... loading ...
ماجرا/محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(گزشتہ سے پیوستہ)
مولانا روم جاچکے تھے،میں علامہ اقبال کے سامنے زانوئے ادب تہ کیے بیٹھا تھا۔ اُن کے گرد نور کا ایک ہالا تھا۔ جو ابدیت کی تراشی ہوئی تہ دار گہرائی کو سنبھالے ہوئے تھا۔ اُن کی آنکھیں اُسی رفعت کا پتہ دیتی تھی، جو پھولوں کی مائل بہ بلندی میں مشاہدۂ نور کی تابانی کا نشاں ہوتی ہے اورجسے اپنے سائے کی پروا نہیں ہوتی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ علامہ ایک ستارہ ہے جو نیلگوں خیمے سے سبزہ ٔبساط پر اُتارے گئے اور واپس اُسی خیمہ افلاک میںبُلا لیے گئے۔ اقبال کا وجود زندگی کے عناصر سے بلند اور آفاقی عناصر کی ترتیب میں بھی بزرگ و برتر محسوس ہوتا تھا۔ اقبال ایک ایسے لمحے میں ٹہرے ہوئے لگ رہے تھے، جس میں دن کو رات اور رات کو دن سے ملانے کی کوئی مجبوری نہ تھی۔ گویا وقت کی رفتار اپنی لامتناہیت میں بے شمار ہو جاتی ہے۔ یہاں روح ایک ایسا سمندر ہے جس کے اندر سمندروں کے سمندر بھی سما جائیں تو کوئی موج دوسری موج سے باہم دست وگریبا ں نہیں ہوتی ۔ جس کے بلبلے ہوا سے تحلیل نہیں ہوتے۔ جس کے جوار بھاٹے شور نہیں کرتے اور زندگی سے ہم آغوش رہتے ہیں اورجہاں نفس گردو غبار کے کہرے میں نہیں ہوتا۔
میں علامہ اقبال کے ”دیدارِ شوق” میں حیرتوں کی حیرت میں تھا۔علامہ کے سوال کو سن نہ سکا۔اُنہوں نے مجھے جھنجھوڑا: وطنِ عزیز کا کیا حال ہے؟ میں اچانک جیسے بیدا رہو گیا: حضرت وہ ایسے ہی جھنجھوڑے جانے کی حالت میں ہے۔ زندگی ماند پڑگئی ۔ خواب غفلت طویل تر ہو گیا ۔ حرکت ِ حیات ہی ناپید ہے۔ہمارا خدا بھی بدل گیا ہے، وہ اب امریکا ہے۔ آپ کا فلسفۂ طاقت بھولا بسرا موضوع ہے اوراب آپ کے کلام کا بھی کوئی اثر نہیں۔ ہاں یہ کچھ لوگوں کے لیے روزی روٹی ضرور ہے۔
علامہ سر ہلاتے ہیں۔ ایک ملکوتی سکوت اُن پر طاری ہو جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس خموشی میں جیسے برسوں بیت گئے ہیں۔ میں علامہ سے پوچھتا ہوں:ہم کیا کریں؟
علامہ نے کہا: کیا سبق بھول گئے کہ
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے ، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
میں نے پوچھا : یہ کون سی دنیا ہے، جسے ہم پیدا کر سکتے ہیں؟
مجھے لگا کہ جیسے علامہ کہہ رہے ہوں، تم اپنی دنیا میں نہیں جیتے۔ یہ تمہاری دنیا نہیں، تمہارا اپنا کوئی ”ورلڈ ویو” نہیں۔ جب تم دوسروں کی دنیا میںرہو گے تو تمہارے ارادے اُن کے تابع ہوں گے اور تم رفتہ رفتہ اپنا اختیا ر کھو دوگے، جیسا کہ تم اپنے ہی ملک میں اپنے ارادے کو بروئے کار لانے اور اپنے اختیار کو بھی برتنے کی ہمت کھوتے جارہے ہو۔ یاد رکھو ! یہ کائنات اپنی تخلیقی اسکیم میں زیر تعمیر رکھی گئی ہے۔ اس کی تعمیر میں ارادے کی قوت کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ جب یہ تم اپنے اندر پیدا کرو گے تو پھر تم اپنی کائنات کی آپ صدائے کن فیکوں بن جاؤ گے۔تمہیں یاد نہیں، میں نے کیاکہا تھا:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
علامہ فرما رہے تھے: خودی ، خود سے خود کو اور اپنے گرد وپیش کو تعمیر کرنے میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ کوشش ہی تمہیں وہ قوت تسخیر دیتی ہے جس سے زندگی ظاہر ہوتی ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر انسان ایک زندہ وجود ہو کر بھی محض پیکرِ خاکی ہے۔ انسان کو پیکر ِ خاکی سے بلند کرنے والی شے کو پہچانو!
علامہ نے ایک توقف کیا ، پھر کہا: تم تہذیب ِ مغرب میں گردن گردن ڈوب گئے، تمہارا حال اُن کے رحم وکرم پر ہے۔ تم اُن کے تیروں کا ترکش بن گئے۔ اس لیے تم اپنے وجود سے خالی ہو گئے۔ میں نے تمہیں پہلے سے خبردار کیا تھا:
ترا وجود سراپا تجلّیِ افرنگ
کہ تُو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکرِ خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تُو، زرنگار و بے شمشیر!
علامہ کچھ دیر خاموش ہوئے تو میںنے فوراً سوال کیا:مگر علامہ ہم اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں بے بس ہیں، وہ ہمارے اندر کے امکانات کو اُبھرنے نہیں دیتے۔ہم ذرا کوئی سوال کریں تو لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ آخر ہم کیا کریں؟
علامہ نے سر کو جنبش دی، جیسے وہ اس مسئلے کی تمام تہہ داریوں سے آگاہ ہو۔ کچھ توقف کے بعد کہا : تم اس وقت دو مسئلوں سے گزر رہے ہو۔ ایک طاقت کے مرکز کی شناخت اور دوسرا اپنے لوگوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا۔ یہ مسئلے میں پہلے ہی واضح کر چکا ہوں۔ طاقت اپنی پیدا کرو۔میں نے سمجھایا تھا:تواضع بغیر طاقت کے خوئے گداگری ہے۔ جب طاقت دوسروں کی ہوگی تو تمہارے اصلی دشمن دوسروں کی طاقت سے زیر نہ کیے جاسکیں گے۔ تم اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے جن کی طاقت ہوگی اُن کی مرضی کے استعمال کے تابع رہو گے۔ میں نے اسی لیے کہا تھا کہ تم مغرب کی ایک بے شمشیر نیام ہو۔ ایسی طاقت دشمن کے خلاف استعمال نہیں ہوتی مگر یہ طاقت تمہارے جن کھوکھلے ہاتھوں میںہوگی وہ اس کو خود تمہارے اوپر استعمال کریں گے۔ کیونکہ یہ طاقت کی مجبوری ہے کہ وہ استعمال کرنے کی ضد میں رہتی ہے۔ تمہارے طاقت کے جعلی مراکز اصل حریفوں کو زیر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ،ا سی لیے تمہیں اپنے اصل حریفوں سے دور کرکے باہم حریف بنا کر ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ مغرب کی تحویل میں رہنے والی طاقت کی جعلی اور کھوکھلی تشہیر ہے جو تمہیں ہی ڈرانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کلیمی تمہاری ہے مگر عصا تمہار ا نہیں۔اپنا عصا خود تخلیق کرو۔یاد رکھو!
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
علامہ دم بھر کے لیے رُکے پھر دوسرے مسئلے کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ تمہارا گردو پیش تمہارا اپنا تخلیق کردہ نہیں ہے۔ اس لیے تمہارے اندر حریفوں اور حلیفوں کا شعور بھی فطری نہیںرہا۔ جس کے باعث تمہارے سماج میں تعلقات کی تشریح بھی لایعنیت کی شکار ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں رحم دل بنایا گیا اور کفار پر سخت رکھا گیا ہے۔ عالم کے پروردگار کی آخری کتاب ہدایت کی سورہ فتح کی آیت 29 غور سے پڑھو! کیا فرمایا گیا:محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں”۔ یہی وہ آیت تھی جسے میں نے تمہیں سمجھایا تھا
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
مگر تمہارے ہاں یہ ترتیب الٹ گئی ۔ تم اپنے اصل حریفوں کے لیے رحم دل بن گئے اور آپس میں ایک دوسرے پر انتہائی سخت ہو گئے۔ یہ کمزور لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے جو تمہاری طاقت کے جعلی مراکز نے شعار کیا ہے جن کا بس تمہارے کمزوروں پر چلتا ہے، اپنے حریفوں پر نہیں۔ چنانچہ وہ اس کمزوری کو حریفوں اور حلیفوں کی تشریح بدل بدل کر چھپاتے ہیں۔علامہ خاموش ہو گئے۔ اُن کے ارد گرد کا ماحول یک بیک بدلنے لگا۔ ایک ایسی بانگ ِدراسنائی دینے لگی جو آفاقی قافلوں کو رواں دواں رکھنے کی گونج رکھتی تھی۔ یوں لگا کہ منظر بدلنے والے ہیں۔ لوگ جانے والے ہیں۔ علامہ بھی اُٹھنے لگے۔ اُن کے گرد کچھ لوگ جمع ہونے لگے۔ اُدھر اچانک شمش تبریز کے ساتھ مولانا روم بھی نمودار ہوئے۔ یہ سب اکٹھے ہوگئے۔ اور ایک سمت چلنے لگے۔ چلتے چلتے علامہ نے میری طرف ایک نگاہ کی تو مجھے یوں لگا کہ وہ کہہ رہے ہو میں تابہ ابد زندوں کی طرف سے تم مردوں کی خدمت میں آخری پیش کش ہوں۔ میرے کلام پر دھیان دو۔
اچانک یہ بَہْجَت افزا روحانی منظر غائب ہو گیا ۔ میری آنکھ کھل گئی اور میںخواب سے بیدار ہو گیا۔ معلوم نہیں میںخواب سے بیدا ہوا ہوں یا ایک دوسرے خوابِ غفلت میں چلا گیا ہوں کیونکہ میں اپنے بت کدۂ اوہام کی ویرانیوں میں واپس آگیا تھا۔
٭٭٭