... loading ...
حمیداللہ بھٹی
پاکستان کے بڑے تجارتی شراکت دار وں کو تجارتی حوالے سے برتری حاصل ہے اِن میں چین ،امریکہ اور ترقی خاص طورپر قابلِ ذکرہیں جبکہ بھارت جیسے کئی ممالک سے درآمدجاری ہے لیکن برآمد نہ ہونے کے برابرہے۔ اسی بناپر تجارتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھتا جارہا ہے جسے کم کرنے کے لیے ایسی نئی تجارتی منڈیوں کی تلاش ازحد ضروری ہے جہاں پاکستانی مال کی کھپت کے مواقع زیادہ ہوں۔ اِس حوالے سے جاری حالیہ کوششوں کے تناظر میں کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کو اِس کا مکمل ادراک ہے کہ ملک کو معاشی مشکلات سے نکالناہے تو نئی تجارتی منڈیاں تلاش کرنا ناگزیرہے ۔ رواں ماہ چودہ نومبر کو اسلام آباد میں پہلا پاکستان،ازبکستان اور افغانستان سہ فریقی اجلاس ہوا جس میں شریک تینوںممالک نے ایک دوسرے کی اقتصادی ترقی اور تجارتی منڈیوں تک رسائی دینے پر تبادلہ خیال کیا۔تجارتی تعلقات کو فروغ دینے پر خاص طور پر توجہ دی گئی۔ چاہے سہ فریقی اجلاس کے تینوں ممالک بہت زیادہ ترقی یافتہ نہیں نہ ہی معاشی حجم زیادہ حوصلہ افزاہے لیکن اپنی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک دوسرے کی منڈیوں تک آسان رسائی کا طریقہ کار بنالیں تومعاشی ترقی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
پاکستان اور ازبکستان کی دو طرفہ تجارت کا حجم سوملین ڈالر ہے جو کچھ زیادہ نہیں، اِس میں فوری طورپر دو سے تین گُنا اضافے کی گنجائش ہے، تجارت کے ساتھ ہُنرمند تعلیم میں تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ صرف ٹھوس اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ خوش آئندامر یہ ہے کہ دونوں ممالک دوطرفہ تجارت کو آسان اور تیز کرنے کے لیے بینکنگ چینلز کھولنے پر کام کررہے ہیں لیکن کام کی رفتار بہت سُست ہے۔ سہ فریقی اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے مہمان ازبکستان کے نائب وزیر اعظم ڈاکٹر جمشید خدجایف (جن کے پاس وزارتِ تجارت کا بھی قلمدان ہے)کے ہمراہ تین بڑے بینکوں کے صدور بھی آئے ہیں۔ پاکستان کے ایگزام بینک کوبھی فعال کر دیا گیاہے جس سے باہمی کنٹینر سروس کو بہتر بنانے میں مددملے گی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ازبکستان اپنے برادر پاکستان سے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے میں سنجیدہ ہے جس سے پاکستان کو فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے اِس میں محفوظ افغان راہداری اہم کردار ادا کر سکتی ہے اِس پہلوپر بھی تینوں ممالک کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
گوادر بندگاہ فعال ہونے سے وسط ایشیائی خطے کے اکثر ممالک پاکستان سے راہداری کے خواہشمند ہیں اور اِس حوالے سے ٹرانس ریل منصوبے کی تکمیل پربھی بات چیت جاری ہے۔ یہ منصوبہ جتنی جلدی مکمل ہو گا تجارتی سامان لانے اور لے جانے میں سہولتیں بڑھیں گی۔ رواں ماہ 8سے9نومبر کو ازبکستان کے شہر تاشقند میں 16 ویںای سی او سربراہی اجلاس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے ازبک صدر شوکت مرزیوف کے ساتھ ملاقات کی اور دونوں مملکتوں کے درمیان تجارت،دفاع اور باہمی روابط کے شعبوں میں تعلقات کی رفتار کا خاص طور پر جائز ہ لیتے ہوئے نہ صرف اطمنان کا اظہار کیاگیا بلکہ مزید بہتر بنانے کافیصلہ کیا گیا ۔ اب اسلام آباد میں پاکستان ،افغانستان اور ازبکستان کے مشترکہ اجلاس میں کسٹم ،لاجسٹکس،تجارت کے فروغ ،ٹیرف ،اور ٹی آئی آر کے طریقہ کار پر بات چیت کے لیے سہ فریقی ورکنگ گروپ قائم کر دیا گیا ہے جس کا ہر ماہ اجلاس ہوناطے پایا ہے۔ یہ ایک نہایت اہم پیش رفت ہے مگر تجارتی ثمرات حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان صرف مال درآمد کرنے کی منڈی نہ بنے بلکہ پیداواری شعبے پر توجہ دے کر اپنی برآمدات بھی بڑھائے نیزراہداری کے خواہشمند ممالک کو سہولت دینے میں حائل رکاوٹیں دور کر نے پر توجہ دے کیونکہ وسطی ایشائی ممالک بیرونی تجارت کے لیے محفوظ اور آسان رسائی کے خواہاں ہیں۔ اُن کی یہ ضرورت گوادربندرگاہ سے باآسانی پوری کی جا سکتی ہے۔ اِس طرح اُن ممالک کا بھلا کرنے کے ساتھ پاکستان کواضافی محصولات حاصل ہو سکتے ہیں۔
پاک افغان تعلقات میں کھنچائو ہے جس کی وجہ اسلام آباد کا غیر قانونی رہائش پزیر غیر ملکیوں کو نکالنے کا فیصلہ ہے کیونکہ یہ غیر ملکی دیگر غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونے کے ساتھ امن و امان میں بھی خلل کا باعث ہیں ۔ پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہ سہ فریقی اجلاس میں ازبک نائب وزیرِ اعظم ووزیرتجارت ڈاکٹر جمشید خدجائف اور افغان وزیرِ صنعت وتجارت نورالدین عزیزی شامل ہوئے اور جس طرح تینوں ممالک جہاں مشترکہ منصوبوں ،پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور سرمایہ کاری پر توجہ دے رہے ہیں اگر اسمگلنگ جیسے دھندے کامکمل خاتمہ کرنے کا بھی کوئی نتیجہ خیزطریقہ کاربنالیں،غیر قانونی دولت کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ جب تک اِس طرف توجہ نہیں ہوگی تب تک پائیدار ترقی اور خوشحالی کی مضبوط بنیاد نہیں رکھی جا سکتی نہ ہی تجارتی ثمرات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ میزبان نگران وزیرِ تجارت ڈاکٹر گوہر اعجاز نے اسلام آباد میں مہمان نائب وزیراعظم ڈاکٹر جمشید کے ہمراہ پاک ازبک بزنس فورم میں بات چیت کرتے ہوئے کچھ نئے امکانات کی طرف اشارہ کیا مگر اسمگلنگ جیسے ناسور پر قابو پانے کی کوئی بات نہیں ہوئی جو ناقابلِ فہم ہے۔ ازبکستان نے اِس حد تک پہل کر دی ہے کہ تجارت کو ڈیجیٹلائزکردیا ہے۔ یہ ایک نہایت اہم پیش رفت ہے اِس سے پاک ازبک تجارت کے درست اعدادو شمار حاصل ہونے کے ساتھ اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ لیکن اربوں ڈالرکی پاک افغان تجارت کے درست اعداد و شمار دستیاب نہیں جس کی وجہ اسمگلنگ ہے۔ اگر دونوں ممالک مشترکہ طورپر پیش رفت کریں اور تجارت کو ضابطہ کے مطابق لائیں تو محصولات بڑھا سکتے ہیں۔ پاک افغان سرحدی پٹی پرآج بھی اسمگلنگ کا دھندہ عروج پر ہے جس پر قابو پانے کے لیے حکومتوں کو نتیجہ خیز طریقہ کار بنانا ہو گا ۔
پاکستان کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے وسطی ایشیا سے گیس و تیل کی سستے داموں درآمد سے نا صرف پاکستان توانائی کی قلت پرقابوپا سکتا ہے بلکہ مہنگائی کی شدید لہر کے اثرات میں بھی کمی لا ئی جا سکتی ہے کیونکہ مہنگی بجلی نے پیداواری لاگت میں بے تحاشااضافہ کردیا ہے جس سے ہمارا مال عالمی منڈی میں توجہ کھونے لگا ہے۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک کی طرف سے ایک سے زائدایسی پیشکشیں موجود ہیں خود انحصاری کے ساتھ جتنی جلدی ایسی پیشکشوں سے فائدہ اُٹھایا جائے ملک کی صنعت و تجارت کے لیے بہتر ہے۔ اِس کے لیے افغانستان میں امن کا قیام ناگزیر ہے۔ بدقسمتی سے غیر ملکی افواج کی رخصتی کے بعدبھی وہاں مکمل امن قائم نہیں ہو سکا، بلکہ آج بھی یہ ملک شرپسند عناصر کی آماجگاہ ہے جواِسے خطرناک ملک ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ سہ فریقی اجلاس میں اِس حوالے سے کوئی قابلِ تحسین بات چیت تو نہیں ہوئی ۔البتہ پاکستان اور افغانستان مشترکہ طورپر اگر امن دشمن عناصر کا خاتمہ کرنے کا طریقہ کار بنا کر عملدرآمد کریں تو نہ صرف باہمی تجارت میں اضافہ ممکن ہے بلکہ بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے بھی سازگار ماحول بنانا سہل ہو گا۔ پاکستان ،ازبکستان اور افغانستان مشترکہ مذہبی ،ثقافتی اور تاریخی روایات کے امین ہیں جن کے درمیان اختلافِ نظر یا غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ صرف اِس طرح ہی خوشحالی کا نیا باب رقم کیا جا سکتا ہے ۔باہمی رابطوں کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کرنے اور باہمی تعاون بڑھانے سے ترقی کی منزل حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ اِس لیے گوادر راہداری کی طرح افغان راہداری بھی خاص طورپر توجہ دینے کی ضرورت ہے امن کی طرف طالبان کی پیش قدمی اور ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات اور تجارت سے افغان معیشت بہتر ہونے کے ساتھ خطے کو ترقی کی شاہراہ پر لایا جا سکتا ہے۔ سہ فریقی اجلاس سے ابتداہوگئی ہے، ایسی کوششوں کوجاری رہنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔