... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، قرب قیامت کی کئی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گھر گھر ناچ گاناہوگا،یہ ہم لڑکپن میں بزرگوں سے سنتے تھے تو انکی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا تھا۔ ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟گھر گھر ناچ گانا کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم حیرانی سے سوچا کرتے تھے۔ پھر وقت بدلتا گیا۔۔ دوپٹے سروں سے سینوں پر آ گئے۔۔ شلواریں ٹخنوں سے اوپر جانے لگیں۔۔کوئی بزرگ روکتا۔۔ تو ہم ہی راستے میں آ جاتے کیا ہوگیا ہے، اتنی حساسیت کیوں۔۔ لڑکی ہے تو جان لو گے کیا؟؟جینے دو اس کو۔۔ ذرا سی ٹانگ ننگی ہو گئی تو کیا قیامت آ جائیگی۔۔ کچھ نہیں ہوتا، فیشن ہے۔۔ بس۔۔ کالج میں ذرا ماڈرن لک دینی ہوتی ہے۔ بچیوں کو۔۔ اور کیا۔۔ مائیں بھی بیک فٹ پر چلی جاتیں۔۔دوپٹے سینوں سے کاندھے پر چلے آئے۔ ۔ اور پھر غائب ہونے لگے۔۔ فیشن ہے۔۔ فیشن ہے۔۔ یہ جو فیشن ہوتا ہے نا؟؟ یہ ایکسپٹنس کا لیکچر ہوتا ہے۔۔ بلکہ لیکچر سے زیادہ اسٹرونگ کوئی چیز۔۔۔ جیسے سن کر دینے والی کوئی دوا۔۔ انسانی معاشرے میں حیا آہستہ آہستہ ختم کرو تو ہو جاتی ہے۔ یکدم کرو تو انسانی فطرت احتجاج کرتی ہے۔۔ تو فیشن بڑھتے گئے۔۔ کپڑے گھٹتے گئے۔۔ مقصد عورت سے اسکی فطری حیا چھین کر اس کو نچانا تھا۔۔ معلوم ہے برا لگے گا۔۔ کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔۔ پھر ڈیجیٹل دنیا آئی۔۔ اسمارٹ فون نے اسمارٹ ٹی وی ہر ایک ایک ہاتھ میں دیدیا۔ سوچیے اگر حیا کو پہلے سے نہ ختم کر دیا گیا ہوتا۔۔ تو ہزار ڈیجیٹل ٹک ٹوک آ جاتے۔۔ کیا لڑکی اس کی اسکرین پر ناچتی؟ جن کی حیا ذرا سی سسک رہی تھی، وہ باقیوں کو ناچتے دیکھ کر ختم ہو گئی۔ جو پھر بھی ثابت قدم رہیں، ان کے لیے ناچنے والیوں کے انٹرویوز آ گئے۔ ایک کروڑ، دو، آٹھ، دس، پچاس کروڑ کمانے والے انٹرویوز نے رہی سہی کسر نکال دی۔۔ فاقے کرنے والی کی بات چھوڑ دیں۔ وہ تو جسم بیچنے کو جائے تو اللہ کا اس کا معاملہ۔۔ یہاں مڈل کلاس اور سفید پوش طبقے کی لڑکی جب دیکھتی ہے کہ کروڑوں کمانے والی کا حسب نسب کوئی نہیں پوچھتا۔۔ تو اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔۔ پھر معاشرے میں ڈراموں سے لے کر مغربی فیمنزم کی آڑ میں محض عورت کو”بازاری” بنانے کا کام بھی جاری رہا۔۔ چین نے ٹک ٹاک ایپ کیا بنائی، پھر اسٹریمنگ کی ایپس کا طوفان آ گیا۔۔آج ان ایپس پر نوے فیصد ناچنے والی ویڈیوز کا بیک گراؤنڈ ایک گھر کا بیڈ روم یا لیونگ روم ہوتا ہے۔۔ اور ناچنے والی ایک گھریلو عورت۔۔ گھرگھرناچ گانا ہوگا، بات سچ ہو گئی ہے۔
اب ایک اور سبق آموزسچا واقعہ سن لیجیے۔۔ ایک لبنانی باشندہ اپنی کہانی کچھ اس طرح سے سناتا ہے کہ ۔۔ میں جاپان کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا ۔میں ہوٹل کے سوئمنگ پول میں اترا، تب میرے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا، نہاتے نہاتے میں نے سوئمنگ پول میں ہی پیشاب کر دیا کسی کیمیکل کی وجہ سے چند لمحوں میں پورے سوئمنگ پول کے پانی کا رنگ تبدیل ہوگیا۔سکیورٹی پر مامور افراد فوری پہنچ گئے اور مجھے سوئمنگ پول سے نکالا، میری نظروں کے سامنے عملہ آیا اور سوئمنگ پول کے پانی کو بہت تھوڑے وقت میں تبدیل کر دیا ۔مجھے ہوٹل کے ریسیپشن کاؤنٹر پہ بلایا گیا، میرا پاسپورٹ اور سامان مجھے واپس کر دیا گیا اور مجھے ہوٹل سے باہر کر دیا ۔اب میں شہر کے جس بھی ہوٹل کا رخ کرتا،ریسیپشن پر بیٹھا عملہ میرا پاسپورٹ دیکھ کر کہتا تم ہی ہو نا جس نے سوئمنگ پول میں پیشاب کیا تھا ؟؟یعنی انہوں نے میرا تمام ڈیٹا اپنے نیشنل ڈیٹا بیس میں محفوظ کردیا۔۔بہت کوشش کے باوجود مجھے کسی فائیوا سٹار ہوٹل میں روم نہیں ملا، میں نے اپنے سفارت خانے کا رخ کیا اور انہیں ساری کہانی سنا دی، سفارت خانے سے یہ رہنمائی ملی کہ ایسا ہوٹل تلاش کریں جہاں سوئمنگ پول نہ ہو، میں جب جاپان چھوڑنے کیلئے ائیرپورٹ امیگریشن پہنچا تھا میرے پاسپورٹ پر مہر لگاتے ہوئے وہاں کے ایک آفیسر نے کہہ دیا۔۔امید ہے آپ کو اچھا سبق ملا ہوگا۔۔اس لبنانی باشندے کے مطابق تین دنوں میں پورا جاپان جان چکا تھا کہ میں ہی تھا جس نے سوئمنگ پول میں پیشاب کیا تھا، اس واقعے کو عرصہ بیت گیا ، وہ کہتا ہے کہ آج بھی کوئی جاپانی مجھے نظر آتا ہے تو مجھے لگتا ہے اسے بھی اس واقعے کا پتہ ہوگا۔۔دوسری طرف ہمارے ملک میں اربوں ڈالر ملک کے لوٹ لیے گیے، خزانہ خالی کر دیا گیا لیکن کسی کو پتہ ہی نہیں ہے کہ کون لوٹ گیا، کون کھا گیا، کس نے ہاتھ صاف کیا ؟؟ہمارے اداروں نے ہمیں معلوم ہی ہونے نہیں دیا کہ کون ٹانگ اٹھا کر قومی خزانے میں کتنا پیشاب کر گیا ہے؟؟
ہمارے پیارے دوست بتارہے تھے کہ ۔۔ایک دن وہ ہم سے ملی اور بولی کیا تم مجھے یاد نہیں کرتے؟ میں نے کہا ،اگر یاد کرنا اتنا آسان ہوتا تو ہم اپنی کلاس میں ٹاپ نہ کر لیتے۔۔یہ بھلا کون سی سائنس ہے۔؟؟اسی طرح امریکا سے پاکستان آئی ہوئی خالہ نے اپنے بھانجے سے پوچھا۔۔تم ہمیں یاد بھی کرتے ہو یا نہیں؟۔۔بھانجے نے برجستہ کہا۔۔خالہ! مجھ سے تو سبق یاد نہیں ہوتا، آپ کو کیسے یاد کروں؟بیگم صاحبہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ شاپنگ کررہی تھی۔۔ کراکری والے کی دکان پر رکیں اور شوہر کو مخاطب کرکے پوچھا۔۔ یہ چھوٹے والے گلاس ٹھیک رہیں گے؟شوہر نے کہا۔نہیں، یہ بڑے والے لے لو، آسانی رہے گی۔بیوی نے اصرار کیا کہ ۔۔ میرا خیال ہے آج کل چھوٹے گلاسوں کا رواج ہے، تو میں نے یہی لینے ہیں۔۔دکاندار نے جب میاں،بیوی کی تکرار دیکھی تو درمیان میں لقمہ دے ڈالااور بات سنبھالتے ہوئے کہنے لگا۔۔بھائی جان، آپ کی وائف ٹھیک کہہ رہی ہیں، بڑے گلاس تو پرانے دور میںاستعمال ہوتے تھے، آج کل چھوٹے گلاسوں کا فیشن اور ٹرینڈ چل رہا ہے۔شوہر نے غصیلی نظروں سے دکاندار کو دیکھا اور دانت پیستے ہوئے کہا۔۔جس کام کا پتا نہ ہو اس میں ٹانگ نہیں پھنساتے۔۔چھوٹے گلاسوں میں میرا ہاتھ نہیں جاتا۔ان کو دھوؤں گا کیسے؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔امریکا کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔