وجود

... loading ...

وجود

یوم سیاہ کشمیر۔ تاریخی پس منظر

جمعه 27 اکتوبر 2023 یوم سیاہ کشمیر۔ تاریخی پس منظر

ڈاکٹر جمشید نظر

مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر کے کشمیری مسلمان ہر سال 27اکتوبر کو یوم سیاہ کشمیر اس عزم کو دُہراتے ہوئے مناتے ہیں کہ ایک روز کشمیر کی وادی قابض بھارتی فوج کے تسلط سے ضرورآزاد ہوگی اور وہاں آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔پاکستان میں بھی کشمیریوں سے یکجہتی کااظہار کرتے ہوئے یوم سیاہ کشمیر کے حوالے سے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ دنیا کو باور کرایا جاسکے کہ کس طرح بھارت نے 27اکتوبر1947کو کشمیری عوام کی امنگوں کے برعکس علاقہ پر ناجائزقبضہ کرلیا تھا اور تب سے لے کر آج تک کس طرح کشمیری مسلمانوں کاحق خودارادیت سلب کیا جارہا ہے ۔یہ بات ہے سن1947کی جب تقسیم ہند کے موقع پرطے پائے گئے فارمولے کے تحت برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑ کر یہ اختیار دیا گیا تھاکہ وہ اپنی ریاستوں کے جغرافیائی و معاشی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی عوام کی خواہشات کے مطابق پاکستان اوربھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرسکتے ہیں یا اپنی آزاد حیثیت کوبرقرار رکھ سکتے ہیں چونکہ ریاست جموں و کشمیر کی 80فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اس لئے وہ سب پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے اگر جغرافیائی اور معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو بھی ریاست جموں و کشمیر کاپاکستان سے الحاق موزوں ترین تھا کیونکہ نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کی چھ سو میل لمبی سرحدیں مغربی پاکستان کے ساتھ مشترک تھیں بلکہ ریاست میں دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی پاکستان کے ذریعے ہی قائم تھا اس کے علاوہ کشمیر کی تمام درآمدات اور برآمدات کا راستہ بھی پاکستان سے وابستہ تھا ۔
ان تمام تر حقائق اور کشمیری عوام کی امنگوں کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق بہترین اور موزوں تھا،کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کو دل سے تسلیم کرچکے تھے مگر ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بجائے سرینگر کے ہوائی اڈے بھارتی فوج کے لئے
کھول دیئے اورجعلی الحاق کرکے ریاست پر ان کاناجائز قبضہ کروادیا ۔پاکستانی فوج اور قبائلیوںنے کارروائی کرتے ہوئے کشمیرکا ایک حصہ بھارتی فوج
کے قبضہ سے چھڑالیاجوکہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔27اکتوبر1947سے لے کر اب تک بھارتی قابض فوج لاکھوں کشمیری مسلمانوں کا خون مقبوضہ وادی میں
بہا نے کے باوجود ان کی آزادی کی خواہش کو دبانے میں ناکام ہوچکی ہے۔کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموںوکشمیر کی خواتین کو محاصرے
اور تلاشی کی کارروائیوں کے بہانے بھارتی فورسز کے ہاتھوں مسلسل اغوا، جنسی تشدد، غیر قانونی حراستوں اور چھیڑ چھاڑ کا سامنا ہے جبکہ بھارتی حکومت نے
” آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ”نام سے ایک کالا قانون بنارکھا ہے جس کے ذریعے جنسی تشدد میں ملوث بھارتی فوجیوں کو سزا سے بچایا جاتاہے،بھارتی
حکومت نے کشمیریوں کو غیر قانونی حراست میں لینے کے لئے دو کالے قوانین” پبلک سیفٹی ایکٹ ”(PSA)اور” غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا
قانون” (UAPA) بنا رکھے ہیں۔
اگست2019میں مودی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ علاقے میںریاستی دہشت گردی اور انسانی
حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔کشمیرکی جیلوں میں قید تحریک آزادی کے کارکنوں کو خودکشی یا حادثات ظاہر کرکے قتل کیا جارہا ہے اب تک 200سے زائد قیدیوں کوکشمیر کی جیلوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں منتقل کیا جاچکا ہے تاکہ وہاں ان کو دی جانے والی اذیت ناک موت کا کسی کو پتہ نہ
چل سکے۔مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر آباد کاری کرتے ہوئے ایک طرف مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے تو دوسری جانب ہندووں کوڈومیسائل جاری
کرکے وہاں آباد کیا جارہا ہے جبکہ25 لاکھ سے زائد بھارتی شہریوں کومتنازعہ علاقہ میں ووٹ ڈالنے کاغیر قانونی حق دے دیاگیا ہے اس کے علاوہ دریائے
چناب پرریلوے ٹریک بناکر مقبوضہ وادی کو بھارت کے بڑے ریلوے نیٹ ورک کے ساتھ منسلک کرنے کاخفیہ منصوبہ بھی جاری ہے۔بھارتی حکومت نے
اپنی دس لاکھ سے زائد فوج تعینات کرکے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا ہے ۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے کشمیر کا دیرینہ تنازع
حل کرانے کے لئے اپنا کردار ادا نہ کیا توپاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے سائے منڈلاتے رہیں گے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر