وجود

... loading ...

وجود

امریکیت کا تسلط

جمعه 24 نومبر 2023 امریکیت کا تسلط

ب نقاب /ایم آر ملک

کیاکرہ ارض پر مسلط امریکی نظام جس کے بارے میں امریکہ کا دعویٰ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام انسانی بقا کا آخری نظام ہے، آخری ہچکیاں نہیں لے رہا؟ عالمی فورمز پر یہ بحث اب شدت اختیار کرتی جا رہی ہے کرہ ارض پر امریکہ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے ، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف 2000کے عشرے میں ہونے والے پراگ کے مظاہروں جس میں لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین نعرہ زن ہوئے کہ سرمایہ داری مارتی ہے سرمایہ داری کو مارواپنا فیصلہ عالمی صفحہ قرطاس پر شدید احتجاج کی شکل میں صادر کیا ۔پھر یہ تسلسل چلا اور سیاٹل سے گوتھن برگ اور ڈیوس سے لندن تک لاکھوں کی تعداد میں افراد کا سیل رواں شاہراؤں پر نکلا ۔
اس حقیقت سے انکار کسی بھی ذی شعور کو نہیں کہ سرمایہ داری دنیا کے غریب عوام پرمسلط کسی بڑی لعنت سے کم نہیں مگر اس کی رکھوالی اس وقت امریکیت کا مقصد حیات ہے اور کیوں نہ ہو کہ امریکیت کی بقا اسی سراب پر قائم ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام انسانی حقوق کا محافظ آخری نظام ہے۔ ایک ایسا نظام دنیا بھر میں غربت کو جس نے سود کے مدوجزر سے پید کیا اور آج تیسری دنیا کا ہر فرد قرضوں کے ایک ایسے جال میں جکڑا ہوا ہے جس سے اُس کا نکلنا ناممکنات میں سے ہے مالیاتی سرمایہ داری کے خود کش حملہ نے دنیا کی اپنے وقت کی سب سے بڑی سپر پاور روس میں مروجہ معاشی نظام کو پاش پاش کر دیاامریکیت نے سرمایہ دارانہ نظام کو عالمی ساہو کار کی حیثیت سے حادثاتی طور پر متعارف کرایاجس میں عالمی سرمایہ داروں کی ہوس شامل تھی، جس نے نوع انسانیت کا لہو چوس لیا۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہی خاصہ ہے کہ سماجی رشتے اور مقامی ثقافتیں زوال پزیر ہو گئیں۔ دانشورانہ اور اخلاقی قدریں افلاس کی دلدل میں دھنس گئیں۔ تیسری دنیا کے غریب انسانوں کی منڈیاں سج گئیں اور اس لعنت نے ہر انسان کو فروخت ہونے کی ترغیب دی۔ پاکستان میں اِس کی واضح مثالیں قدم قد پر موجود ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کے پالن ہاروں نے کرکٹ کے شائقین کے اذہان میں یہ بات ڈالی کہ انسان کا فروخت ہونا کوئی بُری بات نہیں۔ یہی وہ نظام ہے جس میں دنیا بھر کی خوبصورت عورتیں اپنا جسم سرمایہ داروں سے ڈیفائن کراتی ہیں۔ یہی وہ نظام ہے جس میں غربت کی انتہا نے عورتوں کو جسم فروشی کے مذموم دھندے میں بے رحمانہ طریقے سے استعمال کیا۔ یہی وہ نظام ہے جس نے تیسری دنیا کی عورتوں کے اجسام کو سیاحت سے ریونیو کمانے کا آپشن دیا اور یہی وہ نظام ہے کہ جس نے نوجوان اور مجبور عورتوں میں ایچ آئی وی پیدا کیا اور وہ تیسری دنیا کی مارکیٹوں میں سستے داموں بکنے پر مجبور ہو ئیں اور اسی نظام نے پسماندہ معاشروں کو ہمیشہ کیلئے غلاظت اور غربت کے سمندر میں دھکیل دیا۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ہی منطق ہے کہ عالمی سطح پر جمہوریت کا تماشا لگتا ہے اور اس تماشے کے علمبردار امریکیت ایجنڈے کے تحت یک زبان ہوکر عالمگیریت کے نفاذ کی کوششیں کرتے ہیں۔ دراصل امریکیت جمہوریت کی شکل میں آمریت کا تماشہ لگا کر دنیا بھر میں نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل کی خواہش لیے باؤلے کتے کی طرح سرپٹ دوڑ رہی ہے۔ اس کے دماغ پر ایک فوج،ایک اسٹیٹ،ایک کرنسی بنانے کا خبط سوار ہے اور مسلم ممالک خاص طور پر اُس کا نشانہ ہیں جہاں وہ حکمرانوں کی شکل میں اپنے من پسند مہرے لا رہا ہے۔
عراق،لیبیا،افغانستان،مصر اور اب فلسطین کی صورت حال اسکی عکاسی کرتی ہے ۔یہ سرمایہ دارانہ نظام کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کا سرمایہ دارانہ نظام بھی امریکیت کے عزائم کی آبیاری کر رہا ہے۔ یہاں روپے کی قدر کو دن بدن کم کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ داروں کی دولت چونکہ ڈالروں کی شکل میں بیرونی مالیاتی اداروں میں پڑی ہے ، اس لیے ڈالر کو پر لگ رہے ہیں اور جس ملک کی کرنسی کمزور ہو ملک کے باسیوں کا بال بال سرمایہ دار حکمرانوں کی عیاشیوں کی وجہ سے قرضوں میں جکڑا ہو تو بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے طاقتور کرنسی مقامی کرنسی کو یتیم اور بے یارو مددگار کر دیتی ہے اور مقامی ترقی کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں، اس کیلئے چائنا کی مثال دینا ضروری ہے جس نے قومی انرجی انڈسٹری کو تحفظ دیا اور بیرونی سرمایہ کاری کو محدود کر دیا۔ امریکہ کی لگائی گئی آگ یوکرین جنگ کی شکل میں جس معاشی بحران نے جنم لیا ہے ،یہ آسانی سے ٹلنے والا نہیں ۔ اس بحران نے یہ واضح کر دیا ہے، سرمایہ دارانہ نظام انسانیت کا قاتل نظام ہے، تاریخ کے اوراق اُٹھا کر دیکھ لیں انسانیت کی بقا اسلامی معاشی نظام میں ہی مضمر ہے۔ وہ نظام جو آقائے نامدار ۖنے انسانیت کودیا جس نے غلام اور آقا کے فرق کو مٹادیا،جس نے عورت کو ماں،بیٹی،بہن کی شکل میں عظمتوں کی معراج پر پہنچا دیا جس میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کا حکمران اپنے سر کے نیچے اینٹ کا سرہانہ رکھ کر سوتا تھا اور جس کا دامن پکڑ کر عام فرد بھی پوچھ سکتا تھا کہ دوسری چادر کہاں سے آئی امریکیت اپنے زوال کی طرف سرپٹ دوڑ رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر