... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کوئی کسی کی نہیں سن رہا، اگر کوئی غریب ہے تو اس کی کوئی نہیں سن رہا، سیاسی جماعتیں لیول پلیئنگ فیلڈ کے لئے صدائے احتجاج بلند کررہی ہیں ان کی کوئی نہیں سن رہا، بس کنڈیکٹر مسافروں کی نہیں سن رہا، یوٹیلٹی اسٹورز والے عوام کی نہیں سن رہے۔گاڑیوں والے ٹریفک اہلکاروں کی نہیں سن رہے، عجب افراتفری سی مچی ہوئی ہے، ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی سنی جائے لیکن افسوس کوئی کان نہیں دھر رہا۔ ہمارے ایک بزرگ استاد ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ۔۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کچھ اس طرح سے بنایاہے کہ وہ زیادہ سنے اور کم بولے۔ ہم نے اس کی تشریح چاہی تو انہوں نے تفصیل میں جاتے ہوئے بتایا کہ ۔۔ ہر انسان کو اللہ تعالی نے دو ، کان دیے ہیں اور منہ میں زبان ایک دی ہے۔ اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ سنیں زیادہ اور بولیں کم۔۔ اپنے استاد کی یہ تشریح ٹھاہ کرکے ہماری عقل شریف کو لگی اور اس کے بعد سے ہماری بھی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہم بھی زیادہ سے زیادہ سنیں اور کم سے کم بولیں۔۔ویسے بھی یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا جدید دور ہے، دیکھا جائے تو جس میں جتنا زیادہ ”ان پٹ” ہوگا وہ اتنا ہی قابل اور ذہین کہلائے گا۔
خاتون خانہ پریشان تھیں۔ رات کو گھر میں دعوت تھی۔ پیزا بنانا چاہ رہی تھیں۔ سارا سامان لے آئی تھیں لیکن مشرومز لانا بھول گئی تھیں۔ رہتی بھی شہر سے دور تھیں۔ قریب کی مارکیٹ میں مشرومز دستیاب بھی نہ تھے۔ صاحب کو مسئلہ بیان کیا تو ٹی وی سے نظریں ہٹائے بغیر بولے۔۔ میں شہر نہیں جارہا۔ اگر مشرومز نہیں ڈلے تو پیزا بن جائے گا۔ اور اگر نہیں گزارا تو پچھلی طرف جھاڑیوں میں اگے ہوئے ہیں جنگلی مشرومز توڑ لو۔ ۔خاتون خانہ نے فرمایا کہ، میں نے سنا ہے جنگلی مشرومز زہریلے ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو فوڈ پوائزننگ ہو گئی تو؟؟صاحب بولے۔۔دعوت میں سارے شادی شدہ آرہے ہیں۔ زہریلی باتیں سننے کے عادی ہیں۔ زہریلے مشرومز بھی ان پہ اثر نہیں کریں گے۔ خاتون گئیں اور جنگلی مشرومز توڑ لائیں۔ مگر چونکہ خاتون تھیں اس لیے دماغ استعمال کیا اور کچھ مشرومز پہلے اپنے کتے موتی کو ڈال دیے۔ موتی نے مشرومز کھائے اور مزے سے مست کھیلتا رہا۔ چار پانچ گھنٹے بعد خاتون نے پیزا بنانا شروع کیا اور اچھی طرح سے دھو کر مشرومز پیزا اور سلاد میں ڈال دیے۔ دعوت شاندار رہی۔ مہمانوں کو کھانا بے حد پسند آیا۔ خاتون خانہ کچن میں برتن سمیٹنے کے بعد مہمانوں کے لیے کافی بنا رہی تھیں تو اچانک ان کی بیٹی کچن میں داخل ہوئی اور کہا۔۔ امی ہمارا موتی مر گیا۔ اور آپ کو پتہ ہے کہ۔۔۔خاتون خانہ نے برتنوں کی دھلائی ایک طرف رکھی اور جلدی سے بیٹی کو کہا۔۔چپ چپ چپ۔۔اب تو خاتون کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی۔ مگر چونکہ خاتون سمجھدار تھیں اس لیے panic نہیں ہوئیں۔ جلدی سے اسپتال فون کیا اور ڈاکٹر سے بات کی۔ ڈاکٹر نے کہا۔۔چونکہ کھانا ابھی ہی کھایا گیا ہے اس لیے بچت ہوجائے گی۔ تمام لوگ جنہوں نے مشرومز کھائے ہیں ان کو انیمیا دینا پڑے گا اور معدہ صاف کرنا پڑے گا۔ تھوڑی ہی دیر میں میڈیکل اسٹاف پہنچ گیا۔ سب لوگوں کا معدہ صاف کیا گیا۔ رات تین بجے جب میڈیکل اسٹاف رخصت ہوا تو سارے مہمان لیونگ روم میں آڑے ترچھے بے دم پڑے ہوئے تھے۔ اتنے میں خاتون کی بیٹی جس نے مشرومز نہیں کھائے تھے اور اس ساری اذیت سے بچی ہوئی تھی، سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ماں کے پاس بیٹھ گئی۔ ماں کے کاندھے پہ سر رکھ کر بولی۔۔ امی لوگ کتنے ظالم ہوتے ہیں۔ جس ڈرائیور نے اپنی گاڑی کے نیچے موتی کو کچل کر مار ڈالا وہ ایک سیکنڈ کے لیے رکا بھی نہیں۔ اف کتنا پتھر دل آدمی تھا۔ ہائے میرا موتی۔۔واقعہ کی دُم:آپ چاہیں خود کو کتنا ہی ذہین، سمجھ دار،معاملہ فہم اور ہوشیار سمجھ لیں، پوری بات سن لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔۔
باباجی ایک دن پرانے دنوں کا قصہ سناتے ہوئے بولے۔۔میں جدہ میں ایک دعوت پر مدعو تھا، وہاں ایک عربی کو دیکھا جو قہوے پہ قہوہ چڑھا رہا تھا، میں نے اس سے کہا آپ اتنا قہوہ کیوں پیتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ۔۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ میرے والد کی عمر 105 سال ہے اور وہ بالکل صحت مند ہیں؟میں نے عربی کی بات سن کر اگلا سوال داغا۔۔کیا وہ قہوہ زیادہ پیتے ہیں؟عربی نے قہوہ کی پیالی نیچے رکھتے ہوئے کہا۔۔نہیں، وہ لوگوں کے نجی معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتے۔۔آپ بھی کوشش کیاکیجیے کسی کے نجی معاملے میں ٹانگ اڑانے سے گریز کریں۔۔ نوجوان بیٹا جیسے ہی گھر میں گھسا، ماں نے اس پر تھپڑوں کی بارش کرتے ہوئے کہا۔۔اِدھر آ کمبخت مارے، میں تیری عاشقی کا جنازہ نکالوں، ابھی زمین سے ڈیڑھ فُٹ باہر آیا تُو اور یہ گُل کھلانے لگ گیا، جوان ہو کے ماں باپ کی عزت کیسے نہ خاک میں ملائے گا۔۔کالج سے واپسی پہ نوجوان اس اچانک ”حملے” پر حواس باختہ ہوگیا۔۔اس نے اس اچانک ہوئے حملے سے بچنے کی بہت کوشش کی، کبھی ہاتھوں سے مُنہ چھپانے کو شش کرتا، کبھی تیز باونسر کے موافق نیچے ہوکے ڈک کرنے کی کوشش کرتا لیکن اماں کا نشانہ کیسے خطا جاتا۔جب پیٹ پیٹ کے خود ہی ہانپنے لگ گئیں اور بیٹے کے بار بار کاسوال پہلی بار کانوں میں پڑا کہ۔۔ اماں کُچھ بتاؤ تو سہی ہوا کیا؟ ماں نے اس جارحیت کی وجہ ہانپتے ہوئے بیان کرتے ہوئے کہا۔۔موبائل آج گھر پہ بُھول گیا تھا نا، لُچّے تو تیری ماں کا فون آیا تھا جس کو 4 بجے ملنے جانا ہے تُو نے، اتنی آگ لگی تھی اس لچّر کو کہ فون اٹھاتے ہی بولی،ہاں آج 4 بجے کا یاد ہے نا؟ میں پارک میں انتظار کروں گی۔۔نوجوان نے یہ سب حیرت سے سنا اور اپنی جیب سے فون نکالتے ہوئے بولا۔۔اماں فون واقعی میری ماں کا تھا کیونکہ فون گھر پہ میں نہیں، ابّا بھول کے گئے ہیں۔۔بیگم صاحبہ اپنے شوہر ”شیخ ” صاحب کے ساتھ جب ایک ہوٹل کے سامنے سے گزری تو اچانک سے ”چکن تواپیس” کی اشتہا انگیز خوشبو کا بھبھکا نتھنوں سے ٹکرایا تو صبر نہ کر سکیں، بول پڑیں۔۔ اجی سنئے تو۔۔ شیخ صاحب رکے، پھر مڑے اور زوجہ محترمہ کو گھور کر سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔۔بیگم صاحبہ ہڑبڑا کر بولیں۔۔ واہ کیا خوشبو ہے۔۔شیخ صاحب بڑے فیاضانہ انداز میں بولے۔۔ بیگم پسند آئی توا پیس کی خوشبو؟؟بیگم صاحبہ جن کے پچھلے تین ہفتوں سے ساگ کھا کھا کے کان بھی سبز رنگ کے ہو گئے تھے، جلدی سے بولیں۔۔ جی سرتاج۔۔ شیخ صاحب بھی حاتم طائی کی قبر کو لات مارتے ہوئے بولے،چل دوبارہ گزرتے ہیں اسی ہوٹل کے سامنے سے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔وطن کی مٹی سے تو بچپن سے پیار تھا۔۔ جب بھی کھائی پیٹ بھر کے کھائی ۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔