... loading ...
ریاض احمدچودھری
برصغیر میں حضرت علامہ اقبال پہلے شاعر تھے جو جدید مشرقی اور مغربی علوم پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ وہ نوآبادیاتی نفسیات اور سامراج کی چالوں سے خوب آگاہ تھے۔ اس لیے ان کی شاعری اور نثر میں نو آبادیاتی سوچ کے بارے میں منطقی اور سائنسی اظہار خیال ملتا ہے۔ اقبال اپنے ایک خط میں قائد اعظم محمد جناح کو لکھتے ہیں: ”میں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کے لیے تیار ہوں اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ اسلام کے لیے بہت عظیم ہے۔یہ ایشیا کا دروازہ ہے جس پر بْری نیت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں”۔
تقسیم فلسطین کی تجویز کے دنوں میں علامہ اقبال کی صحت خاصی بگڑ چکی تھی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام تھے لیکن اس کے باوجود وہ اس کے تصور سے مسلسل بے چین اور افسردہ رہے۔ اقبال نے اس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کر دی تھیں جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔
علامہ اقبال30 جولائی1937ء کو فارکو ہرسن کے نام اپنے خط میں فلسطینی عوام کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں:عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں جسے مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا۔ انگریز قوم کو بیدار کر کے اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے ہیں”۔حضرت علامہ کے خیال میں فلسطینی عوام کے حقوق غصب کرنے میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ مجلس اقوامِ عالم (لیگ آف نیشنز) اور عرب ملوکیت بھی برابر کی شریک ہے۔علامہ اقبال نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
آج اسرائیل میں فلسطینی مسلمانوں کی آبادی غزہ لہو لہو ہے خون مسلم کی ارزانی ہے۔ اعلان ”بالفور” کے نتیجے میں مغرب کی سازش کے تحت 1948ء میں بننے والی ریاست ”اسرائیل” کے قیام پر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:
خاک فلسطیں پہ یہودی کا ہے اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
علامہ اقبال نے اسرائیل کے قیام سے آیندہ عالم اسلام کو درپیش خطرات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری سال اپنے خدشات و جذبات کے اظہار کے لیے ایک طویل تاریخی بیان دیاجس میں علامہ نے اسرائیل کے قیام میں انگریز کی سازشوں اور فلسطین کی سرزمین کا تاریخی پس منظر بیان کیا اور مسئلہ فلسطین کو اسلامی ممالک کی حمیت و غیرت کا امتحان قرار دیا علامہ کا یہ بیان آج کے حالات میں عالم اسلام کے لیے بیداری کا سبق دیتا ہے۔
علامہ اقبال کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ کے سوا’عالم اسلام کے تمام خطوں پرغاصب استعماری مسلط تھے۔20ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں ہندوستان میں خلافت کی بقا اوربحالی کے لئے جو تحریک شروع ہوئی ،اقبال اس کے پوری طرح مدیّد تھے۔یہی زمانہ تھا جب یہودی سرزمین فلسطین میں اپنے قدم جمارہے تھے مگرمجموعی حیثیت سے ‘مسئلہ فلسطین ‘ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔
اسی زمانے میں مقاماتِ مقدسہ کے متعلق تنازعات کے حل کے لئے ایک رائل کمیشن کے قیام کی تجویز انگریزوں کے زیر غور تھی۔ایک مسلمان ممبرکے طور پرعلامہ اقبال کوکمیشن کا ممبر بننے کی پیش کش کی گئی مگرانہوں نے بوجوہ معذرت کرلی۔مسلمانان لاہور نے 7ستمبر 1929 کوانگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں کے خلاف بطوراحتجاج ایک جلسہ منعقد کیا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔اسی زمانے میں یروشلم میں فلسطینیوں کے قتل وغارت کے الم ناک واقعات رونما ہوئے تھے۔آپ نے اپنے صدارتی خطبے میں یہودیوں کی ”ہولناک سفاکی ”کی مذمت کی۔علامہ نے یہودیوں کویاددلایا کہ ہیکل سلیمانی کے محل وقوع کی دریافت حضرت عمر نے کی تھی اور یہ ان پرحضرت عمر کا احسان ہے۔پھر یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوںنے بقول اقبال:یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کونہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں اعلیٰ مناصب پرفائز کیا۔”یہ کیسی احسان فراموشی ہے کہ بالفاظ اقبال:”فلسطین میں مسلمان’ان کی عورتیں اوربچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے جارہے ہیں۔
سفرانگلستان(1931) کے دوران میں’جہاںبھی موقع ملا،علامہ اقبال نے فلسطین کے بارے میں کلمہ خیر کہنے سے گریز نہیںکیا ‘مثلاً:ایک موقع پرانگریزوں کواہل فلسطین کے ساتھ انصاف کی تلقین کی’اورفرمایا کہ اعلان بالفور بالکل منسوخ کردینا چاہیے۔علامہ اقبال پرمسئلہ فلسطین کی نزاکت اوراہمیت اس وقت اور زیادہ واضح ہوئی جب انہوں نے بذات خود فلسطین کاسفرکیا۔دسمبر1931ء میں فلسطین کے نوروزہ سفرکااصل مقصد مؤتمر عالم اسلامی (اسلامی کانفرنس) میں شرکت تھی۔کانفرنس کے داعی سیدامین الحسینی تھے۔اس میں تقریباً 27ملکوں اورعلاقوں کے مندوبین شامل تھے جن میں ارباب علم وفضل بھی تھے اورسیاسی اورملی راہنما بھی۔اسی طرح متعدد واجب الاحترام بزرگ شخصیات اورمجاہدین آزادی اور اپنے اپنے ملکوں کی سیاست میں سرگرم ممبران پارلیمنٹ بھی۔گویا قبلہ اول کے شہر میں عالم اسلام کی منتخب شخصیتیں جمع تھیں۔یوں تو اس کانفرنس کے کئی مقاصدتھے لیکن سب سے اہم مقصدیہ تھا کہ مسلمانوںکو فلسطین پریہودیوں کے ناجائز قبضے کے سنگین مسئلے کااحساس دلایا جائے اور صہیونی خطرے کے خلاف اتحاد عالم اسلام کی تدابیر پرغور کیا جائے۔کانفرنس کے دنوںمیں علامہ اقبال اوران کے ہمراہ غلام رسول مہر کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شریک رہے۔ کانفرنس کی نشست میں اقبال نے ایک موثرتقریرکی ‘جس میں عالم اسلام کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو الحادمادی اور وطنی قومیت سے خطرہ ہے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں۔ مجھے اسلام کے دشمنوں سے اندیشہ نہیں ہے ‘لیکن خود مسلمانوں سے مجھے اندیشہ ہے۔سفرفلسطین سے واپس آنے کے بعد بھی اقبال وائسرائے ہند اوربرطانوی اکابر کو برابر احساس دلاتے رہے کہ برطانیہ کی فلسطین پالیسی صریحاً مسلم مخالفانہ ہے۔اقبال نے اپنا یہ مطالبہ بھی برابر جاری رکھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ روکا جائے اوراعلان بالفور واپس لیا جائے۔