... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
۔۔۔۔۔۔۔
صحافیوںکے تحفظ کی ایک عالمی تنظیم ”کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس”نے اپنی رپورٹ میں سن 2021کے دوران بھارت اور میکسیکو کو صحافیوں کے لئے مہلک ترین ملک قرار دیا تھا ۔حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں درپیش مشکلات اور خطرات کے حوالے سے” یوگیتا لیمیا” کا ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا ”کوئی بھی خبر آپ کی آخری خبر ہوسکتی ہے” ۔ اس مضمون میں کشمیری صحافیوں کے خلاف مودی سرکار کے کریک ڈاون کو بے نقاب کیا گیا تھا جس پر بھارتی پولیس نے بی بی سی کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کو کالے قوانین ”پبلک سیفٹی ایکٹ اورمیڈیا پالیسی کے تحت صحافیوں کے گھروں میں چھاپے مارنا،تھانوں میں طلبی،ناجائز گرفتاریاں،صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کوہراساں کرنااورجسمانی تشدد کے واقعات اب معمول بن چکے ہیں۔
دنیا بھر کے صحافیوں کو جرائم سے تحفظ دلانے،آزادانہ صحافت کو یقینی بنانے اورانھیں بنیادی حقوق و انصاف کی فراہمی کے لئے اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہر سال 2نومبر کو صحافیوں کے خلاف جرائم کے استثنیٰ کے خاتمہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس سال کا تھیم ہے”صحافیوں کے خلاف تشدد،انتخابات کی سا لمیت اور عوامی قیادت کا کردار”اس عالمی دن کی مناسبت سے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے اپنے حالیہ پیغام میںکہا ہے کہ ”آج اور ہر دن ہم صحافیوں اور میڈیا کے تمام پیشہ ور افراد کے مشکور ہیں جو ہمیں باخبر رکھنے اور سچائی کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی صحت اور جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔”یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق سن2022 میں 88صحافیوں کو ان کے کام کی پاداش میں قتل کیا گیا۔اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سن2006سے سن2020تک رپورٹنگ اور معلومات عوام تک پہنچانے کے دوران دنیا بھر میں تقریبا 1200سے زائد صحافی مارے جاچکے ہیں جبکہ ہر دس میں سے نو کیسز میں قاتلوں کو سزا نہیں ملی۔ایک عالمی سروے کے مطابق 73فیصد خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ انھیں صحافتی فرائض کے دوران دھمکیوں اور توہین آمیز رویہ کا سامنا رہتا ہے۔ یونیسکو رپورٹ کے مطابق سن2016 سے سن 2020 کے دوران تقریبا 400صحافیوں کو ان کی ڈیوٹی کے وقت قتل کیا گیااور سن2020 میں 274 صحافیوں کو قید کیا گیا جوکہ تین دہائیوں میں سب سے زیادہ سالانہ تعداد بنتی ہے۔
برصغیر میں اردو ادب میں صحافت کا پہلا شہید مولوی محمد باقر کو کہا جاتا ہے۔ہندوستان میں جب انگریزوں کے مظالم حد سے زیادہ بڑھنے لگے تو علامہ سیدباقر دہلوی نے انگریزوں کا دیا ہوا عہدہ چھوڑ کران کے خلاف قلم اُٹھانے کا فیصلہ کیا اور سن 1837میں اُردو کے پہلے باقاعدہ اخبار” اخبار دہلی” کا آغاز کیا۔”اخبار دہلی” ایک ہفت روزہ اخبار تھا جس کی ماہانہ قیمت دو روپے تھی۔ 10 مئی 1840کو اخبار کا نام ”اخبار دہلی ”سے تبدیل کرکے ”دہلی اُردو اخبار” رکھ دیا ۔اخبار عوام میں مقبول ہونے لگا اور مولوی محمد باقر ایک مشہور صحافی بن گئے۔
مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دور کے آخری عرصہ میں جب عید الاضحی آئی تو بہادر شاہ ظفر نے گائے کی قربانی پر پابندی لگادی تاکہ انگریز سازش کرکے ہندومسلم فساد برپا نہ کرواسکیںادھرمولوی محمد باقر بھی اپنے اخبار اور تحریروں کے ذریعے نہ صرف ہندو،مسلم فساد روکنے اور باہمی اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے بلکہ انگریزوں کی ہر نئی سازش کو ناکام بھی بناتے رہے جب انھوں نے اپنے اخبار میں آزادی کی جنگ کے تمام ترحالات و واقعات کی رپورٹنگ(آنکھوں دیکھا حال) اور قلمی نام سے مضامین شائع کرنا شروع کئے تو انگریز حکومت بوکھلاہٹ کا شکارہوگئی۔انگریز حاکمین مولوی محمد باقر کے سخت خلاف ہوگئے اور ان کو جان سے مارنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے ۔نگریزوں نے جب دہلی پر دوبارہ قبضہ کرلیا تو انھوں نے ایک سازش کے تحت مولوی محمد باقرکو ایک ایسے انگریز کے قتل کے جرم میں گرفتار کرلیاجودہلی کے ہجوم کی مارپیٹ سے ہلاک ہوگیا تھا۔مولوی محمد باقر کو گرفتار کرنے کے بعد جب میجر ولیم اسٹیفن رائیکس ہڈسن کے سامنے پیش کیا گیاتو اس نے مقدمہ چلائے بغیر انگریز حکمرانوں کی خواہش کے مطابق مولوی محمد باقر کو توپ کے گولے سے شہید کرنے کاحکم سنادیا چنانچہ مولوی محمد باقر کو16ستمبر 1857 کو دہلی دروازے کے سامنے میدان میں توپ کا گولہ مار کر شہید کردیا گیابعض حوالہ جات میں گولی مار کر شہید کرنے کا بھی تذکرہ موجود ہے۔اس طرح مولوی محمد باقر اردو صحافت کے پہلے شہید صحافی تھے جنھیں انگریزوں نے انوکھی موت کی سزا سنائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔