وجود

... loading ...

وجود

غزہ کی مساجد و ہسپتالوں پر اسرائیلی جارحیت

بدھ 15 نومبر 2023 غزہ کی مساجد و ہسپتالوں پر اسرائیلی جارحیت

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم نے ہر دل کو لہو کر دیا ہے ،ظلم کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے، ابھی تک صیہونی بھیڑیوں کی ہوس پو ری نہیں ہو ئی اور مسلسل غزہ پر بمباری بلکہ فاسفورس بم استعمال کئے جا رہے ہیں ،جو انسانیت کیلئے انتہائی خطرناک ہیں،اسرائیلی وحشی درندوں نے ایک ماہ سے زائدجا ری جنگ میں اپنی بربریت و جارحیت کا مطاہرہ کرتے ہو ئے غزہ کو کھنڈر بنادیا ہے،جہاں اب انسان نہیں بلکہ وہ مردوں کے رہنے کی جگہ قبرستان کا منظر پیش کررہا ہے،آج غزہ میں انسانیت کی تذلیل اور بے توقیری کی جا رہی ہے،اور ان درندوں کو روکنے والا کوئی بھی نہیں،سینکڑوں کی تعداد میں ہماری فلسطینی ،مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں ،بچے شہید ہو چکے ہیں،سفاک اسرائیل کی زمینی اور فضائی بمباری سے انسانی خون کی ندیاں بہادیں، کھنڈر بنی غزہ کی سرزمین آج حضرت انسان کی بے توقیری پر دہائی دے رہی ہے اور انسانی حقوق کے دعویدار ممالک اور اداروں سمیت دنیا کے کسی کونے میں ایسا تحرک پیدا ہوتا نظر نہیں آرہا جو اسرائیلی صیہونیوں کے ذہنوں میں پیدا ہونیوالے برتری کے اور طاقت کے نشہ میں دھت پر انہیں جواب دے سکے اور فلسطینیوں کے قتل عام کیلئے اٹھنے والے اسکے قدم اور ہاتھ روک سکے۔ یہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش کیوں ہیں؟عالمی میڈیا خاموش کیوں ہے؟اپنے آپ کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار کہنے والا صیہونی امریکہ کیوں خاموش ہے؟کیا یہ کسی کی ماں نہیں،بیٹی نہیں،بہن نہیں،معصوم بچے کسی کی اولاد نہیں؟
اسرائیلی حملوں کی بجائے مذمت کر نے کہ یہ طاقتیں اس کو تھپکی دیتی ہو ئی نظر آتی ہیں،اس بائولے درندے کے سامنے اقوام متحدہ ، عالمی برادری اور نام نہاد مسلم ممالک سب بے بس نظر آتے ہیں، انسانیت کیلئے یہ دُہرا معیار آخر کیوں ہے؟کیونکہ یہ مسلمان ہیں،اور رہی بات مسلم حکمرانوں کی تو وہ تو صرف بیانات میں مذمت کر نے کی حد تک ہیں،آج غزہ میں ،خوراک،ایندھن ،کی کمی ہے،انٹرنیٹ جیسی سہولت محروم ہے،غزہ کی مائیں ،بہنیں،بیٹیاں ،بھائی،معصوم بچے امداد کے منتظر ہیں لیکن کہیں بھی مسلم ممالک کی جانب سے کوئی خاطر خواہ امداد نہ پہنچ سکی،جو انتہائی دکھ کی بات ہے اور بڑا المیہ ہے ،فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،لیکن وحشی اسرائیلی درندے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے،بہر حال اللہ تعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے جو بہترین انصاف کر نے والا ہے،صیہونی و سامراجی گماشتوں نے غزہ پر بمباری کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ،غزہ میںایک ماہ سے زائد سے اسرائیل کی بربریت جاری ہے جس میں اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 12 ہزار سے تجاوز کر گئی ،دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب تک طبی عملے کے 192 افراد، اقوام متحدہ امدادی ایجنسی کے 101 افراد جاں بحق جبکہ شہری دفاع کے 18 اہل کار بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اسرائیلی بمباری میں تاریخی اہمیت اور قومی ورثے کی حیثیت کی حامل 4 مساجد سمیت اب تک 70 مساجد شہید ہوچکی ہیں جب کہ سوا سو سے زائد مساجد کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی طیاروں نے خان یونس کے علاقے میں خالد بن ولید مسجد، خان یونس کے ہی علاقے میں ایک اور مسجد الاخلاص کو بھی تباہ کردیا گیا جس کے بعد 136 مساجد اور 3 گرجا گھروں کو جزوی نقصان بھی پہنچا۔ اسرائیل نے تمام جنگی اصولوں کو قدموں تلے روند ڈالا ہے۔ ہلال احمر فلسطین کے مطابق الشفا کے بعد غزہ کا دوسرا بڑا اسپتال القدس ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال ہوگیا۔ دوا، پانی، کھانے سے محروم اسپتالوں میں صورتحال بھیانک ہوچکی ہے۔ خان یونس اسپتال پر اسرائیلی حملے میں کئی لوگ شہید ہوگئے، مکانات بھی ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ الشفا اسپتال کے سرجن کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ کے کئی اسپتالوں کو اسرائیلی فوج نے گھیر لیا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کا کہنا ہے کہ غزہ میں بچوں کیلئے کوئی جگہ محفوظ نہیں، اسپتالوں کے اندر کی صورتحال المیہ ہے۔ قبل ازوقت پیدائش والے بچے زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں، 32 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔ ہسپتال میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ کے الشفا ہسپتال سے اس کا منقطع ہوگیا ہے، غزہ کی پٹی میں 35 میں سے 21 سے زائد ہسپتالوں نے خدمات دینا بند کر دی ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالت جنگ میں خواتین،بچوں ،مساجد ،مدارس،ہسپتالوں کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا یہ جنگی قوانین کے خلاف ہے،یہاں یہ بھیڑیا ہر طرح کی پابندیوں کو روندتے ہو ئے مسلسل بمباری کررہا ہے اور ہسپتالوں و مساجد کو شہید کیا جا رہا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مظلوم فلسطینی شہید اور زخمی ہو رہے ہیں جن کے شہر’ دیہات’ کاروباری مراکز’ تعلیمی ادارے اور مساجد سمیت کوئی بھی پبلک مقام اور نجی عمارتیں اسرائیلی فوج کے حملوں میں محفوظ نہیں رہ سکیں۔ غزہ کی سرزمین پر جو باشندے اس وقت زخمی اور بے یارومددگار ہو کر کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، انہوں نے اپنی دھرتی کو اسرائیلی بمباری سے برباد ہوتے اور اپنے عزیزوں’ رشتہ داروں’ پیاروں کے جسموں کے چیتھڑے اڑتے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ وہ اپنے معصوم بچوں کے ادھڑے لاشے اٹھائے بے بسی کے عالم میں کسی پناہ گاہ کی تلاش میں دوڑتے ہیں تو یقیناً ان دلدوز مناظر کو دیکھ کر آسمان بھی رونے لگتا ہوگا۔ مگر سفاک انسانوں کا دل پسیجتا نظر نہیں آرہا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم فلسطینی مائوں،بہنوں،بیٹیوں،بچوں،جوانوں کی شہادت کو قبول فرمائے اور فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی غیب سے نصرت و مدد فرمائے اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اللہ ان کی بھی مدد فرمائے اور اللہ تعالیٰ اسرائیل اور اس کے حواریوں کو نیست و نابود فرمائے،آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر