وجود

... loading ...

وجود

فلسطین میں اسرائیل کا قیام، خوف ناک غلطی

منگل 07 نومبر 2023 فلسطین میں اسرائیل کا قیام، خوف ناک غلطی

ریاض احمدچودھری

ممتاز دانشور، محقق جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری یہودیوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ، حضرت محمدۖ سے پانچ سو اکتہر برس قبل تھے ۔ ان سے ساڑھے بارہ سو سال قبل حضرت موسیٰ تھے۔ حضرت موسیٰ سے ساڑھے بارہ سو سال پہلے حضرت ابراہیم تھے۔ گویا حضرت عیسیٰ اور حضرت ابراہیم کے درمیان ستائیس سو سال کا فرق ہے۔ ان کے بیٹے حضرت یعقوب تھے اور حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے تھے۔ ایک بیٹی تھی۔ گیارہویں نمبر پر ان کے بیٹے حضرت یوسف تھے اور تیرھویں نمبر پر ان کی بیٹے بنیامین تھے اور بارھویں نمبر پر ان کی بیٹی تھی۔حضرت کے ایک بیٹے کا لقب اسرائیل تھا جن کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب کے ایک بیٹے کا نام یہودا بھی تھا اور ان کی اولاد یہودی کہلائے۔ قرآن پاک میں ذکر ہے کہ فرعون کے جہنم واصل ہونے کے بعد حضرت موسیٰ اپنی قوم کو لے کر فلسطین کی جانب چلے گئے۔ اس وقت یہودی قوم پر من و سلویٰ کھانا اللہ کی طرف سے آسمان سے اترتا تھا۔یہودی قوم نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ہم ایک ہی کھانے پر نہیں رہ سکتے۔ ہمارے لئے اللہ زمین پر گندم، پیاز ، لہسن دالیں اگائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ایک کمتر چیز لے کر ایک بہتر چیز کا انکار کر رہے ہو۔ تو ان یہودیوں پر اللہ کی طرف سے ایک لعنت اور پھٹکار مسلط کر دی گئی۔ اسی وجہ سے تاریخ میں تین مرتبہ یہودیوں پر سخت وقت آیا۔ جہاں جہاں بھی یہودی ملا اسے قتل کر دیا گیا۔ اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کی وجہ سے تھوڑے عرصے کے بعد پھر یہ انسانیت کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں اور پھر ان کا اجتماعی قتل ہوتا ہے۔ جیسے 1945ء میں ہٹلر نے30 لاکھ کے قریب یہودیوں کا قتل عام کیا۔
جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیم کا بیٹا یعقوب اور ان کے بیٹے داؤد اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان تھے۔ حضرت داؤد نے اعراق سے فلسطین کی طرف ہجرت کی اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان نے ایک بہت بڑا ہیکل بنایا اور بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کی دعا پر یہودیوں کیلئے میٹھے پانی کے بارہ چشمے پیدا کئے جو یہودیوں کے بارہ قبائل میں تقسیم کر دیئے گئے۔
مصریوں نے 718 ق م میں یہودیوں پر حملہ کیااور ان بارہ قبائل میں سے دس قبائل کے ایک ایک یہودی کو چن چن کر قتل کر دیا۔ یہ یہودیوں کا پہلا قتل عام تھا۔ باقی بچے یہودیوں نے کچھ عرصہ بعدپھر سے سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع کر دیں تو اعراق کے بادشاہ بخت نصر نے 586ق م میں اسرائیل پر چڑھائی کی اور ستر ہزار یہودیوں کوقتل اور ایک لاکھ کو اپنے ساتھ قیدی بنا کر لے آیا۔ اس کے علاوہ پہلی بار ہیکل سلیمانی بھی بخت نصر نے توڑ دیا۔اس کے بعد ایک جرمن جرنیل نے164ق م میں اسرائیل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ دوسری مرتبہ ہیکل سلیمانی کو رومن بادشاہ نے 70ق م کو برباد کیا۔
یہودی ہمیشہ سے یہ چاہتے تھے کہ جہاں ہمارے آباو اجداد آئے وہاں ہم اپنی ایک ریاست بنالیں۔ان کی یہ خواہش پہلی جنگ عظیم کے بعد پوری ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ بکھر گئی اور برطانیہ نے فلسطین کے انتظامی امور پر قبضہ کرنے کے لیے لیگ آف نیشنز سے منظوری حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے اور اس کے دوران انگریزوں نے عربوں اور یہودیوں سے بہت سے وعدے کیے تھے لیکن وہ ان میں سے ایک چھوٹا سا حصہ بھی پورا نہ کر سکے۔ برطانیہ پہلے ہی فرانس کے ساتھ مشرق وسطیٰ کو تقسیم کر چکا تھا۔ جس کی وجہ سے عربوں اور یہودیوں کے درمیان کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو گئی ۔برطانوی سامراج کے صہیونیت نواز وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ کے صہیونی لیڈر لارڈ روتھس چائلڈ(Lord Rothschild) کو ایک خط لکھا تھا۔ اس نے یقین دلایا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی گھر (نیشنل ہوم) کے قیام کی حمایت کرتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے برطانیہ بھرپور کوشش کرے گا۔ اسی خط کو ”بالفور اعلامیہ ” کہا جاتا ہے۔
بالفور اعلامیہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہودی اسی اعلامیے کو اسرائیل کے قیام کی بنیاد بتاتے ہیں۔ حالانکہ اس اعلامیے میں صاف لکھا گیا تھا کہ ایسا کوئی کام نہیں کیا جائے گا جس سے فلسطین کی غیر یہودی آبادی کے شہری اور مذہبی حقوق پامال ہوں۔ اس میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا جائے گا جس سے دیگر ملکوں میں آباد یہودیوں کے حقوق اور سیاسی حیثیت متاثر ہوں۔اسرائیل ، فلسطین تنازع کی ابتداء بیسویں صدی کے آغاز میں ہوئی جب یورپ میں یہودیوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ان حالات میں یہودیوں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیان واقع فلسطین کا علاقہ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے مقدس سمجھا جاتا تھا۔ یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر کنٹرول تھا اور اس پر زیادہ تر عربوں اور دیگر مسلم کمیونٹیز کا قبضہ تھا۔یہودیوں کا خیال ہے کہ آج جہاں اسرائیل واقع ہے وہ وہی علاقہ ہے جس کا وعدہ خدا نے ان کے پہلے آباو اجداد ابراہیم اور ان کی اولاد سے کیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس علاقے پر بابلیوں، فارس، مقدونیہ اور رومیوں نے حملہ کیا۔ اس علاقے کو رومی سلطنت کے دور میں فلسطین کا نام دیا گیا اور مسیح کے سات دہائیوں بعد اس علاقے سے یہودیوں کو بے دخل کر دیا گیا۔ اسلام کے عروج کے ساتھ، فلسطین ساتویں صدی میں عربوں کے قبضے میں آیا اور پھر یورپی حملہ آوروں نے اسے فتح کر لیا۔ سال 1516 ء میں یہ ترکی کے کنٹرول میں آیا اور پھر پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے کنٹرول میں آنے تک یہ جمود برقرار رہا۔اس وقت اسرائیل کی آبادی80 لاکھ ہے جس میں سے 60-65 لاکھ یہودی ہیں اور اتنے ہی یہودی دنیا کے دوسرے حصوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایک یہودی عورت اپنی زندگی میں سات سے آٹھ بچوں کو جنم دیتی ہے۔ وہ یہ سب کچھ مسلمانوں کے خلاف اپنی عددی برتری بنانے کیلئے کرتی ہے۔ یورپ میں ایک یہودی عورت دعویٰ کرتی ہے کہ میںنے بارہ مرد بچوں کو جنم دیا ہے جو بڑے ہو کر اسرائیل کی سرحدوں کی حفاظت کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر