وجود

... loading ...

وجود

فلسطین کی شہید مائیں ،بہنیں

منگل 31 اکتوبر 2023 فلسطین کی شہید مائیں ،بہنیں

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم نے ہر اس دل کو لہو کر دیا ہے ،ظلم کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے،جنگ بندی کی قرار داد کو مسترد کرتے ہو ئے صیہونی بھیڑیوں کی ابھی تک ہوس پو ری نہیں ہو ئی اور مسلسل غزہ پر بمباری بلکہ فاسفورس بم استعمال کئے جا رہے ہیں، جو انسانیت کیلئے انتہائی خطرناک ہیں۔ اسرائیلی وحشی درندوں نے گزشتہ کئی دنوں سے جا ری جنگ میں اپنی بربریت و جارحیت کا مطاہرہ کرتے ہو ئے غزہ کو کھنڈر بنادیا ہے،جہاں اب انسان نہیں بلکہ وہ مردوں کے رہنے کی جگہ قبرستان کا منظر پیش کررہا ہے،آج غزہ میں انسانیت کی تذلیل اور بے توقیری کی جا رہی ہے،اور ان درندوں کو روکنے والا کوئی بھی نہیں،سینکڑوں کی تعداد میں ہماری فلسطینی ،مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں ،بچے شہید ہو چکے ہیں،سفاک اسرائیل کی زمینی اور فضائی بمباری سے انسانی خون کی ندیاں بہادیں، کھنڈر بنی غزہ کی سرزمین آج حضرت انسان کی بے توقیری پر دہائی دے رہی ہے اور انسانی حقوق کے دعویدار ممالک اور اداروں سمیت دنیا کے کسی کونے میں ایسا تحرک پیدا ہوتا نظر نہیں آرہا جو اسرائیلی صیہونیوں کے ذہنوں میں پیدا ہونیوالے برتری کے اور طاقت کے نشہ میں دھت پر انہیں جواب دے سکے اور فلسطینیوں کے قتل عام کیلئے اٹھنے والے اسکے قدم اور ہاتھ روک سکے۔ یہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش کیوں ہیں؟عالمی میڈیا خاموش کیوں ہے؟اپنے آپ کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار کہنے والا صیہونی امریکہ کیوں خاموش ہے؟کیا یہ کسی کی ماں نہیں،بیٹی نہیں،بہن نہیں،معصوم بچے کسی کی اولاد نہیں؟اسرائیلی حملوں کی بجائے مذمت کر نے کہ یہ طاقتیں اس کو تھپکی دیتی ہو ئی نظر آتی ہیں،اس بائولے درندے کے سامنے اقوام متحدہ ،عالمی برادری اور نام نہاد مسلم ممالک سب بے بس نظر آتے ہیں، انسانیت کیلئے یہ دوہرا معیار آخر کیوں ہے؟کیونکہ یہ مسلمان ہیں،اور رہی بات مسلم حکمرانوں کی تو وہ تو صرف بیانات میں مذمت کر نے کی حد تک ہیں،آج غزہ میں ،خوراک،ایندھن ،کی کمی ہے،انٹرنیٹ جیسی سہولت محروم ہے،غزہ کی مائیں ،بہنیں،بیٹیاں ،بھائی،معصوم بچے امداد کے منتظر ہیں لیکن کہیں بھی مسلم ممالک کی جانب سے کوئی خاطر خواہ امداد نہ پہنچ سکی،جو انتہائی دکھ کی بات ہے اور بڑا المیہ ہے ،فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،لیکن وحشی اسرائیلی درندے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے،بہر حال اللہ تعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے جو بہترین انصاف کر نے والا ہے،صیہونی و سامراجی گماشتوں نے غزہ پر بمباری کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے آخری اطلاعات پر غزہ پر اس وقت کی شدید ترین فضائی و زمینی بمباری کی گئی جس میں اس وقت تک سات ہزار پانچ سو فلسطینی مرد و خواتین و بچے شہید ہو چکے ہیں جس میں تین ہزار پانچ پچانوے معصوم بچے ،ایک ہزار آٹھ سو تریسٹھ خواتین بھی شامل ہیں،جبکہ زخمیوں کی تعداد بیس ہزار سے متجاوز ہے،اور ابھی تک دو ہزار کے قریب لوگ لاپتہ ہیں،ان درندوں کو یہ نہیں معلوم کہ جنگ میں عورتوں و بچوں کو قتل ممنوع ہے ،اسرائیل اپنی طاقت نشہ میں یہ چاہتا ہے کہ خواتین و بچوں کا قتل عام کر نے ان کی نسل کشی کی جائے لیکن ان شاء اللہ ایساکبھی نہیں ہو گا،اللہ تعالیٰ انہی مجاہد خواتین کے بطن کے مجاہد جوان پیدا کرے گا جو اسرائیل کی تباہی کا باعث بنیں گے،فلسطینی مائوں بہنوں،بیٹیوں نے قبلہ اول بیت المقدس کی حفاظت کیلئے بے انتہا قربانی دی ہے اور دے رہی ہیں،اپنے بچے قربان کردیئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے رب کے حضور پیش ہوگئیں،ان شاء اللہ ہماری ان مائوں ،بہنوں،بیٹیوں،جوانوں،بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور یہ خون اس امت پر قرض ہے اور یہ خون ضرور انقلاب لا کر رہے گا، صیہونی درندوں نے ظلم کے پہاڑ توڑتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے غزہ پٹی سے تمام سہولیات کو ختم کر دیا ہے،اس لئے صحافتی اداروں ،ایمبو لینس سروسز اور امدادی کارکنوں کو شد ید مشکلات کا سامنا ہے،مبصرین بھی انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں، دنیا بھرمیں فلسطینیوںکے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ فلسطین کا پرچم لہرایا جا رہا ہے۔میں اس پرچم کو دیکھتا ہوں اور دل کو رہ رہ کر کچھ کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔ اداسی اور کرب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ قائم تھی توالقدس مسلمانوں کے پاس تھا۔ ہنستا بستا شہر تھا، جس میں مسلمان عزت اور آبرو سے جی رہے تھے۔ ان کے بچے بھی محفوظ تھے اور ان کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی سکون سے زندگی گزار رہی تھیں۔ پھر مسلمانوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی ا ور نتیجہ یہ نکلا کہ القدس صہیونیوں کے ہاتھ میں چلا گیا اور اس وقت سے لیکر آج تک مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مظلوم فلسطینی شہید اور زخمی ہو رہے ہیں جن کے شہر’ دیہات’ کاروباری مراکز’ تعلیمی ادارے اور مساجد سمیت کوئی بھی پبلک مقام اور نجی عمارتیں اسرائیلی فوج کے حملوں میں محفوظ نہیں رہ سکیں۔ غزہ کی سرزمین پر جو باشندے اس وقت زخمی اور بے یارومددگار ہو کر کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں’ انہوں نے اپنی دھرتی کو اسرائیلی بمباری سے برباد ہوتے اور اپنے عزیزوں’ رشتہ داروں’ پیاروں کے جسموں کے چیتھڑے اڑتے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ وہ اپنے معصوم بچوں کے ادھڑے لاشے اٹھائے بے بسی کے عالم میں کسی پناہ گاہ کی تلاش میں دوڑتے ہیں تو یقیناً ان دلدوز مناظر کو دیکھ کر آسمان بھی رونے لگتا ہوگا۔ مگر سفاک انسانوں کا دل پسیجتا نظر نہیں آرہا۔اقوام متحدہ کو اس حقیقت کا تو احساس ہے کہ فلسطینیوں کی غزہ میں اسی طرح ناکہ بندی جاری رکھی گئی اور انہیں ادویات اور کھانے پینے تک کی اشیاء سے مسلسل محروم کیا جاتا رہا تو وہ بہت جلد بھوک سے مرنے لگیں گے مگر زخموں سے چوور اور کرب و بلا میں ڈوبے ان انسانوں کو بچانے کیلئے کسی ملک’ کسی ادارے اور کسی تنظیم کو کوئی عملی اقدام اٹھانے کی توفیق نہیں ہورہی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم فلسطینی مائوں،بہنوں،بیٹیوں،بچوں،جوانوں کی شہادت کو قبول فرمائے اور فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی غیب سے نصرت و مدد فرمائے اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اللہ ان کی بھی مدد فرمائے اور اللہ تعالیٰ اسرائیل اور اس کے حواریوں کو نیست و نابود فرمائے،آمین


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر