... loading ...
ب نقاب
ایم آر ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آٹھ برس کی ایک گڑیا جیسی بچی تھی جس کے بال نوکدار چوٹیوں میں گندھے تھے، اُس نے معصومیت سے ایک اسرائیلی سپاہی کو احتجاجاً مکا دکھایا اُس کے بعد دیکھنے والوں نے دیکھا کہ سرخی ہی سرخی پھیل گئی،کچھ گوشت کے لوتھڑے،کچھ پھڑ پھڑاتے ہوئے رنگدار چیتھڑے زمین پر بکھرے پڑے تھے، پھولدار سرخ کپڑوں میں ملبوس وہ گڑیا جیسی بچی تھی، مجھے لگا اُس کے جسم کے پھڑ پھڑاتے ہوئے چیتھڑے، گوشت کے لوتھڑے مسلم امہ کے1ارب 80کروڑ 27لاکھ 42ہزار افراد کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہہ رہے ہیں
تلوار نیام میں رکھ کر غوری و غزنوی کا وارث نہیں کہلایا جاسکتا
ڈیڑھ ارب سے زائد خوابیدہ قوم کے لوگو!
تم اِبن ِ قاسم کی تلوار کے امیں بھی نہیں رہے
تمہارے آباء نے دریاؤں میں گھوڑے ڈالے تم ایک ایسی خوابیدہ قوم ہوجو اپنے حال سے نظریں چرائے مستقبل کی تیرگی سے نظر بچا کے پر شکوہ ماضی میں بسی ہے،کھوئی ہے جس کی آنکھوں کے سامنے ماضی کے عظیم لشکر گھومتے ہیں،قلعوں کے دروازے ٹوٹتے ہیں،تلواریں ٹکراتی ہیں ۔
اٹھو کہ تاریخ شکست خوردہ لوگوں سے کبھی انصاف نہیں کرتی
اٹھو کہ تمہاری ذلت دین سے غفلت میں ہے
اٹھو کہ عمل اس وقت تک اندھیرے ٹٹولتا ہے جب تک اسکے راستے کو انقلابی نظریہ روشن نہ کرے۔
تاریخ کا فیصلہ
مہمات میں ایک شخص کی قیادت دلیل فتح و نصرت ہوتی ہے
عبداللہ بن زبیر
”ہم وہ نہیں ہیں کہ پیٹھ پھیر لیں اور ہماری ایڑیوں پر خون گرے، ہم وہ ہیں کہ سینہ سپر رہتے ہیں اور ہمارے پنجوں سے خون گرتا ہے”۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح
خبردار! بہت سے لوگ اپنا لباس اجلا رکھتے ہیں مگر اپنا دین میلا رکھتے ہیں فلسطینی ماؤں کی آہیں،گرتے بموں کی قاتل آواز،معصوم بچوں کے تڑپتے لاشے،لہو میں ڈوبا غزہ،بھوک سے پچکے پیٹ،اُدھڑی لاشیں تمہیں پکار رہی ہیں ۔عرصہ پہلے عالمی فورم پر اُمہ کا درد رکھنے والے عمران خان نے اپنے سچ کی حقیقت بیان کر دی۔ حقیقتیں کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہو انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ شامیں لہو رنگ ہوں تو اُن کی نفی نہیں کی جا سکتی،آنسو رواں ہوں تو قہقہے لگانا مشکل ہو تا ہے
دہکتے ہوئے انگاروں کو چھوتی ہوئی مجاہد بچے کی آواز، گرتے ہوئے بچے کی آواز سنو !اسکول جاتے ہوئے اُن فلسطینی بچوں کے خون کے فوارے یاد کرو جن کے قدموں کی آوازوں کو گرد سے اٹی ہوئی گلیاں اب کبھی نہ سن پائیں گی ۔اسرائیلی درندوں کی اُن گولیوں کی بوچھاڑ سنو جس سے دس اور بارہ برس کے نو عمر فلسطینی بچے کوڑے کے ڈبوں کے ڈھکنوں کے پیچھے پناہ لیتے وقت چھلنی ہو ہو کر گر رہے تھے ۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں میں ہر 10 منٹ میں ایک بچہ شہید ہو رہا ہے۔یونیسیف کے سربراہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں مسلسل دم توڑتے بچوں کی صورت حال نے ہر شخص کو ہلا کر رکھ دیا ہے، غزہ میں روزانہ 420 سے زائد بچے شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔
7 اکتوبر سے جاری صیہونی جارحیت میں اب تک 3500 سے زائد بچے شہید ہوچکے ہیں۔ شہید بچوں میں ایک سال سے کم عمر کے 130 سے زیادہ بچے شامل ہیں، ایک سال کے 150 سے زیادہ بچے بھی شہدا میں شامل ہیں جب کہ 2 سال کے 158 سے زیادہ بچے شہید ہوئے ہیں۔غزہ میں 940 بچے لاپتہ ہیں جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ اسرائیلی بمباری کے باعث ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اسپتالوں اور طبی مراکز کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ہماری ماؤں کو فراموش مت کرو جو ایک متعین صبر کے ساتھ تمہارا انتظار کر رہی ہیں
اٹھو کہ مجاہد میں تغیر نہیں آتا آ بھی جائے تو اس میں میل نہیں آتا
باطل کے خلاف جہاد جبرو قہر ہے اس میں صلح نہیں ہوتی
اٹھو کہ جذبے کے بغیر کوہ کن پیدا نہیں ہوتے
اٹھو کہ جہاد فی سبیل اللہ جغرافیائی نہیں آئینی حدودپھیلانے کیلئے کیا جاتا ہے
جرأت ایک کیفیت ہے اور قربانی اس کیفیت پر گواہی، جرأت ایک طرز ِاختیار کا نام ہے قربانی ایک طریق ِ ترک کو کہتے ہیں۔
اٹھو کہ قانون فطرت کو توڑ کر آوارگیوں میں بسر کرنے والی قوم کے رنگیلے افراد مجاہد کی سخت زندگی کو قبول نہیں کر سکتے
اٹھو کہ غلام قوموں کی کہانی کہنے کیلئے مصر کے مینار یا عیش کا افسانہ سنانے والے لال قلعے رہ جاتے ہیں اور قوم فنا ہو جاتی ہے
اٹھو کہ قومیں جب عمل سے عاری ہو جاتی ہیں تو حسن عمل کی بجائے چند عقائد کو ذریعہ نجات بنا لیتی ہیں
سیدھی راہوں کو چھوڑ کرپیچیدہ اور فلسفیانہ موشگافیوں میں پڑ جاتی ہیں زبان اور دماغ کام کرتے ہیں
دل تاریک اور ہاتھ بیکار ہو جاتے ہیں
اٹھو کہ تمہاری عبادات عمل سے عاری ہیں جن میں دکھاوے اور دنیا فریبی کا عنصر ہے
قربانی کا سرخ لہو جب روانی سے رک جاتا ہے تو قوموں کی عظمت خاک میں مل جاتی ہے
اٹھو کہ بے ہمتوں کیلئے رحمت آسمان سے نہیں برستی، با ہمتوں کیلئے زمین سے پھوٹتی ہیں
آرام کی ضرورت صرف بیماروں کو ہے یا اوباشوں کو
سچا دین وہی ہے قربانی جس کا آئین ہو تم میں افضل وہ ہے جس کے دل میں شہادت کی تڑپ ہے
اسلاف کا رستہ، بدر کا رستہ
کہ دریا اپنے سمندر کی طرف جانیوالے راستے پر ہمیشہ بہتا چلا جاتا ہے، اسے اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی کہ پن چکی کا پہیہ ٹوٹتا ہے یا سلامت رہتا ہے
اٹھو کہ
مجرم کا انصاف مجرم نہیں کیا کرتے، سرکشوں کی صفائی گنہگار نہیں سنا کرتے
فتح کے سو باپ ہیں اور شکست یتیم ہے
جو سو جاتے ہیں کھو جانے کی رُت اُن پر ماتم کرتی ہے
اٹھو کہ حق کا پرستار کبھی بھی ذلیل نہیں ہوتا چاہے سارا زمانہ اس کے خلاف ہو جائے اور باطل کا پیروکار کبھی عزت نہیں پاتا خواہ چاند اس کی پیشانی میں نکل آئے!!!
٭٭٭