... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
ٹو پلس ٹو نامی مذاکرات کے تحت امریکہ اور ہندوستان کے درمیان ہر سال وزرا ئے خارجہ اور دفاع میں گفت و شنید ہوتی ہے ۔ سرزمینِ فلسطین پر جاری اسرائیلی جارحیت کے پیش نظر اس بار کی بات چیت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوگئی تھی۔ ویسے تو ان مذاکرات کا بنیادی مقصد ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے ۔ ہندوستان سے مضبوط دفاعی تعلقات قائم کرکے اسے روس سے دور کرنا بھی اس کا ذیلی ہدف ہے کیونکہ وہ ہندوستان کو فوجی ساز و سامان فراہم کرنے والا اہم ملک ہے ۔ پچھلے ہفتہ ان مذاکرات میں شرکت کے لیے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن دہلی آئے اور اپنے ہم مناصب ایس جے شنکر اور راج ناتھ سنگھ کے ساتھ نئی دہلی میں اسٹریٹجک شراکت داری، دفاعی تعاون اور ہندـبحرالکاہل کے حالات پر تبادلہ خیال کیا ۔ اس وقت ظاہر ہے فلسطین کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ہوگا ۔ اس بابت ابتدا میں ہندوستان اور امریکہ بالکل ہم آہنگ تھے مگر وقت کے ساتھ اختلاف بڑھتا چلا گیا۔
27 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیل کے خلاف قرار داد پیش ہوئی تو امریکہ سمیت 14 یوروپی ممالک نے مخالفت کی۔ اسرائیل اور امریکہ کو یہ توقع تھی کہ ہندوستان بھی ان میں شامل ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہندوستان نے اپنے نقطہ نظر کے تمام عناصر کو شامل نہیں کیے جانے کا بہانہ بناکر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ہندوستان جنگ بندی کی حمایت میں رائے دینا چاہتا تھا مگر چونکہ بقول حکومت ِ ہند قرار داد میں 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی مذمت نہیں تھی اور یرغمال بنائے گئے لوگوں کے فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تھا اس لیے نہ حمایت کی اور نہ مخالفت ہی کی ۔ اس سے امریکہ اور اسرائیل دونوں ناراض ہوگئے ۔ نیتن یاہو نے تو اس کا اظہار کیا مگر امریکہ نے ہندوستان کو سمجھانے بجھانے کی خاطر وزرائے خارجہ اور وزیر دفاع کو بھیج دیا ۔ ویسے ہندوستان سمیت ووٹنگ میں 45 ممالک کی عدم شرکت کے باوجود وہ قرار داد 120 ممالک کی زبردست حمایت سے منظور ہوگئی ۔اس موقع پر اپنے احساسِ جرم کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہندوستانی نمائندے نے قرارداد پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے ہمیشہ اسرائیل ،فلسطین مسئلہ کے مذاکراتی حل کی حمایت کی ہے تاکہ تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر ایک خودمختار اور قابل عمل ریاست فلسطین کے قیام ہو اور وہ اسرائیل کے ساتھ پر امن طریقے پر رہے ۔ اس مقصد کے لیے ، فریقین کو کشیدگی کم کرنے ، تشدد سے گریز کرنے اور جلد از جلد براہ راست امن مذاکرات کی بحالی کے لیے سازگارحالات پیدا کرنے کی نصیحت کی گئی تھی۔ ٹو پلس ٹو مذاکرات میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ہندوستان کے حوالے سے کہا کہ ہمارے پاس اب تک کی نہ صرف سب سے مضبوط دوطرفہ شراکت داری ہے ، بلکہ ایک علاقائی اور حقیقت میں ایک عالمی شراکت داری بھی ہے ، جس کا مزید ثبوت رواں برس ہندوستان نے اپنی جی 20 کی قیادت سے دیا۔ ہمارے اپنے دفاعی ساتھیوں کے ساتھ مل کر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی اعلان کیا تھا کہ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں کا تبادلۂ خیال، مشترکہ اہداف کی تلاش اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔ اتفاق سے اس گفتگو والے دن ہی ہندوستا ن سے وابستہ امریکی ہدف دریا برد ہوگیا۔ امریکہ کی یہ سفارتی تدبیر الٹی پڑ گئی ۔
اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے والی قرار داد کے بعد فلسطین کے مسئلہ کی بنیادی وجہ اسرائیلی بستیوں کے خلاف ایک اہم قرارداد9 نومبر کو اقوام متحدہ میں پیش کی گئی۔ اس میں مشرقی یروشلم اور مقبوضہ شامی گولان سمیت فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے غلط اقدامات کو تنقید کا نشانہ تمام فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔ اس کی مخالفت جملہ ٧ ممالک نے کی۔ان میں اسرائیل اور امریکہ کے علاوہ ، کینیڈا، ہنگری کے علاوہ ۔ مارشل آئی لینڈ، فیڈریٹڈ اسٹیٹس آف مائیکرونیشیا،اورناورو جیسے ممالک تھے یعنی حال میں اسرائیل کا دورہ کرنے والا برطانیہ ، جرمنی اور فرانس تک نے ساتھ چھوڑ دیا۔استجویز کی حمایت میں 145 ممالک نے ووٹ دیا اور ان میں ہندوستان بھی شامل تھا ۔
اسرائیل رعونت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے خلاف کچھ سننے کا روادار نہیں ہے ۔ اقوام متحدہ کی اس تجویز کے بعد فرانسیسی صدر میکروں نے اسرائیل کے اپنے حق حفاظت کا دفاع کی حمایت کے بعد غزہ پٹی میں جنگ بندی کی اپیل بھی کردی۔ اس پر نیتن یاہو نے آگ بگولا ہوکر کہا کہ ”عالمی رہنماوں کو اسرائیل کی نہیں، حماس کی تنقید کرنی چاہیے ۔ حماس نے آج جو اسرائیل کے ساتھ کیا، کل وہ پیرس، نیویارک یا دنیا میں کہیں بھی ہو سکتا ہے ۔” لیکن اسرائیل جو کچھ غزہ میں کررہا ہے کیا وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں کرسکتا ہے ؟ اس طرح ساری دنیا خوفزدہ کرنے کا داوں اب نہیں چلے گا۔ اسرائیل کی حمایت دراصل امریکہ کی مجبوری ہے ۔ اپنی اسرائیل جیسی ناجائز اولاد کی کفالت جب برطانیہ کے بس سے باہر ہوگئی تو اسے امریکہ نے گود لے لیا۔اب وہ اپنی بدمعاش اولاکے نازو نخرے اٹھا رہا ہے ۔
مجاہدین غزہ کی مزاحمت نے دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم کو بھی ڈھیلا کردیا ہے ۔ امریکی ٹی وی نیٹ ورک ‘این بی سی’ پر اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو سے پوچھا گیا ہے کہ کیا سات اکتوبر کے حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے 240 اسرائیلیوں کو رہا کرنے کے لیے کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے ؟ تو جواب میں کہا گیا کہ ‘ہو سکتا ہے’ ۔لیکن یاہو کے مطابق اس کے بارے میں وہ جتنا کم کہے گا معاہدے کے امکانات اتنے روشن ہو سکتے ہیں۔یاہو کے موقف میں تبدیلی کی بنیادی وجہ غزہ جنگ میں فضائی حملے اور وحشیانہ بمباری کے باوجود زمینی جنگ میں صیہونی حکومت کی نا کامی ہے ۔ فلسطینی مزاحمت نے صیہونیوں کے غزہ میں کالونی بنانے کا خواب چکنا چور کر دیا ہے ۔غزہ پر قبضہ کرنے کے لئے زمینی حملے شروع ہونے کے بعد درجنوں صیہونی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور حماس کے مجاہدین اسرائیلی فوج کو تاریخی سبق سکھانے میں مصروف ِ عمل ہیں۔
فلسطینی مزاحمت نے صیہونی حکام کو روز برو ز موقف بدلنے پر مجبور کردیا ہے ۔ نیتن یاہو نے حال ہی میں کہا تھا کہ ان کی حکومت غزہ پر قبضہ نہیں کرنا چاہتی لیکن اس کے بعد کہہ دیا کہ وہ غزہ کی سیکورٹی اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں ۔ یہ دراصل ان کے کنفیوزن کا ثبوت ہے ۔ اسرائیلی رہنماؤں کے برعکس حماس کے رہ نما اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ “وقت زیادہ دیر تک دشمن کے لیے سازگار نہیں رہے گا۔ میدان
جنگ میں مزاحمت کی صلاحیت دشمن کی سوچ سے کہیں زیادہ مضبوط ہے ۔ فلسطین کی سرزمین پر غاصبوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے ۔حما س کی پر عزم جدوجہد کا ایک اثر یہ ہوا کہ اب اسرائیلی ایٹمی مراکز کا انتظام امریکیوں کے حوالے کرنے کی نوبت آگئی ہے ۔ اسرائیل کے فوجی شعبے میں انتظامی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے امریکی کمانڈروں نے اسرائیلی فوج کے ایک اہم حصے کی ذمہ داری سنبھالنی پڑی ۔
صیہونی حکومت کے سیکورٹی اور فوجی اداروں کے مختلف شعبوں میں فی الحال دراڑ اور بد اعتمادی عروج پر ہے ۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے ، صیہونی فوج، خاص طور پر اس کی فضائیہ میں ایک ہڑتال ہوئی تھی جس کے نتیجے میں اعلیٰ عہدہ دار جرنیلوں کو ہٹا دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ داخلی سیکیورٹی آرگنائزیشن شاباک اور وزیر داخلہ بین گویئر کے درمیان تنازع بھی منظر عام پر آ چکا ہے ۔اس کے برعکس اسامہ بن حمدان نے 160 ٹینکوں اور گاڑیوں کی تباہی کا دعویٰ کیا۔ اسامہ بن حمدان نے یہ اعتراف کیا کہ قیدیوں اور غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والوں کی رہائی کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں، لیکن ان میں صہیونی دشمن خود رکاوٹ ڈال رہا ہے ۔ وہ بولے کہ “قیدیوں کی رہائی ایک انسانی مسئلہ ہے ، لیکن یہ دونوں طرف سے ہونا چاہیے ، یعنی انسانی امداد کو آزادانہ طور پر غزہ میں داخل ہونے کی اجازت اور غزہ میں متعدد مقامات پرپھنسے ہوئے لوگوں کی معلومات جمع کرنے اور ان کی نقل و حرکت کی ضمانت ہونی چاہیے ۔
اسامہ بن حمدان نے ببانگِ دہل کہا کہ “کسی بھی صورت میں ایسی کوئی تجویز قبول نہیں کی جا سکتی جس سے زیر حراست لوگوں کی نگرانی کرنے والوں کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔ اسامہ بن حمدان نے بینجمن نیتن یاہو پر قیدیوں کے معاملے کو نظر انداز کرنے کا الزام لگا کر کہا وہ اپنی حکومت کی ناکامی اور اندرونی دباؤ کو دور کرنے کے لیے کچھ وقت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان کے خیال میں امریکی انتظامیہ الفاظ کے ساتھ کھیل رہا ہے ، اور اسرائیل کو اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے وقت دے رہی ہے ، نیز غزہ پر قبضے کے منصوبے کی مخالفت کا ڈرامہ بھی کررہا ہے ۔ اسامہ حمدان نے الجزیرہ پر کہا کہ “ہم فتح کے آپشن پر بات کر رہے ہیں۔ غزہ پر دہشت گرد صیہونی جارحیت کو کچلنا اور بھرپور جواب دینا، مزاحمت کاواحد ہدف ہے ۔ایک نڈر مجاہدِ آزادی کی دوٹوک ایمان افروز گفتگو کو پڑھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے
آئین ِ جوانمرداں،حق گوئی وبے باکی
اللہ کے شیروں کوآتی نہیں رُوباہی