... loading ...
حمیداللہ بھٹی
عالمی اِداروں نے اگر ساکھ بحال رکھنی ہے تو یکساں سلوک کرنا ہوگا بات تب بگڑتی ہے جب دھڑے بندی اور مفاد کومدِ نظر رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں جس کی ایک مثال اسرائیل ہے جو عالمی ضوابط کی دھجیاں بکھیرنے کے باوجود تادیبی کارروائی سے محفوظ رہتاہے ۔غزوہ میں جاری تباہی دیکھ لیں جنگ کانام دے کر صحت و تعلیم کا نظام تباہ کردیاگیا ہے خواتین اور بچوں کو جان سے مارنے کے ساتھ ہسپتالوں میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا بے دست وپامریض تک ماردیے گئے ہیں۔ مگر انسانی حقوق کی پامالی دیکھ کر بھی امریکہ اور مغربی دنیا پشت پناہی کررہی ہے غزہ میں پانی اور خوراک کی قلت اور قحط جیسے حالات ہیں لیکن اکثر عالمی اِدارے خاموش ہیں یہ جابنداری ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل کو عالمی قوانین سے استثنیٰ حاصل ہے۔ خدشہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت کو بھی اسرائیل جیسا مقام مل چکاہے اسی لیے عالمی قوانین کی پامالی کے باوجودبدستور بڑی طاقتوں کا منظورِ نظر ہے جس سے دنیا کے امن و سکون پر تباہ کُن اثرات مرتب ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
بھارت اِس وقت ایف اے ٹی ایف کی نظر میں ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ عالمی اِدارہ بھارت سے مشکوک مالی معاملات بہتربنانے کا مطالبہ کرتاہے یا نہیں؟کیونکہ پاکستان سے صرف 27سوالات دریافت کیے گئے اور زیادہ تر کے جوابات دیے جانے کے باوجود گرے لسٹ میں نام شامل کردیاگیا، جس پرتب بھی کئی حلقوں نے جانبداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ منصفانہ سلوک کے بجائے بھارتی ایما پرپاکستان کے لیے مشکلات پیداکی جارہی ہیں ،خود بھارتی وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکر کااعتراف ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان کانام گرے لسٹ میں رکھنے کو بھارت نے یقینی بنایا، پھربھی پاکستان نے سوالوں کے جواب دینے کے لیے کئی سخت فیصلے کیے۔ تب جاکر نام گرے لسٹ سے نکالا گیا۔لیکن آیا یہ اِدارہ اپنے دائرہ عمل میں خود مختار اور غیر جانبدارہے ؟اِس سوال کادرست جواب بھارت سے روا سلوک سے ہی ملے گا کیونکہ امریکہ اور مغربی ممالک کے چہیتے بھارت سے دریافت کیے گئے سوالات کی تعداد 330کے قریب ہے اوراِس حوالے سے جائزہ لینے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی ٹیم بھارت میں ہے ، اگر بھارت سے ترجیحی سلوک کے بجائے غیر جانبداری سے معاملات کو دیکھا گیا تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بھارت منی لانڈرنگ میں ملوث ثابت ہو گاجن کی روشنی میں پابندیاں لگانا ضروری ہوجائے گا۔
ایف اے ٹی ایف بھارت کے مالی معاملات کا جائزہ لے رہا ہے اور اب یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مطمئن کرے کہ بلیک منی کا الزام لغو اور بے بنیادہے ۔دنیا کے کئی اِدارے عرصہ سے اشارہ کررہے ہیں کہ بھارتی بلیک منی کا حجم پچیس لاکھ کروڑ روپے سے تجاوز کر گیا ہے جسے اگر ڈالر میں شمار کیاجائے تو یہ رقم لگ بھگ چھ سو ارب ڈالر ہے۔ یہ اعدادو شمار بہت خوفناک ہیں ۔یہ اتنی بڑی رقم ہے جس سے دنیا کے مالی نظام میں رخنہ ڈالنے کے ساتھ دہشت گردی اور منشیات کی خریدوفروخت پر سرمایہ کاری سے عالمی امن تہہ بالا کیا جا سکتا ہے ۔اِس کے باوجوداِتنے بڑے خطرے سے دنیاکی چشم پوشی ناقابلِ فہم ہے ۔اگر اقوامِ عالم تحقیقات کریں تو مذکورہ بالا اعدادوشمار سے بھی صورتحال زیادہ خراب سامنے آسکتی ہے ۔ایف اے ٹی ایف کی زمہ داری ہے کہ بھارتی ایما پر فیصلے کرنے کی بجائے معاملات کو دیکھنے کے لیے زیادہ شفافیت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تاکہ کسی ملک کویہ جواز نہ ملے کہ فیصلے دبائوکا شاخسانہ ہیں ۔
بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی سے وابستہ کئی اہم سیاسی رہنما منی لانڈرنگ جیسے گھنائونے کردار میں ملوث ہیں خود وزیرِ اعظم نریندرا مودی پر بھی الزام ہے کیونکہ اُن کے فرنٹ مین گوتم اڈوانی بلیک منی نیٹ ورک کا ایک بڑاکردار ہیں جن کے مالی معاملات کا حجم اربوں ڈالر بتایا جاتا ہے جس کے متعلق بات کرنے پر اروندکجریوال کو حراست میں بھی لیا گیا۔ ممبئی جوئے ،بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کا ایسامرکز ہے جس کے متعلق ماضی میں ایسے شواہد سامنے آچکے ہیں کہ شہرکی بلیک منی مارکیٹ کو سنگھ پریوار جیسی دہشت گرد تنظیم کی سرپرستی حاصل ہے ۔خیر بی جے پی کا ذیلی ونگ کے کرتوتوں پر خاموش رہنا تومجبوری ہوسکتاہے لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کوایسی کیا مجبوری درپیش ہے جو وہ بھارت کے غیر دستاویزی اور ناجائز ذرائع آمدن پر خاموش ہے؟ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کو بھارت سے کسی کوتاہی یا نرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور اِس بلیک منی کو کِن مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ، سوال دریافت کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت اگر جواب سے مطمئن کرنے کے بجائے اثرورسوخ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو گرے لسٹ کی بجائے بلیک لسٹ میں نام ڈال کر غیر جانبداری کو یقینی بنائے وگرنہ اِس اِدارے کی ساکھ سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گی۔
عالمی اِدارے مسلسل اقوامِ عالم کی توجہ مبذول کرارہے ہیں کہ بھارت کی بلیک منی مارکیٹ دنیا کے لیے خطرہ ہے انسانی حقوق کا محافظ اِدارہ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی کہہ چکا کہ ایف اے ٹی ایف قواعد کا بہانہ بنا کر مودی اپنے مخالف سیاسی و مذہبی مخالفین کا ناطقہ بند کرنے میں مصروف ہے اسی طرح ہیومن رائٹس واچ جیسا اِدارہ بھی ایف اے ٹی ایف کو مشورہ دے چکا کہ اُس کے قوانین کی آڑ میں بھارت میں مختلف طبقات کا استحصال ہورہاہے لیکن یہ اِدارہ خاموش ہے جس سے سوال جنم لیتا ہے کہ ایسی کیا مجبوری ہے کہ ایف اے ٹی ایف کو اپنی ساکھ برقرار رکھنے سے زیادہ بھارتی خوشنودی زیادہ عزیز ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بھارتی بلیک منی نے سب کو خاموشی پر مجبورکررکھاہے اگر معاملات کو بھارتی نظر سے دیکھنے کی روش برقرار رہی تو عالمی اعتماد سے محرومی کا خدشہ حقیقت کاروپ دھار سکتاہے۔
نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ جیسا اِدارہ بھارت کی سالانہ بلیک منی ایک ہزار ارب ڈالرہونے کادعویٰ کرتا ہے مگر آئی ایم ایف کے جاری اعدادو شمار کے مطابق بلیک منی کا حجم دوہزار ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہے لیکن معاشی ماہرین کے مطابق حقیقی اعدادو شمار اِس سے بھی زیادہ اور تشویشناک ہیں جو درست جانچ پڑتال سے ہی سامنے آ سکتے ہیں جب بھی ایسا ہوا تو اِس میں کوئی ابہام نہیں رہے گا کہ خطے میں بھارت بلیک منی کا مرکز ہے لیکن عالمی اِدارے دھیان ہی نہیں دے رہے جس سے ترجیحی سلوک کے الزامات درست محسوس ہوتے ہیں مگر دنیا کب تک لاحق خطرات سے چشم پوشی کرتی رہے گی؟ جلد ہی توجہ دینا پڑے گی جب بھی ایسا ہواتو کینیڈا،ترکی میں ہونے والی قتل و غارت ،پاکستان میں کلبھوشن دہشت گردی جیسے نیٹ ورک سمیت جنوبی ایشیا سے لیکر دیگر کئی ممالک میں سیاسی عدمِ استحکام پیداکرنے کے لیے بلیک منی کے زریعے بدامنی کو فروغ دینے کا بھارتی گھنائونا کردار بے نقاب ہو جائے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی تصدیق کردی ہے کہ فارماسوٹیکل کی صنعتوں کے ذریعے بھارت بڑے پیمانے پر منشیات کے فروغ میں ملوث ہے ،نیز ڈرونز سے پاکستان میں منشیات اسمگل کی جاتی ہے ۔آئی این سی بی کی رپورٹ کے مطابق بھارت منشیات کے حصول و فروخت کے لیے مشرقی سرحد استعمال کرتا اور مارما سوٹیکل اور کیمیکل صنعتوں کے ذریعے نشہ آور مصنوعات کے غیر قانونی نیٹ ورکس کو فروغ دیتا ہے اسی رپورٹ میں افغانستان سے سستے داموں سالانہ خریدی جانے والی منشیات کی مالیت 650ارب ڈالر بتائی گئی ہے اور بین الاقوامی سطح پر منشیات کی بھارتی تجارت کو گولڈن ڈرگ سلک روٹ کا نام دیا گیا ہے ۔ماضی میں بھی بھارت کے عالمی سطح پر منشیات کی اسمگلنگ کے شواہد سامنے آتے رہے لیکن اب تو بڑی کاروباری ،سیاسی اور مذہبی لبادہ اوڑھے شخصیات کے ملوث ہونے سے یہ کاروبار بلیک منی کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف جیسااِدارہ دہشت گردی اور منشیات فروشی سے حاصل ہونے والی بلیک منی کو کیسے جائز قرار دیتاہے؟