... loading ...
حمیداللہ بھٹی
خوش آئند بات یہ ہے کہ دیر سے ہی سہی ملک میں عام انتخابات یقینی ہیں۔ توقعات کے برعکس چاہے عدالتی حکم پرہی سہی صدرِ مملکت عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ نے مشاورت کے دوران آٹھ فروری پر اتفاق کر لیا جس سے انتخابی حوالے سے موجود خدشات اور افواہوں کابڑی حدتک خاتمہ ہو گیا ہے اوراب سیاسی جماعتوں نے سنجیدہ ہوکر انتخابی صف بندی کا آغاز کر دیا ہے۔ ملک کی بڑی جماعتیں انتخابی اتحاد بنانے کے مرحلہ شروع کر چکی ہیں۔ مزید قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ملکی سیاست کو دوبارہ دو جماعتوں تک محدود رکھنے کے لیے پی پی اور ن لیگ نے کسی حد محاذآرائی کا تاثر دینا شروع کر دیا ہے۔ اِس میں کتنی صداقت ہے؟ وثوق سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ سیاسی نبض شناس مستقبل کا جو سیاسی منظر نامہ دیکھتے ہیں اُس کے مطابق کسی ایک جماعت کا انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا محال ہے اوروہ وفاق سمیت پنجاب میں ایک اور اتحادی حکومت کا امکان ظاہرکرتے ہیں ۔شاید اسی امکان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سیاسی قیادت انتخابی صف بندی میں مصروف ہے تاکہ نتائج کے بعد کسی جماعت کو ساتھ ملانے میں مشکل پیش نہ آئے اور نتائج مکمل ہوتے ہی حکومتیں تشکیل دینے کا مرحلہ شروع کیا جا سکے۔
ویسے تو ہمارے ملک کی سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں سیاسی رہنمابیانیہ بدلتے، ، ہمرکاب سیاستدانوںسے دوری اورمخالفین کو ساتھ ملانے پر ہمہ وقت آمادہ وتیار ہوتے ہیں دوست کو دھوکا دینا اور بدترین مخالف سے ہاتھ ملانا عام سی بات ہے جسے جس فیصلے سے سیاسی مفادکی رمق تک نظر آئے اُسے ہی قومی مفاد کہنے لگتا ہے کبھی کسی نے سوچا تھا کہ پی پی اور ن لیگ اتحاد ی حکومت تشکیل دیں گی نیز یہ کہ شریف خاندان کے فرد کو ملک کا وزیرِ اعظم بنانے کے لیے آصف زرداری جوڑتوڑسے بھی گریز نہیں کریںگے ؟لیکن ایسا نہ صرف ہوا بلکہ اقتدار کے سولہ ماہ میں دونوں جماعتیںایک رہیں اب کیونکہ دوبارہ انتخابی نقارہ بج چکا ہے لہذادونوں چاہتیں ہیں کہ مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں اِن کے علاوہ کوئی اور جماعت اہمیت حاصل نہ کرپائے بلکہ یہی دونوں اہم رہیں اِن کوششوں میں دونوں جماعتوں کو کامیابی ہوتی ہے یانہیں اِس کا نحصار آمدہ انتخابی نتائج پر ہے بظاہرطاقتور حلقوں کو پی پی سے ن لیگ زیادہ عزیز ہے اِس خیال کو ایسی کوششوں سے بھی تقویت ملتی ہے کہ شریف خاندان کے سر سے مقدمات کا بوجھ ہٹانے پر تیزی سے کام جاری ہے جس سے مستقبل میں ن لیگ اور شریف خاندان کے اہمیت حاصل کرنے میں کوئی ابہام نہیں رہا۔
نواز شریف اور عمران خان دونوں کو مقدمات کا سامنا ہے اول الذکرکو منی لانڈرنگ وغیرہ میں نااہلی اور قید کی سزائیں سنائی جا چکیں جبکہ ثانی الذکر پرکئی ایسے مقدمات ہیں جن کے جلدہی فیصلے متوقع ہیں اسی بنا پرفی الحال ملک کی دونوں مقبول جماعتوں کی قیادت کے لیے سب اچھا نہیں البتہ نواز شریف کو عمران خان پر ایک حوالے سے فوقیت حاصل ہے کہ اُنھیں انصاف دلانا اولیں ترجیح ہے ملک میں آنے سے قبل اور پیش ہوئے بغیر ضمانت مل جاتی ہے نوازشریف کی بجائے عطاتارڑاُن کی جگہ نشان انگوٹھا لگادیں تو بھی کوئی معترض نہیں ہوتانیز آمد پر نادراکی بے چینی دیکھنے کے لائق تھی جس کے اہلکار طلب کیے بغیر ہی ائرپورٹ جاکر انگلیوں کے نشانات حاصل کرنے پہنچ گئے علاوہ ازیں عدم طلبی پر نیب وکیل عدالتوں میں حاضر ہوجاتے اور اپنے اِدارے کے سربراہ سے ہدایات لیے بغیر یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں ضمانت پر کوئی اعتراض نہیںلیکن عمران خان اور شاہ محمودقریشی کے بارے ایسی کسی نرمی کاموہوم سا بھی امکان نہیں بلکہ قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی قیادت اور دیگر اہم رہنما بددستور عتاب کا شکار رہیں گے مگر جس طرح امریکہ سمیت کچھ ممالک عام انتخابات کو شفاف بنانے پر زور دے رہے ہیں ممکن ہے نظر بند ایک بزرگ شخصیت کو رہاکرنے اوراُسے پی ٹی آئی کو مقتدر حلقوں کی منشا کے مطابق چلانے جیسا کام سپرد کردیاجائے اسی بناپرمستقبل کے سیاسی منظر نامے میں پی پی اور ن لیگ کااہم ہونا حیران کُن نہیں ہوگا لیکن جس طرح مرکز اور پنجاب میں ن لیگ کے حق میں فضا سازگاربنائی جارہی ہے سندھ کی حد تک بھی ایسی کسی کوشش کے آثار نہیںبلاول بھٹوتمام جماعتوں کے لیے یکساں لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرنے اور تنگ آکر پی ٹی آئی کی طرف دستِ تعاون بڑھانے کی بات بھی کی مگر بات بنتی دکھائی نہیں دیتی طاقتور حلقوں کی ن لیگ پر مہربانیاں جاری ہیںماضی میں سیاسی جماعتوں نے جمہوری روایات کی پاسداری کرنے کی بجائے دیگر زرائع پر بھروسہ کیااور اقتدار حاصل کرنے کی مراد پائی مگر ملک سیاسی عدمِ استحکام کا شکارہوتا گیا اب جبکہ ایک بار پھر ملک میں انتخابی سرگرمیوں کا اتحاد تشکیل دینے کے عمل سے آغازہوچکاسیاسی جماعتوں سے الگ الگ سلوک اچھا نہیں اسی بناپر کہہ سکتے ہیں کہ غیر جمہوری اور غیر سیاسی روایات نہ چھوڑنے سے مستقبل میں سیاسی استحکام کی منزل حاصل ہونا محال ہے۔
انتخابی صف بندی میں سیاسی جماعتوں کی اولیں ترجیح بظاہر ن لیگ ہے خالد مقبول صدیقی ،فاروق ستار اور مصطفٰے کمال پر مشتمل ایم کیو ایم کے وفد کا نوازشریف اور شہباز شریف سے مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرنے پر تبادلہ خیال کرنا اور انتخابی اتحاد کا اعلان کرنا اِس خیال کو تقویت دیتا ہے اسی طرح تحریکِ لبیک پہلے ہی ن لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے علاوہ ازیں سندھ میں جی ڈی اے ،بلوچستان اور کے پی کے میں جمعیت علمائے اسلام ف ،قوم پرست جماعتوں سمیت عوامی نیشنل پارٹی سے اتحاد بھی خارج ازا مکان رَد نہیں باپ پارٹی کارجحان بھی اسی طرف ہے بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے کئی جیتنے کی پوزیشن میں چہروں کی شمولیت کے باوجود پی پی سے سیاسی جماعتیں اتحاد بنانے میں محتاط ہیں اسی بناپر کہہ سکتے ہیں سولہ ماہ کے اقتدار کے باوجود دونوں جماعتوں میں اب سب اچھا نہیں بلکہ خرابی جنم لے چکی ہے سندھ میں پی پی مخالف جماعتوں سے ن لیگ کے اتحاد پر آصف زرداری اور بلاول سخت خفگی ظاہر کرچکے جماعت اسلامی سختیوں کی شکار پی ٹی آئی پرتوجہ دے کر کراچی کے بلدیاتی انتخابات کاپی پی سے بدلہ لینا چاہتی ہے جاری انتخابی سرگرمیوں کے تناظر میں کہہ سکتے ہیں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود سندھ سے پی پی کی شکست کاخواب پوراہونا فی الحال مشکل ہے۔
انتخابی اتحاد تشکیل دیتے ہوئے کسی سیاسی جماعت کی نظردرپیش قومی مسائل پر ہے؟ بظاہر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ کسی سیاسی جماعت نے اِس حوالے سے قابلِ عمل اور کسی حد تک کوئی نتیجہ خیز حکمت ِ عملی مرتب کی ہے بلکہ سبھی جماعتوں کی نظر قومی مسائل حل کرنے سے زیادہ انتخابی فتح پرمرکوز لگتی ہے مزید ستم ظریفی یہ کہ انتخابی اتحاد تشکیل دینے کاکام تو زورو شور سے جاری ہے لیکن منشور مرتب کرنے سے کوتاہی کی مرتکب ہیں ن لیگ منشور کمیٹی بنانے تک محدود ہے یہ سیاسی جماعتوں کی ملکی مسائل حل کرنے میں سنجیدگی ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ توانائی کے بحران نے کاروباری ،صنعتی اور زرعی معاملات کو شدید متاثر کیا ہے۔ گیس بحران الگ سے شدت اختیار کرنے لگا ہے لیکن مہنگی بجلی اور گیس کے نرخ کیسے کم کرناہیں ؟ کسی جماعت کے پاس کوئی حل نہیں ۔مہنگائی جیسے مسائل سے ہرخاص و عام دوچار ہے ،لگتاہے قومی قیادت کے لیے یہ بھی مسئلہ اہم نہیں۔ قرضوں کے بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے بھی مجرمانہ حدتک سنجیدگی کافقدان ہے۔ حالانکہ مقروض پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود عالمی سطح پر غیر اہم ہوتاجارہاہے ۔ہمارا بجٹ عوامی مسائل نہیںآئی ایم ایف کی ہدایات مد ِنظر رکھ کر بنایاجانے لگاہے لیکن کسی سیاستدان کو اِن مسائل کا احساس تک نہیں۔ اگر ہوتا تو کوئی حل تجویز کیا جاتا اسی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی صف بندی سے ممکن ہے ۔آئندہ سیاسی منظر نامے میں اہم حیثیت حاصل کرلیں اور اقتدار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں لیکن ملک و قوم کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کاکام بدستور ادھوراہی رہے گا۔
٭٭٭