وجود

... loading ...

وجود

میرے پسندیدہ کالم نگار

اتوار 19 نومبر 2023 میرے پسندیدہ کالم نگار

عماد بزدار

حذیفہ رحمان ہمیشہ سے میرے پسندیدہ کالم نگار رہے ہیں۔ حذیفہ صاحب کا کالم میں باقاعدگی سے پڑھتا ہوں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کا کالم پڑھنے سے رہ جائے ۔ میرے وہ کیوں پسندیدہ ہیں اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو ان کا انتہائی باصلاحیت ہونا۔با صلاحیت وہ اتنے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ان کی خداد صلاحیتوں کے اعتراف میں وزیر اعظم شہباز شریف نے انہیں انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر تعینات کیا۔ بقول حذیفہ صاحب انہوں نے اس عہدے کے لئے سی وی تک نہیں بھیجی اور وہ مرد درویش اس عہدے پر بیٹھ کر کوئی سیلری ( جو کہ
12 لاکھ روپے ماہانہ ہے ) لئے بغیر ملک و قوم کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔پسندیدگی کی دوسری وجہ ان کے کالمز پڑھ کر مجھے اندر کی خبریں مل جاتی ہیں۔ مثلاً اپنے 30 اکتوبر 2023 کو لکھے گئے کالم”نواز شریف کی کیا ڈیل ہوئی” میں اس نے ٹھوس شواہد کے ساتھ ثابت کیا کہ میاں صاحب کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔ بات دراصل یہ ہے اداروں کو احساس ہوگیا کہ بیچ منجدھار میں پھنسی ہوئی پاکستان کی کشتی کو کوئی لیڈر ساحل پر لنگر انداز کر سکتا ہے تو صرف اور صرف میاں صاحب کی ذات ہیں۔ اپنے کالم کے ابتدائی پیرے میں نواز شریف کے ساتھ کسی ڈیل کی سختی سے تردید کرنے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کو سندھ سے آؤٹ کرنے کی چہ مگوئیوں کی بھی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:۔
”ایک مخصوص طبقہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی ایک ڈیل
کا نتیجہ ہے ۔ یہاں تک اندازے لگائے جارہے ہیں کہ سندھ سے پی پی پی کو بھی آؤٹ کرکے ایک مخلوط
حکومت تشکیل دی جائے گی اور یوں مسلم لیگ ن ڈیل کی صورت میں اقتدارحاصل کرلے گی”۔
لیکن حذیفہ رحمان صاحب لکھتے ہیں کہ ”حقائق اس کے برعکس ہیں” اپنے کالم میں ان حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”آج اداروں کو یہ ادراک ہوگیا ہے کہ نوازشریف کے خلاف فیصلے دراصل ملکی معیشت کے خلاف فیصلے
ثابت ہوئے تھے اور معیشت ایک ہی صورت میں کھڑی ہوسکتی ہے کہ نوازشریف کو واپس لایا جائے اوروہی
واحد شخص ہے جو ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرسکتا ہے ۔لیکن نوازشریف نے چوتھی مرتبہ وزیراعظم
بننے سے صاف انکار کردیا تھا۔بار بار انہیں کہا گیا کہ اداروں کو اپنی غلطیوں کا شدت سے احساس ہے اور تمام
ادارے اپنی غلطیاں درست کرنا چاہتے ہیں۔آپ کی عزت اور وقار کو دوبارہ بحال کرنا ادارے پر ایک قرض
ہے ۔مگر اس وقت ملک کو آپ کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان آکر ملک کی قیادت کریں۔غریب آدمی کا چولھا بجھ
چکا ہے ۔معیشت آخری سسکیاں لے رہی ہے ۔ایسے میں آپ ہی واحد قومی لیڈر ہیں ،جس پر قومی و بین الاقوامی
کاروباری دنیا اعتماد کرتی ہے ۔آج اگر نوازشریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے کوئی ریلیف ملا ہے یا آئندہ آنے
والے چند دنوں میں مزید کوئی ریلیف ملے گا تو یاد رکھیں یہ ان ناانصافیوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو
نوازشریف کے ساتھ گزشتہ 24سال سے ہوتی آئی ہیں”۔
یقینا آپ لوگوں کو بھی یہ تحریر پڑھ کر سمجھ آگئی ہوگی کہ”ڈیل اور نا انصافیوں کے مداوا” میں بہت فرق ہے کم از کم میری کنفیوژن تو اب دور
ہوگئی ہے میں میاں صاحب کے بارے میں اپنے فاسدانہ خیالات سے رجوع کرتے ہوئے توبہ کرتا ہوں کہ آئندہ میں کبھی ”نا انصافیوں کے مداوے” کو ڈیل نہیں سمجھونگا اور کہونگا اور اپنے قارئین کو بھی یہ تاکید کرتا ہوں کہ ایسی منفی سوچ سے باز آئیں۔جہاں تک پیپلز پارٹی سے سندھ چھیننے کی بات حذیفہ صاحب نے اپنے کالم کے ابتدائی پیرے میں کی، کالم کے آخری صفحے میں اس معاملے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”باقی پی پی پی کی موجودہ ناراضی فطری ہے ،کیونکہ ادارے سندھ کے حوالے سے بھی واضح لائن لے چکے
ہیں۔سندھ کے عوام کو مزید کسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا۔بلکہ اس مرتبہ سندھ میں بھی بڑے
سرپرائزز پی پی پی کے منتظر ہونگے ”۔
راست بازی کا عالم دیکھیں کہ سچائی بیان کرتے ہوئے اپنی ذات سے بھی اختلاف کرنے سے نہیں ہچکچا رہے ہیں بلکہ جس بات کی تردید ابتدائی پیرے میں کی اسی کے خلاف دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اداروں نے فیصلہ کرلیا سندھ کے عوام کو مزید کسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا۔مزید اپنی کشفی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے قارئین کو بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو مزید سرپرائزز ملیں گے۔
میرا خیال ہے مجھے مزید کوئی دلیل کسی قسم کے حقائق پیش کرنے کی ضرورت نہیں کہ کیوں یہ با صلاحیت کالم نگار میرے پسندیدہ ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر