وجود

... loading ...

وجود

مسئلہ فلسطین کے متعلق علامہ اقبال کی واضح سوچ

جمعرات 16 نومبر 2023 مسئلہ فلسطین کے متعلق علامہ اقبال کی واضح سوچ

ریاض احمدچودھری

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال دْوراندیش شخصیت تھے۔ اْن کے خیالات، افکار ہر لحاظ سے قابل تقلید اور ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں پر اْن کے بیش بہا احسانات ہیں۔ اپنے کلام کے ذریعے اْنہوں نے مسلمانوں کو اْن کے حقوق سے روشناس کرایا۔ اْن میں آزادی کی شمع کو روشن کیا۔ یہودیوں اور مسئلہ فلسطین کے متعلق اْن کی سوچ بڑی واضح تھی۔ اپنی شاعری کے ذریعے اور مختلف مواقع پر اپنی گفتگو میں اس حوالے سے اْنہوں نے اپنے خیالات کا واضح اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانان عالم کو چاہیے کہ پوری بلند آہنگی کے ساتھ اعلان کریں کہ برطانیہ کے مدبر جس عقدے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کا تعلق صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پورے عالم اسلام کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔
عالمی مجلس، بیداری فکر اقبال کی ادبی نشست میں”علامہ محمداقبال اور فلسطین”پرعبدالرزاق نے کہاکہ علامہ کوپہلی جنگ عظیم کے بعدآنے والی صورتحال کااندازہ ہوگیاتھااسی لیے انہوں نے “فلسطینی عرب”کے عنوان سے جونظم لکھی اس کے مندرجات آج سچ ثابت ہورہے ہیں۔علامہ نے قائداعظم کو مسئلہ فلسطین کی بابت متعددخطوط لکھے اورعلامہ نے برملااس موقف کااظہارکیاکہ اگر فلسطین پر یہودیوں کاحق ہے تواندلس بھی مسلمانوں کے سپردکیاجائے۔انہوںنے اقوام متحدہ کوسخت تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ اس ادارے کی قراردادوں سے مسلمانوں کوکوئی قرارمیسرنہیں آیا۔ حالیہ کشمکش میں اسرائیلیوں کاجتناجانی ومالی نقصان بتایاجارہاہے حقیقت اس سے کہیں زیادہ ہے اور اسرائیلی وزیراعظم کا بھتیجابھی ماراجاچکاہے۔ شیخ احمدیاسین نے معذوری کے باوجود فلسطینیوں کے لیے یونیورسٹی کی بنیادرکھی اور اس فلسطینی راہنمانے صرف ایک ہی بیرونی دورہ کیاتھاجس میں ایران کے اندرانہوں نے امام خمینی سے ملاقات کی۔ علامہ نے بہت پہلے بتادیاتھاکہ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہودمیں ہے اوروہ 1931 میں اپنادورہ لندن مختصرکرکے یروشلم کے اندر فلسطین کانفرنس میں شریک ہوئے۔ 1935میں علامہ اورقائداعظم کے درمیان مسئلہ فلسطین پر خط وکتابت رہی۔شرکاء نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کاراستہ راہ حجازسے ہوکرگزرتاہے انہوں نے مسلمان حکمرانوں کی بے حسی پرافسوس کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ خود شاسی اورخداشناسی کے ذریعے شعور اجاگر کیا جاسکتا ہے اوراسی طرح ہی فکری غلامی اورذہنی انتشارسے نجات پاکر اتحادامت کی منزل تک پہنچناممکن ہے۔ بہت دردانگیزصورحال ہے اور اقبال اگر طرابلس کی فاطمہ پر نوحہ کرسکتے ہیں توفلسطین کے بچے ان کو کہیں زیادہ عزیزہوں گے۔ یہ دوعقیدوں کی جنگ ہے جس میں یہودنے اپنی الہامی کتب میں تحریف کرکے مسلمانوں کے خون کو مباح قراردے دیاہے اوریہ خدائی تعلیمات ہرگزنہیں ہوسکتیں۔
یہ صرف فلسطینیوں کایاعربوں کامسئلہ نہیں ہے بلکہ مغرب نے ایشیاء کے دروازے پر اپنا چوکیدار بٹھا دیاہے۔1937ء میں علالت کے باوجودعلامہ نے مسئلہ فلسطین پرایک جلسہ منعقدکیاتھا۔ چندفلسطینی مسلمان نوجوان اگرمملکت اسرائیل کی زبردست پٹائی لگارہے ہیں تو کل امت مل کرجائے تو اس ناجائزریاست کو چندلمحوں میں بآسانی نیست ونابودکیاجاسکتاہے۔ مسئلہ فلسطین پر علامہ نے برطانوی پارلیمان کوبھی خطوط لکھے تھے۔ ہماری جنگ جنگلی جانوروں سے بھی بدترقوم سے ہے جسے بچوں،عورتوں اور ہسپتالوں پر بھی بمباری سے عارنہیں۔ یہ قوم تہذیبوں کی قاتل اورآدم خودقوم ہے اورسیکولراہل مغرب ان کے ساتھ مل کر جمہوریت کے نام پردرندگی پھیلارہے ہیں۔مسلم حکمران میزوں،کاغذوں اوربیانات پراکتفاکیے بیٹھے ہیں جب کہ مسئلے کاحل یہ ہے کہ دشمن سیدشمن کی زبان میں بات کی جائے۔
علامہ اقبال کہتے ہیں ”فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی تجویز تو محض ایک بہانہ ہے اصلیت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس مقدس اور مذہبی سرزمین پر اپنا مستقل انتداب قائم رکھ کر برطانوی شہنشاہیت خود اپنے لیے ایک نیا ٹھکانہ پیدا کر رہی ہے، یہ اقدام ایک خطرناک تجربہ ہے اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے بھی اس کو خطرناک تجربے ہی سے تعبیر کیا ہے۔ یہودیوں کو زرخیز اراضی کی پیش کش کر کے اور عربوں کو پتھریلی بنجر زمین کے ساتھ کچھ نقد رقم دے کر راضی کرنے کی کوشش قطعاً کسی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت نہیں، یہ تو ایک ادنیٰ درجے کی حقیر سودے بازی ہے، جو یقینا اس عظیم الشان قوم کے لیے موجب ننگ اور باعثِ شرم ہے، جس کے نام پر عربوں سے آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا۔”اقبال اپنے ایک خط میں قائد اعظم محمد جناح کو لکھتے ہیں: ”میں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کے لیے تیار ہوں اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ اسلام کے لیے بہت عظیم ہے… یہ ایشیا کا دروازہ ہے جس پر بْری نیت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں”۔
تقسیم فلسطین کی تجویز کے دنوں میں علامہ اقبال کی صحت خاصی بگڑ چکی تھی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام تھے لیکن اس کے باوجود وہ اس کے تصور سے مسلسل بے چین اور افسردہ رہے۔ اقبال نے اس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کر دی تھیں۔ جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔
علامہ اقبال30 جولائی 1937ء کو فارکو ہرسن کے نام اپنے خط میں فلسطینی عوام کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں:”عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں جسے مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا۔ انگریز قوم کو بیدار کر کے اس بات پرآمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر