وجود

... loading ...

وجود

مایوس قوم

جمعه 24 نومبر 2023 مایوس قوم

علی عمران جونیئر
دوستو، انتخابات سر پر کھڑے ہیں، یہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے منفرد انتخابات ہوں گے عوام بھی،بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں، حالات بھی نارمل نہیں، مہنگائی بھی زوروں پر ہے، دہشت گردی بھی پھن پھیلائے کھڑی ہے، تھانیدار کے موڈکا بھی کوئی پتہ نہیں، غیر یقینی بھی نمایاں ہے، عوام بھی بیزار ہیں۔ اب لوگ سبز باغ دیکھنے کی طرف بھی مائل نہیں ہو رہے۔گزشتہ دنوں نب سے کرائے گئے کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس سروے کے مطابق صرف 10 فیصد پاکستانی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ملک درست سمت میں جارہا ہے اور معاشی مسائل ان کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن ہیں۔سروے کے نتائج ملک کے خراب حالات کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن معیشت کو انتہائی کمزور سمجھنے والے افراد کی تعداد کم ہو کر 60 فیصد رہ گئی ہے۔سروے کے مطابق مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں اضافہ پاکستانیوں کیلیے اہم ترین مسائل ہیں، 90 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی سمت درست نہیں ہے،سروے کے دوران 60 فیصد ملکی معیشت کو خراب قرار دیا ہے جبکہ 35 فیصد افراد نے کسی بھی قسم کی رائے دینے سے گریز کیا۔سروے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوئی ہے، 40 فیصد پاکستانیوں کا خیال تھا کہ ملکی معیشت اگلے چند ماہ کے دوران مزید کمزور ہوجائے گی جبکہ ایک چوتھائی افراد نے معاشی امور میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے انکار کردیا، 92 فیصد شہری اپنی صلاحیتوں کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہیں، جبکہ باقی 8 فیصد مطمئن تھے، 98 فیصد پاکستانیوں کو بیش قیمت اشیاء کار، گھر وغیرہ خریدنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔سروے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس میں سب سے نچلے درجے میں ہے، گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس میں بھارت کا اسکور 64.1 ہے جبکہ پاکستان کا اسکور محض 31 ہے۔
اگر سروے پر یقین کیاجائے تو نوے فیصد پاکستانی مایوس ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سمت درست نہیں، لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ جب الیکشن ہوں گے ،ووٹ ڈالنے کا ٹائم ہوگا تو یہ لوگ گھر بیٹھ کر سرکاری چھٹی انجوائے کررہے ہوں گے، ان لوگوںکو اب تک ووٹ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوسکا۔دوسری طرف سب سیاسی جماعتوں میں میراتھن ریس جاری ہے کہ” فرشتے” ان پر نظر کرم جما لیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ فرشتوں کو سب سے زیادہ نیک پاک اور شریف جماعت نواز شریف کی ن لیگ لگی ہے۔پاکستان پر غیر یقینی کے سائے اتنے گہرے ہوتے جا رہے ہیں کہ الیکشن کے واضح اعلان کے باوجود پتہ نہیں کہ کس وقت کیا ہو جائے سفید جھوٹ اتنی کامیابی کے ساتھ مارکیٹ کیے جا رہے ہیں کہ نظر نہ آنے والی چیزوں کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ایک نیوزچینل پر بشری بی بی کے سابق شوہر خاورمانیکا کا انٹرویو دیکھا جس میں ایک مرد اپنی سابق اہلیہ کے ”اندرونی ” معاملات سے قوم کو باخبرکررہا تھا۔ کون سا خاندانی اور باعزت شوہر چھ سال بعد اپنے گھر کے نجی اور اپنے بچوں کی ماں کے معاملات بخوشی ساری دنیا کے سامنے رکھتا ہے؟افسوس ہے ایسی صحافت پر۔ اس انٹرویو کا ملک کے سیاسی، عوامی، معاشی، خارجی یا قومی معاملات سے کیا تعلق ہے؟ ایک شخص کے بغض میں صحافت اتنی بھی گر سکتی تھی اندازہ نہیں تھا۔ کسی کے گھر کے اندرونی معاملات کا ملک و قوم سے کیا تعلق ہے؟ یہاں کس سیاستدان کا کس سے معاشقہ رہا، کس نے کس کو طلاق دلوا کر شادی کی، کس نے کس کو بھگا کر شادی کی، کس نے کس سے بیوفائی کی، کس نے کس سے ناجائز مراسم رکھے۔۔ کیا پھر آپ تیار ہیں ایسی فحش اور ذاتی زندگی کی کہانیاں میڈیا پر سننے کیلئے؟ کسی کی ذاتی زندگی، شادی، طلاق کا ملک اور قوم کیساتھ کیسے گھٹیا ربط قائم کیا جا رہا ہے۔
معروف مصنف بابااشفاق احمد حسبِ معمول اپنے بابا نور جی کے پاس موجود تھے۔عکسی مفتی کو بھی ساتھ گھسیٹ لائے تھے جو بطور ڈرائیور کے استعمال ہوتے رہتے تھے۔ڈیرے کی روایت کے مطابق انہیں شلجم گوشت پیش کیا گیا۔دونوں کھانے لگے کہ دفعتاً ایک مکھی اشفاق احمد کی ہانڈی پر منڈلانے لگی،اشفاق صاحب اسے بار بار ہٹاتے وہ پھر بھنبھاتی پہنچ جاتی۔اس کشمکش کو دیکھ کر عکسی مفتی مسکرا رہے تھے کہ بابا جی بولے ۔۔ پت، مکھی نہیں ماری دی، جتھے آندی اے اوہ گند صاف کری دا (پتر مکھی نہیں مارتے، وہ گندگی صاف کرتے ہیں جس پر وہ آتی ہے) بقول عکسی مفتی، اشفاق احمد کے تو قمقے روشن ہو گئے،وہ ٹھٹھک کر ساکت ہو گئے۔بعدازاں اسی جملے پر انہوں نے ایک دو ڈرامے بھی لکھ مارے۔آپ اشفاق احمد کو جو مرضی سمجھیں، وہ ہر حوالے سے ایک enigmatic آدمی تھا،آپ بابا جی کو فراڈ بھی سمجھ سکتے ہیں مگر بات کی سچائی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ذرا غور نہ بھی کریں تو بالکل واضح ہے کہ رمضان میں بلکہ عبادات میں، ہم مجموعی طور پر مکھیاں ہی مارتے رہتے ہیں، گند صاف نہیں کرتے۔اسی لئے ہر برس مکھیوں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے۔اسی طرح معروف ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمن قمرایک جگہ لکھتے ہیں کہ۔۔ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ یا لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا ،ایک بار میرے ابا کو کپڑے کا سوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ سلوا لیا جس کا اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا۔۔ ”اوئے خیلے اے کوٹ کتھو لیا ای”(اوئے خلیل یہ کوٹ کہاں سے لیا ہے؟)میں نے کہا۔۔ ”سوایا ہے چاچی”(سلوایا ہے چاچی) لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھائیں لیکن اُن کو اعتبار نہ آیا۔ خالہ اور پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، میں گھر آیا اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔۔ پڑھنے لکھنے اور جاب کے بعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر بنا تو بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈرائی کلین کیا ہوا، لنڈے کا کوٹ پہن کر گیا تو میرے کولیگز کوٹ کو ہاتھ لگا کر پوچھنے لگے۔۔ ”خلیل صاحب بڑا پیارا کوٹ اے کیہڑا برانڈ اے ،تے کھتو لیا جے؟ کلاتھ تے اسٹیچنگ وی کمال اے”مَیں نے بِنا کوئی شرم محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ”بھائی جان لنڈے چوں لیا اے” لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھائی پھر بھی اُن کو اعتبار نہ آیا۔۔ اور اب کی بار میں رونے کی بجائے ہنسنے لگ گیا تھا۔۔سچ ہے ،یہ معاشرہ بڑا منافق ہے، غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔”اگر تم کسی کی مدد کرتے وقت جوابی مدد کی اُمید رکھو گے تو یہ کاروبار ہو گا نیکی نہیں”خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر