... loading ...
ریاض احمدچودھری
ممتاز دانشور، محقق جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری یہودیوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ، حضرت محمدۖ سے پانچ سو اکتہر برس قبل تھے ۔ ان سے ساڑھے بارہ سو سال قبل حضرت موسیٰ تھے۔ حضرت موسیٰ سے ساڑھے بارہ سو سال پہلے حضرت ابراہیم تھے۔ گویا حضرت عیسیٰ اور حضرت ابراہیم کے درمیان ستائیس سو سال کا فرق ہے۔ ان کے بیٹے حضرت یعقوب تھے اور حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے تھے۔ ایک بیٹی تھی۔ گیارہویں نمبر پر ان کے بیٹے حضرت یوسف تھے اور تیرھویں نمبر پر ان کی بیٹے بنیامین تھے اور بارھویں نمبر پر ان کی بیٹی تھی۔حضرت کے ایک بیٹے کا لقب اسرائیل تھا جن کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب کے ایک بیٹے کا نام یہودا بھی تھا اور ان کی اولاد یہودی کہلائے۔ قرآن پاک میں ذکر ہے کہ فرعون کے جہنم واصل ہونے کے بعد حضرت موسیٰ اپنی قوم کو لے کر فلسطین کی جانب چلے گئے۔ اس وقت یہودی قوم پر من و سلویٰ کھانا اللہ کی طرف سے آسمان سے اترتا تھا۔یہودی قوم نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ہم ایک ہی کھانے پر نہیں رہ سکتے۔ ہمارے لئے اللہ زمین پر گندم، پیاز ، لہسن دالیں اگائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ایک کمتر چیز لے کر ایک بہتر چیز کا انکار کر رہے ہو۔ تو ان یہودیوں پر اللہ کی طرف سے ایک لعنت اور پھٹکار مسلط کر دی گئی۔ اسی وجہ سے تاریخ میں تین مرتبہ یہودیوں پر سخت وقت آیا۔ جہاں جہاں بھی یہودی ملا اسے قتل کر دیا گیا۔ اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کی وجہ سے تھوڑے عرصے کے بعد پھر یہ انسانیت کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں اور پھر ان کا اجتماعی قتل ہوتا ہے۔ جیسے 1945ء میں ہٹلر نے30 لاکھ کے قریب یہودیوں کا قتل عام کیا۔
جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیم کا بیٹا یعقوب اور ان کے بیٹے داؤد اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان تھے۔ حضرت داؤد نے اعراق سے فلسطین کی طرف ہجرت کی اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان نے ایک بہت بڑا ہیکل بنایا اور بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کی دعا پر یہودیوں کیلئے میٹھے پانی کے بارہ چشمے پیدا کئے جو یہودیوں کے بارہ قبائل میں تقسیم کر دیئے گئے۔
مصریوں نے 718 ق م میں یہودیوں پر حملہ کیااور ان بارہ قبائل میں سے دس قبائل کے ایک ایک یہودی کو چن چن کر قتل کر دیا۔ یہ یہودیوں کا پہلا قتل عام تھا۔ باقی بچے یہودیوں نے کچھ عرصہ بعدپھر سے سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع کر دیں تو اعراق کے بادشاہ بخت نصر نے 586ق م میں اسرائیل پر چڑھائی کی اور ستر ہزار یہودیوں کوقتل اور ایک لاکھ کو اپنے ساتھ قیدی بنا کر لے آیا۔ اس کے علاوہ پہلی بار ہیکل سلیمانی بھی بخت نصر نے توڑ دیا۔اس کے بعد ایک جرمن جرنیل نے164ق م میں اسرائیل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ دوسری مرتبہ ہیکل سلیمانی کو رومن بادشاہ نے 70ق م کو برباد کیا۔
یہودی ہمیشہ سے یہ چاہتے تھے کہ جہاں ہمارے آباو اجداد آئے وہاں ہم اپنی ایک ریاست بنالیں۔ان کی یہ خواہش پہلی جنگ عظیم کے بعد پوری ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ بکھر گئی اور برطانیہ نے فلسطین کے انتظامی امور پر قبضہ کرنے کے لیے لیگ آف نیشنز سے منظوری حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے اور اس کے دوران انگریزوں نے عربوں اور یہودیوں سے بہت سے وعدے کیے تھے لیکن وہ ان میں سے ایک چھوٹا سا حصہ بھی پورا نہ کر سکے۔ برطانیہ پہلے ہی فرانس کے ساتھ مشرق وسطیٰ کو تقسیم کر چکا تھا۔ جس کی وجہ سے عربوں اور یہودیوں کے درمیان کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو گئی ۔برطانوی سامراج کے صہیونیت نواز وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ کے صہیونی لیڈر لارڈ روتھس چائلڈ(Lord Rothschild) کو ایک خط لکھا تھا۔ اس نے یقین دلایا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی گھر (نیشنل ہوم) کے قیام کی حمایت کرتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے برطانیہ بھرپور کوشش کرے گا۔ اسی خط کو ”بالفور اعلامیہ ” کہا جاتا ہے۔
بالفور اعلامیہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہودی اسی اعلامیے کو اسرائیل کے قیام کی بنیاد بتاتے ہیں۔ حالانکہ اس اعلامیے میں صاف لکھا گیا تھا کہ ایسا کوئی کام نہیں کیا جائے گا جس سے فلسطین کی غیر یہودی آبادی کے شہری اور مذہبی حقوق پامال ہوں۔ اس میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا جائے گا جس سے دیگر ملکوں میں آباد یہودیوں کے حقوق اور سیاسی حیثیت متاثر ہوں۔اسرائیل ، فلسطین تنازع کی ابتداء بیسویں صدی کے آغاز میں ہوئی جب یورپ میں یہودیوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ان حالات میں یہودیوں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیان واقع فلسطین کا علاقہ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے مقدس سمجھا جاتا تھا۔ یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر کنٹرول تھا اور اس پر زیادہ تر عربوں اور دیگر مسلم کمیونٹیز کا قبضہ تھا۔یہودیوں کا خیال ہے کہ آج جہاں اسرائیل واقع ہے وہ وہی علاقہ ہے جس کا وعدہ خدا نے ان کے پہلے آباو اجداد ابراہیم اور ان کی اولاد سے کیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس علاقے پر بابلیوں، فارس، مقدونیہ اور رومیوں نے حملہ کیا۔ اس علاقے کو رومی سلطنت کے دور میں فلسطین کا نام دیا گیا اور مسیح کے سات دہائیوں بعد اس علاقے سے یہودیوں کو بے دخل کر دیا گیا۔ اسلام کے عروج کے ساتھ، فلسطین ساتویں صدی میں عربوں کے قبضے میں آیا اور پھر یورپی حملہ آوروں نے اسے فتح کر لیا۔ سال 1516 ء میں یہ ترکی کے کنٹرول میں آیا اور پھر پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے کنٹرول میں آنے تک یہ جمود برقرار رہا۔اس وقت اسرائیل کی آبادی80 لاکھ ہے جس میں سے 60-65 لاکھ یہودی ہیں اور اتنے ہی یہودی دنیا کے دوسرے حصوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایک یہودی عورت اپنی زندگی میں سات سے آٹھ بچوں کو جنم دیتی ہے۔ وہ یہ سب کچھ مسلمانوں کے خلاف اپنی عددی برتری بنانے کیلئے کرتی ہے۔ یورپ میں ایک یہودی عورت دعویٰ کرتی ہے کہ میںنے بارہ مرد بچوں کو جنم دیا ہے جو بڑے ہو کر اسرائیل کی سرحدوں کی حفاظت کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔