تھی ۔ اس سے پہلے والے مہینے یعنی نومبر 2022 میں یہ شرح 8 فیصد تھی۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کے مطابق پچھلے سال دسمبر میں شہری علاقوں میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 10.09 فیصد تک پہنچ گئی، جبکہ پچھلے مہینے میں یہ شرح 8.96 فیصد تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے اور یہ 7.55 فیصد سے کم ہو کر 7.44 فیصد ہو گئی۔روئٹرز نے اپنی رپورٹ میں سی ایم آئی ای کے منیجنگ ڈائریکٹر مہیش ویاس کے حوالے سے کہا تھا کہ ”اعداد و شمار میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ دسمبر میں روزگار کی شرح بڑھ کر 37.1 فیصد ہو گئی ہے ، جو جنوری 2022 کے بعد سب سے زیادہ ہے ۔”۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے مطابق دسمبر میں ہریانہ میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 37.4 فیصد ہو گئی۔ دہلی کی ناک کے نیچے اس ریاست میں ڈبل انجن سرکار ہے ۔ اس کے بعد دوسرا نمبر کانگریس کی حکومت والی راجستھان کا تھا جہاں بیروزگاری 28.5 فیصد تھی اور تیسرے نمبر کیجریوال کی دہلی میں یہ شرح 20.8 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
یہ اعدادو شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ قومی سیاسی جماعتوں سے لے کر علاقائی پارٹیاں سب اس محاذ پر ناکام ہیں۔ بیروزگاری جیسے سنگین مسئلہ پر قدیم اعدادوشمار سے مدد لینے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ موجودہ حکومت شفافیت کی قائل نہیں ہے ۔ وہ اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے یاتو حقائق چھپا دیتی ہے یا اسے توڑ مروڈ کر پیش کرتی ہے ۔ابھی حال میں سی ایم آئی ای نے 25 سال سے کم عمر گریجویٹ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح معلوم کرنے کی سعی کی تو وہ 45.8% فیصد تھی ۔ہندوستان کے اندر چونکہ پچیس سال سے کم عمر نوجواں کی آبادی 40٪ سے زیادہ ہے اس لیے سی این این نے اسے ٹائم بم سے تعبیر کرکے کہا یہ بیروزگاری سماجی بے چینی میں بدل سکتی ہے اور اگر ایسا ہوگیا تو بدامنی کا خطرہ ہے ۔ پڑھے لکھے بیروزگاروں کی حالتِ زار پر راحت اندوری کا یہ شعر خوب صادق آتا ہے
کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے
چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے
سال 2024 کے انتخابات سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی میں اضافہ کو روکنا اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا تھا۔ وہ چونکہ اس محاذ پر ناکام ہوگئے اس لیے ہندو مسلم کی سیاست کرنے لگے ۔ امسال عام لوگوں کے بنیادی مسائل مثلاًمہنگائی، بے روزگاری اور ‘تقسیم کی سیاست’پر کانگریس نے ‘بھارت جوڑو یاترا’ کا اہتمام کیا جس کو عوام میں پزیرائی ملی ۔ کنیا کماری سے لے کر جموں و کشمیر کے سری نگر تک چلنے والے اس کارواں میں عوام کی جوش و خروش سے شرکت واضح ثبوت تھا لوگوں کوان مسائل نے فکرمند کر رکھا ہے لیکن سرکار کو اس کی پروا نہیں کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ عوام کا جذباتی استحصال کرکرکے وہ لوگ تاقیامت اقتدار میں رہیں گے ۔ فی الحال ملک کے بیروزگارنوجوان زبردست مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کا حوصلہ پست ہے مگر اقتدار نشے میں مست مودی سرکار الیکشن میں اس قدر مصروف ہے کہ اس کو اس کی بالکل فکر نہیں ہے ۔