... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،ہمارے دفتر کے قریب ایک ہوٹل ہے، اکثر صبح کا ناشتہ وہیں کرتے ہیں، وہاں جب بھی دیکھا ہمیشہ رش ہی دیکھا۔کئی بار ناشتے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ ایک شخص آتا ہے، ناشتہ کرکے رش کا فائدہ اٹھا کر چپکے سے پیسے دیے بغیر ہی نکل جاتا ہے، ایک بار جب ناشتے کیلئے ہوٹل پہنچے تو اسی شخص پر نظر پڑگئی جو وہاں بیٹھا ناشتہ کررہا تھا۔ہم نے کاؤنٹر پر بیٹھے ہوٹل کے مالک کو نشاندہی کردی کہ یہ آدمی ناشتہ کرکے بغیر بل دیے رش کا فائدہ اٹھا کر نکل جاتا ہے،کئی بار دیکھا ہے، آج اس پر نظر رکھنا وہ شاید پھر ایسا ہی کرے۔یہ بات سن کر ہوٹل کا مالک مسکرایا اور کہنے لگااسے نکلنے دو، کچھ نہیں کہنا، اس پر بعد میں بات کریں گے۔ حسب معمول وہ شخص ناشتہ کرکے رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چپکے سے نکل گیا۔ناشتہ کرنے کے بعد کاؤنٹر پر بل کی ادائیگی کے دوران ہوٹل کے مالک سے پھر پوچھاآپ نے اسے جانے کیوں دیا؟ مالک کے جواب نے ہمیں حیرت میں مبتلا کردیا۔کہنے لگا۔ اکیلے آپ نے ہی نہیں بہت سے بندوں نے یہ نوٹ کیا ہے اور مجھے بتایا، نہ بھی کوئی بتاتا تو ہم نظر رکھتے ہیں۔ یہ سامنے بیٹھے رہتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ میرے ہوٹل پر رش ہوگیا ہے تو چپکے سے آکر کھانا کھاکر ، ناشتہ کرکے نکل جاتا ہے، میں ہمیشہ اسے نظرانداز کردیتا ہوں،اسے کبھی نہیں روکا، نہ پکڑا ، نہ کبھی بے عزت کرنے کی کوشش کی، کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ میرے ہوٹل پر رش اس بندے کی دُعا سے لگتا ہے۔یہ سامنے بیٹھ کر دُعا کرتاہو گا کہ یا اللہ اس ہوٹل پر رش ہو تو میں اپنی کارروائی ڈال کر نکلُوں۔اور سچ میں رش ہو جاتا ہے ہمیشہ جب یہ آتاہے۔میں اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اس دُعا اور قبُولیت کے معاملے میں ٹانگ اڑا کر اپنی بدبختی کو دعوت نہیں دینا چاہتا۔یہ میری طرف سے نظر اندازہی ہوتا رہے گا۔ اورہمیشہ ایسے کھانا کھاتا رہے گا تو بھی میں کبھی اس کو پکڑ کر بے عزت نہیں کروں گا۔(یہ واقعہ ہمارے پیارے دوست نے ہمیں واٹس ایپ کیا، جس سے ہم کافی متاثر ہوئے، اس لئے آپ احباب سے شیئر کردیا)۔
پرانے زمانے کی بات ہے ، ایک بادشاہ نے رات کو گیدڑوں کی آوازیں سنیں تو صبح وزیروں سے پو چھا کہ رات کو یہ گیدڑ بہت شور کررہے تھے۔کیا وجہ ہے؟اس وقت کے وزیر” عقل مند” ہوتے تھے۔انھوں نے کہا جناب کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہوگی اس لیے فریادکررہے ہیں۔۔تو حاکم وقت نے آرڈر دیا کہ ان کا بندوبست کیا جائے۔وزیر صاحب نے کچھ مال گھر بھجوادیا اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیا۔اگلی رات کو پھر وہی آوازیں آئیں۔ تو صبح بادشاہ نے وزیر سے فرمایا کہ کل آپ نے سامان نہیں بھجوایا کیا؟۔ وزیر نے فوری جواب دیا کہ جی بادشاہ سلامت بھجوایا تو تھا۔اس پر بادشاہ نے فرمایا کہ پھر شور کیوں؟تو وزیر نے کہا جناب سردی کی وجہ سے شور کررہے ہیں۔تو بادشاہ نے آرڈر جاری کیا کہ بستروں کا انتظام کیا جائے۔ وزیر نے حسب عادت کچھ بستر گھر بھیج دیے اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیے۔جب پھر رات آئی تو بدستورآوازیں آنا شروع ہوگئیں۔تو بادشاہ کو غصہ آیا اور اسی وقت وزیر کو طلب کیا کہ کیا بستروں کا انتظام نہیں کیا گیا؟وزیر نے کہا۔ جناب وہ سب کچھ ہوگیا ہے تو بادشاہ نے فرمایا کہ پھر یہ شور کیوں؟تو وزیر نے اب بادشاہ کو تو مطمئن کرنا ہی تھا۔اور اوکے رپورٹ بھی دینی تھی۔تو وہ باہر گیا کہ پتہ کرکے آتا ہوں۔ وزیر جب واپس آیا تو مسکراہٹ لبوں پر سجائے آداب عرض کیا کہ بادشاہ سلامت یہ شور نہیں کررہے،بلکہ آپ کا شکریہ ادا کررہے ہیں،اور روزانہ کرتے رہیں گے۔بادشاہ سلامت یہ سن کے بہت خوش ہوا اور وزیر کو انعام سے بھی نوازا۔!
موجودہ دور میں سچ بولنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ آج دوپہر اس وقت ہوا جب ہم نے بیگم سے کہا۔اْف بیگم ، آپ کے بال کتنے حسین ہیں۔جس کے جواب میں شرماتی ہوئی آواز آئی ،ارے چھوڑیں۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد ہم دوبارہ گویا ہوئے،بیگم ، آپ کی جھیل جیسی گہری آنکھوں میں۔۔اور لجاتے ہوئے جواب پھر وہی ،ارے چھوڑیں بھی۔۔پر ہم بھی کہاں باز آنے والے تھے۔کچھ توقف کے بعد ایک اور کوشش کی ۔بیگم آپ کی کوئل جیسی آواز کی مدھرتا۔۔۔اس بار بیگم کا جواب وفور محبت سے بھرپور تھا ،ارے اب چھوڑیں بھی۔۔”تو اتنی دیر سے ہم اور کیا کر رہے ہیں؟” کہا تو یہ ہم نے زیرِلب بلکہ بے آواز ہی تھا پر وہ چالیس سال پرانی بیگم ہی کیا جو صرف ہونٹوں کی جنبش سے یہ نہ جان لیں کہ شوہر نے کیا کہا ہے۔ ہم اس وقت بازار میں وگ ڈھونڈ رہے ہیں پر آج جمعہ ہے ، سارا بازار بند ہے ، کیا آپ میں سے کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ آج وگ کہاں سے مل سکتی ہے؟(یہ واقعہ بابا جی کا ہے، اس کو ہم پر زبردستی نہ تھوپاجائے۔)۔۔باباجی کہتے ہیں کہ اک دفعہ مجھے سخت بخار ہوگیا بخار کی شدت سے میں بے ہوش ہوگیا، آنکھ کھلی تو بیوی سامنے کھڑی تھی پوچھا کیا میں جنت میں ہوں تو جواب آیا اللہ نہ کرے، یہ آپ کو کیا ہوگیا ہے دیکھ نہیں رہے ہیں میں سامنے کھڑی ہوں۔
آپ نے اکثر سنا ہوگا ،لوگ کہتے ہیں۔نماز بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے۔ یعنی وہ کسی اور کام سے گئے لیکن نیا کام ان کے ذمہ لگ گیا، حدیث کا مفہوم ہے۔جس نے رسول کریم پر نازل شدہ دین کی کسی چیز کا یا اس کی جزا اور سزا کا مذاق اڑایا اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ہم لوگ ہنسی مذاق میں کفریہ کلمات کہہ جاتے ہیں اور ہمیں توبہ کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔۔ اسی طرح یہ بھی کہاجاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔بطور مسلمان ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ ہمارے مذہب اسلام نے امت مسلمہ کے لیے محبت اور جنگ دونوں کی حدود متعین کی ہیں، جن سے تجاوز بالکل بھی جائزنہیں۔نوسوچوہے کھاکر بلی حج کو چلی۔یہ ایسے موقع پر کہاجاتا ہے جب کسی کو بڑھاپے میں نیک عمل کرتے دیکھا جائے۔اس جملے کو بھی نہ کہاجائے تو بہتر ہوگا، کیوں کہ کوئی بھی شخص کتنا ہی گناہ سے آلودہ کیوں نہ رہاہو، اگر سچی توبہ کر کے پلٹ آنا چاہے تو مغفرت کا دروازہ کھلا ہے۔حج شعائر اسلام ہے، بلی حج کو چلی کہنا شعائر اسلام کی کھلم کھلا توہین ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کھچڑی ایک ایسی ڈش ہے جو اب گھروں میں کم اور دماغوں میں زیادہ پکتی ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں!!