وجود

... loading ...

وجود

بات سچ ہوگئی!

اتوار 19 نومبر 2023 بات سچ ہوگئی!

علی عمران جونیئر
دوستو، قرب قیامت کی کئی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گھر گھر ناچ گاناہوگا،یہ ہم لڑکپن میں بزرگوں سے سنتے تھے تو انکی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا تھا۔ ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟گھر گھر ناچ گانا کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم حیرانی سے سوچا کرتے تھے۔ پھر وقت بدلتا گیا۔۔ دوپٹے سروں سے سینوں پر آ گئے۔۔ شلواریں ٹخنوں سے اوپر جانے لگیں۔۔کوئی بزرگ روکتا۔۔ تو ہم ہی راستے میں آ جاتے کیا ہوگیا ہے، اتنی حساسیت کیوں۔۔ لڑکی ہے تو جان لو گے کیا؟؟جینے دو اس کو۔۔ ذرا سی ٹانگ ننگی ہو گئی تو کیا قیامت آ جائیگی۔۔ کچھ نہیں ہوتا، فیشن ہے۔۔ بس۔۔ کالج میں ذرا ماڈرن لک دینی ہوتی ہے۔ بچیوں کو۔۔ اور کیا۔۔ مائیں بھی بیک فٹ پر چلی جاتیں۔۔دوپٹے سینوں سے کاندھے پر چلے آئے۔ ۔ اور پھر غائب ہونے لگے۔۔ فیشن ہے۔۔ فیشن ہے۔۔ یہ جو فیشن ہوتا ہے نا؟؟ یہ ایکسپٹنس کا لیکچر ہوتا ہے۔۔ بلکہ لیکچر سے زیادہ اسٹرونگ کوئی چیز۔۔۔ جیسے سن کر دینے والی کوئی دوا۔۔ انسانی معاشرے میں حیا آہستہ آہستہ ختم کرو تو ہو جاتی ہے۔ یکدم کرو تو انسانی فطرت احتجاج کرتی ہے۔۔ تو فیشن بڑھتے گئے۔۔ کپڑے گھٹتے گئے۔۔ مقصد عورت سے اسکی فطری حیا چھین کر اس کو نچانا تھا۔۔ معلوم ہے برا لگے گا۔۔ کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔۔ پھر ڈیجیٹل دنیا آئی۔۔ اسمارٹ فون نے اسمارٹ ٹی وی ہر ایک ایک ہاتھ میں دیدیا۔ سوچیے اگر حیا کو پہلے سے نہ ختم کر دیا گیا ہوتا۔۔ تو ہزار ڈیجیٹل ٹک ٹوک آ جاتے۔۔ کیا لڑکی اس کی اسکرین پر ناچتی؟ جن کی حیا ذرا سی سسک رہی تھی، وہ باقیوں کو ناچتے دیکھ کر ختم ہو گئی۔ جو پھر بھی ثابت قدم رہیں، ان کے لیے ناچنے والیوں کے انٹرویوز آ گئے۔ ایک کروڑ، دو، آٹھ، دس، پچاس کروڑ کمانے والے انٹرویوز نے رہی سہی کسر نکال دی۔۔ فاقے کرنے والی کی بات چھوڑ دیں۔ وہ تو جسم بیچنے کو جائے تو اللہ کا اس کا معاملہ۔۔ یہاں مڈل کلاس اور سفید پوش طبقے کی لڑکی جب دیکھتی ہے کہ کروڑوں کمانے والی کا حسب نسب کوئی نہیں پوچھتا۔۔ تو اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔۔ پھر معاشرے میں ڈراموں سے لے کر مغربی فیمنزم کی آڑ میں محض عورت کو”بازاری” بنانے کا کام بھی جاری رہا۔۔ چین نے ٹک ٹاک ایپ کیا بنائی، پھر اسٹریمنگ کی ایپس کا طوفان آ گیا۔۔آج ان ایپس پر نوے فیصد ناچنے والی ویڈیوز کا بیک گراؤنڈ ایک گھر کا بیڈ روم یا لیونگ روم ہوتا ہے۔۔ اور ناچنے والی ایک گھریلو عورت۔۔ گھرگھرناچ گانا ہوگا، بات سچ ہو گئی ہے۔
اب ایک اور سبق آموزسچا واقعہ سن لیجیے۔۔ ایک لبنانی باشندہ اپنی کہانی کچھ اس طرح سے سناتا ہے کہ ۔۔ میں جاپان کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا ۔میں ہوٹل کے سوئمنگ پول میں اترا، تب میرے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا، نہاتے نہاتے میں نے سوئمنگ پول میں ہی پیشاب کر دیا کسی کیمیکل کی وجہ سے چند لمحوں میں پورے سوئمنگ پول کے پانی کا رنگ تبدیل ہوگیا۔سکیورٹی پر مامور افراد فوری پہنچ گئے اور مجھے سوئمنگ پول سے نکالا، میری نظروں کے سامنے عملہ آیا اور سوئمنگ پول کے پانی کو بہت تھوڑے وقت میں تبدیل کر دیا ۔مجھے ہوٹل کے ریسیپشن کاؤنٹر پہ بلایا گیا، میرا پاسپورٹ اور سامان مجھے واپس کر دیا گیا اور مجھے ہوٹل سے باہر کر دیا ۔اب میں شہر کے جس بھی ہوٹل کا رخ کرتا،ریسیپشن پر بیٹھا عملہ میرا پاسپورٹ دیکھ کر کہتا تم ہی ہو نا جس نے سوئمنگ پول میں پیشاب کیا تھا ؟؟یعنی انہوں نے میرا تمام ڈیٹا اپنے نیشنل ڈیٹا بیس میں محفوظ کردیا۔۔بہت کوشش کے باوجود مجھے کسی فائیوا سٹار ہوٹل میں روم نہیں ملا، میں نے اپنے سفارت خانے کا رخ کیا اور انہیں ساری کہانی سنا دی، سفارت خانے سے یہ رہنمائی ملی کہ ایسا ہوٹل تلاش کریں جہاں سوئمنگ پول نہ ہو، میں جب جاپان چھوڑنے کیلئے ائیرپورٹ امیگریشن پہنچا تھا میرے پاسپورٹ پر مہر لگاتے ہوئے وہاں کے ایک آفیسر نے کہہ دیا۔۔امید ہے آپ کو اچھا سبق ملا ہوگا۔۔اس لبنانی باشندے کے مطابق تین دنوں میں پورا جاپان جان چکا تھا کہ میں ہی تھا جس نے سوئمنگ پول میں پیشاب کیا تھا، اس واقعے کو عرصہ بیت گیا ، وہ کہتا ہے کہ آج بھی کوئی جاپانی مجھے نظر آتا ہے تو مجھے لگتا ہے اسے بھی اس واقعے کا پتہ ہوگا۔۔دوسری طرف ہمارے ملک میں اربوں ڈالر ملک کے لوٹ لیے گیے، خزانہ خالی کر دیا گیا لیکن کسی کو پتہ ہی نہیں ہے کہ کون لوٹ گیا، کون کھا گیا، کس نے ہاتھ صاف کیا ؟؟ہمارے اداروں نے ہمیں معلوم ہی ہونے نہیں دیا کہ کون ٹانگ اٹھا کر قومی خزانے میں کتنا پیشاب کر گیا ہے؟؟
ہمارے پیارے دوست بتارہے تھے کہ ۔۔ایک دن وہ ہم سے ملی اور بولی کیا تم مجھے یاد نہیں کرتے؟ میں نے کہا ،اگر یاد کرنا اتنا آسان ہوتا تو ہم اپنی کلاس میں ٹاپ نہ کر لیتے۔۔یہ بھلا کون سی سائنس ہے۔؟؟اسی طرح امریکا سے پاکستان آئی ہوئی خالہ نے اپنے بھانجے سے پوچھا۔۔تم ہمیں یاد بھی کرتے ہو یا نہیں؟۔۔بھانجے نے برجستہ کہا۔۔خالہ! مجھ سے تو سبق یاد نہیں ہوتا، آپ کو کیسے یاد کروں؟بیگم صاحبہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ شاپنگ کررہی تھی۔۔ کراکری والے کی دکان پر رکیں اور شوہر کو مخاطب کرکے پوچھا۔۔ یہ چھوٹے والے گلاس ٹھیک رہیں گے؟شوہر نے کہا۔نہیں، یہ بڑے والے لے لو، آسانی رہے گی۔بیوی نے اصرار کیا کہ ۔۔ میرا خیال ہے آج کل چھوٹے گلاسوں کا رواج ہے، تو میں نے یہی لینے ہیں۔۔دکاندار نے جب میاں،بیوی کی تکرار دیکھی تو درمیان میں لقمہ دے ڈالااور بات سنبھالتے ہوئے کہنے لگا۔۔بھائی جان، آپ کی وائف ٹھیک کہہ رہی ہیں، بڑے گلاس تو پرانے دور میںاستعمال ہوتے تھے، آج کل چھوٹے گلاسوں کا فیشن اور ٹرینڈ چل رہا ہے۔شوہر نے غصیلی نظروں سے دکاندار کو دیکھا اور دانت پیستے ہوئے کہا۔۔جس کام کا پتا نہ ہو اس میں ٹانگ نہیں پھنساتے۔۔چھوٹے گلاسوں میں میرا ہاتھ نہیں جاتا۔ان کو دھوؤں گا کیسے؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔امریکا کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر