... loading ...
عماد بزدار
ہندو دشمنی، منفی سیاستدان اور رجعت پسندی جیسے الزامات سے اشتیاق صاحب کا جی نہیں بھرا کہ جناح صاحب کا قد گھٹانے کے لئے
اس نے انہیں مالی مفادات کا اسیر و حریص اور گیمبلر ثابت کرنے کی بھی کوشش کی۔ پرویز ہود بائی مکمل فرمانبرداری کے ساتھ کہیں کوئی ٹکڑا ملا کر کہیں سر ہلا ہلا کر تائید کرتے جارہے تھے ۔کہتے ہیں ”جناح صاحب کی انویسٹمنٹس ، وہی تو ہے،
. he was a gambler instinctively۔انڈیا پارٹیشن ہوجائے اور پاکستان بن جائے توموجیں ہی موجیں اگر نہ ہو I still have a foothold in Indian economy for me that makes a lot of sense بلکہ ایک چیز آپ بھول گئے ہیں،اس پر ہودبائی لقمہ دیتے ہیں hedge your betsپروفیسر صاحب جواب میں جی جی کہہ کر اتفاق کرتے ہیں،اتنے بڑے لیڈر جس کے بارے میں ا سٹینلے والپرٹ لکھتے ہیں کہ ”تاریخ میں چند ایسے افراد ہوتے ہیں جو اس کا دھارا متعین کرپاتے ہیں، محض چند افراد ہی ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ تبدیل کردیتے ہیں اور بمشکل کوئی ایک کسی قومی ریاست کی بنیاد رکھتاہے جبکہ محمد علی جناح نے یہ تینوں کار ہائے نمایاں ایک ساتھ کردکھائے ”۔اس انسان کی اتنی بڑی جدوجہد کی اس سے بڑی توہین کیا ہوسکتی کہ بتایا
جائے پاکستان بننے کے بعد اس کی موجیں ہی موجیں ہونگی نہیں تو انڈیا میں ائیر انڈیا کے شیئرز یا کشمیر میں خریدے گئے باغات سے اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کررہے تھے ۔ ایک سیلف میڈ انسان جس کا شمار، اپنی مسلسل محنت کی وجہ سے ، ہندوستان کے چوٹی کے 10 سرمایہ کاروں میں ہونے لگا تھا ،اس پر گیمبلنگ کا الزام ایک سنگین مذاق سے کم نہیں۔ ایسے الزامات کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ جناح لاپرواہ تھے ان کے فیصلوں کے پیچھے کوئی منطق نہیں ہوتی تھی اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آرگیومنٹ بلڈ کیا جاتا ہے کہ پاکستان بنانے کے پیچھے بھی دراصل مقصد کوئی نہیں تھا بس اچانک جناح کے ذہن میں ایک دن بیٹھے بٹھائے دو قومی نظریئے کا خیال آیا اور پاکستان بنانے کی ضد کرنے لگا۔ ایسے لوگوں کے تعصبات انہیں اس بات سے روکتے ہیں کہ وہ جناح کے مقدمہ کو سمجھنے کے لئے کچھ وقت صرف کریں کہ آخر کیوں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر تیس سال کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ۔وہ جناح جو ان کے اے ڈی سی عطا ربانی کے مطابق ”اکثر اپنے بارے میں بتایا کرتے تھے کہ شروع شروع میں جب میں بمبئی میں پریکٹس کیا کرتا تھاتو روزانہ صبح گھر سے دفتر تک جانے کے لئے ایک آنہ کرایہ لگتا تھا تو میں سوچتا تھا کہ یہ ایک آنہ بچاؤں یا کرایہ ادا کروں۔ اور میں نوے فیصدکرایہ بچا لیا کرتا تھا”۔
اسی جناح بارے کے ایل گابا ان کے 1935،36 کا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں ”ایک مندر کے بارے میں دو ہندوؤں کے فرقوں میں جھگڑا چل رہا تھا۔ایک پارٹی نے انہیں دو لاکھ روپے فیس ادا کرنے کی پیشکش کی کہ وہ ان کی طرف سے اپیل میں آرگو کریں۔ انہوں نے اس بنا پر وہ کیس لینے سے انکار کر دیا کہ اس روز انہوں نے اسمبلی میں کسی موضوع پر تقریر کرنا تھی۔ پتہ ہے انہوں نے اسمبلی میں وہ تقریر کتنی دیر کی ؟ صرف دس منٹ وہ اسمبلی میں بولے ۔اور بہت خوش تھے” ۔
یہ” مالی مفادات کے حریص اور گیمبلر جناح”جس نے اپنا سفر ایک ایک آنہ بچانے سے کیا اور 1935 میں آکر وہ اتنے مشہور اور امیر وکیل ہوگئے تھے کہ دس منٹ کی تقریر کی خاطر دو لاکھ کی خطیر رقم ٹھکرا دی۔جناح صاحب کی گیمبلنگ اور سرمایہ کاری کے بارے میں کانجی دوارکاداس اپنی کتاب India Fight for Freedom میں لکھتے ہیں
In 1926, a book of important investments was published in
Calcutta giving names of ten biggest investors in some of
the important Joint Stock Companies. Jinnah’s name
appeared in three such companies— Tata Steel, Bombay
Dyeing and Tramways and his investments in those three
concerns totaled up to 14 lakhs at the price then ruling
" Jinnah was never a gambler or a speculator. He was a
most cautious investor. He abhorred speculation and
gambling.
1926 میں کلکتہ سے ایک کتاب چھپی تھی جس میں ہندوستان کی مشہور کمپنیوں کے نام اور ان کے بڑے بڑے حصے داروں کے نام تھے ۔ جناح کا نام تین کمپنیوں کے تحت درج تھا ۔ ٹاٹا سٹیل، بمبئے ڈایئنگ اور ٹراموے کمپنی ان تینوں میں ان کے چودہ لاکھ روپے کے حصے تھے ۔ جناح سٹے یا قسمت آزمائی کے بیوپار یا مشغلے کے بالکل قائل نہ تھے ۔ وہ اپنا سرمایہ بڑی احتیاط کے ساتھ اور کافی سوچ بچار کے بعد کہیں لگاتے تھے ۔ وہ آزمائی اور سٹے بازی سے نفرت کرتے تھے ”۔وہ جناح جو ، جو اشتیاق صاحب کی نظر میں کشمیر کے باغات اور
ائیر انڈیا کے شیئرز میں انویسٹمنٹ کرکے اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کررہے تھے اسے 1930 میں برطانوی وزیراعظم ریمزے میکڈونلڈ گورنری کی آفر کرتے ہیں جواب میں ”حریص” جناح یہ کہہ کر ان کی پیشکش ٹھکراتے ہیں کہ کیا برطانوی تجارتی مفاد کو محفوظ کرانے کی خاطر انہیں رشوت دی جارہی ہے ؟
”سیکولر اینڈ نیشنلسٹ جناح” میں ڈاکٹر اجیت جاوید لکھتی ہیں
"British authorities made many attempts to win over
Jinnah to their side by offering high offices and
posts but Jinnah did not sell his principles. He was
offered a judgeship in the Bombay High Court, which
he refused. Thinking it to be not a big enough bribe,
they offered him the post of Advocate- General, with
private practice but Jinnah declined. Lord Reading
the Viceroy of India also tried to tempt Jinnah with
the offer of Law-Member in the Viceroy Cabinet but
Jinnah turned it down too. Lord Reading made
another attempt and sounded him if he would accept
knighthood in the following Honours list but Jinnah
said I prefer to be plain Mr Jinnah than Sir
Muhammad Ali Jinnah
( برطانوی سرکار نے جناح کو اپنا طرفدار بنانے کے لئے بڑی کوششیں کیں بڑے عہدے اور مناصب کا لالچ دیا مگر انہوں نے اپنے اصولوں کو فروخت نہیں کیا۔ ہائی کورٹ میں جج کے عہدہ کی پیشکش کی گئی مگر جناح نے انکار کردیا۔سوچ کر یہ کم رشوت تھی انہوں نے ایڈوکیٹ جنرل کا عہدہ اس خصوصی رعایت کے ساتھ پیش کیا کہ وہ پرائیویٹ پریکٹس بھی کرسکتے ہیں۔ مگر جناح نے اس کو بھی مسترد کردیا۔ لارڈ ریڈنگ نے جناح کو لالچ دیا اور اپنی کابینہ میں وزیر قانون بنانا چاہا مگر جناح نے اس کو بھی قبول نہیں کیا ۔ لارڈ ریڈنگ نے دوسری کوشش کی انہوں نے ان سے پوچھا کہ اگر وہ چاہیں تو جاری سال کے فہرست میں انکو سر کا خطاب دیدیا جائے ۔جناح نے جواب دیا۔ ”میں سر محمد علی جناح کے مقابلہ میں مسٹر جناح کہلایا جانا زیادہ پسند کرتا ہوں”)۔
جناح کا صرف اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کی ہی فکر نہیں تھی وہ اپنی نسلوں کے بارے میں بھی متفکر رہتے تھے اور سوچتے رہتے تھے کہ
کیسے ان کی معاشی مفادات کا تحفظ ممکن بنایا جاسکے ۔ کافی سوچ و بچار کے بعد انہوں نے 1939،40 میں اپنی وصیت لکھی جس میں
پاکستان بننے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں کی۔اس وصیت میں بمبئی کا جناح منزل مع سازو سامان ملحقہ زمین، کاروں کے فاطمہ جناح کے نام ساتھ تا حیات 2000 ماہانہ،بہن رحمت ، مریم، شیریں بھائی احمد کو تاحیات 100 روپے ماہانہ دینے کی وصیت کی۔ بیٹی کے لئے 2 لاکھ کی انویسٹمنٹ جس میں 6 فیصد کے حساب سے 1000 روپے اپنی بیٹی کے نام۔ بیٹی کی وفات کے بعد وہ دو لاکھ اس کے بچوں میں برابر تقسیم کرنے کی وصیت کی۔ اگر بیٹی بے اولاد ہو تو وہ دو لاکھ بقیہ جائیداد کا حصہ ہوگی”۔مادی مفادات کے حریص ،” گیمبلر جناح”نے اپنی جائز کمائی ہوئی دولت میں 25000 ہزار انجمن اسلام اسکول بمبئی کے نام، 50000 یونیورسٹی آف بمبئی کے نام 25000 عریبک کالج دہلی کے نام کر دیئے ۔ اس تقسیم کے بعد جو کچھ بچا وہ انہوں نے مزید تین تعلیمی اداروں کے نام کر دیے ۔ ایک حصہ علی گڑھ یونیورسٹی کے لئے ، ایک حصہ اسلامیہ کالج پشاور کے لئے اور ایک حصہ کراچی کے سندھ مدرسہ کے نام کرنی کی وصیت کی۔دیکھا آپ نے معاشی معاملے عدم تحفظ کا شکار امیر ترین جناح اس دنیا سے جاتے ہوئے بھی اپنی دولت کا بڑا حصہ اپنی نسلوں کے بجائے تعلیمی اداروں کے نام کر کے اپنی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ کر گئے ۔