... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر کے کشمیری مسلمان ہر سال 27اکتوبر کو یوم سیاہ کشمیر اس عزم کو دُہراتے ہوئے مناتے ہیں کہ ایک روز کشمیر کی وادی قابض بھارتی فوج کے تسلط سے ضرورآزاد ہوگی اور وہاں آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔پاکستان میں بھی کشمیریوں سے یکجہتی کااظہار کرتے ہوئے یوم سیاہ کشمیر کے حوالے سے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ دنیا کو باور کرایا جاسکے کہ کس طرح بھارت نے 27اکتوبر1947کو کشمیری عوام کی امنگوں کے برعکس علاقہ پر ناجائزقبضہ کرلیا تھا اور تب سے لے کر آج تک کس طرح کشمیری مسلمانوں کاحق خودارادیت سلب کیا جارہا ہے ۔یہ بات ہے سن1947کی جب تقسیم ہند کے موقع پرطے پائے گئے فارمولے کے تحت برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑ کر یہ اختیار دیا گیا تھاکہ وہ اپنی ریاستوں کے جغرافیائی و معاشی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی عوام کی خواہشات کے مطابق پاکستان اوربھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرسکتے ہیں یا اپنی آزاد حیثیت کوبرقرار رکھ سکتے ہیں چونکہ ریاست جموں و کشمیر کی 80فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اس لئے وہ سب پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے اگر جغرافیائی اور معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو بھی ریاست جموں و کشمیر کاپاکستان سے الحاق موزوں ترین تھا کیونکہ نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کی چھ سو میل لمبی سرحدیں مغربی پاکستان کے ساتھ مشترک تھیں بلکہ ریاست میں دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی پاکستان کے ذریعے ہی قائم تھا اس کے علاوہ کشمیر کی تمام درآمدات اور برآمدات کا راستہ بھی پاکستان سے وابستہ تھا ۔
ان تمام تر حقائق اور کشمیری عوام کی امنگوں کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق بہترین اور موزوں تھا،کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کو دل سے تسلیم کرچکے تھے مگر ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بجائے سرینگر کے ہوائی اڈے بھارتی فوج کے لئے
کھول دیئے اورجعلی الحاق کرکے ریاست پر ان کاناجائز قبضہ کروادیا ۔پاکستانی فوج اور قبائلیوںنے کارروائی کرتے ہوئے کشمیرکا ایک حصہ بھارتی فوج
کے قبضہ سے چھڑالیاجوکہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔27اکتوبر1947سے لے کر اب تک بھارتی قابض فوج لاکھوں کشمیری مسلمانوں کا خون مقبوضہ وادی میں
بہا نے کے باوجود ان کی آزادی کی خواہش کو دبانے میں ناکام ہوچکی ہے۔کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموںوکشمیر کی خواتین کو محاصرے
اور تلاشی کی کارروائیوں کے بہانے بھارتی فورسز کے ہاتھوں مسلسل اغوا، جنسی تشدد، غیر قانونی حراستوں اور چھیڑ چھاڑ کا سامنا ہے جبکہ بھارتی حکومت نے
” آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ”نام سے ایک کالا قانون بنارکھا ہے جس کے ذریعے جنسی تشدد میں ملوث بھارتی فوجیوں کو سزا سے بچایا جاتاہے،بھارتی
حکومت نے کشمیریوں کو غیر قانونی حراست میں لینے کے لئے دو کالے قوانین” پبلک سیفٹی ایکٹ ”(PSA)اور” غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا
قانون” (UAPA) بنا رکھے ہیں۔
اگست2019میں مودی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ علاقے میںریاستی دہشت گردی اور انسانی
حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔کشمیرکی جیلوں میں قید تحریک آزادی کے کارکنوں کو خودکشی یا حادثات ظاہر کرکے قتل کیا جارہا ہے اب تک 200سے زائد قیدیوں کوکشمیر کی جیلوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں منتقل کیا جاچکا ہے تاکہ وہاں ان کو دی جانے والی اذیت ناک موت کا کسی کو پتہ نہ
چل سکے۔مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر آباد کاری کرتے ہوئے ایک طرف مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے تو دوسری جانب ہندووں کوڈومیسائل جاری
کرکے وہاں آباد کیا جارہا ہے جبکہ25 لاکھ سے زائد بھارتی شہریوں کومتنازعہ علاقہ میں ووٹ ڈالنے کاغیر قانونی حق دے دیاگیا ہے اس کے علاوہ دریائے
چناب پرریلوے ٹریک بناکر مقبوضہ وادی کو بھارت کے بڑے ریلوے نیٹ ورک کے ساتھ منسلک کرنے کاخفیہ منصوبہ بھی جاری ہے۔بھارتی حکومت نے
اپنی دس لاکھ سے زائد فوج تعینات کرکے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا ہے ۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے کشمیر کا دیرینہ تنازع
حل کرانے کے لئے اپنا کردار ادا نہ کیا توپاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے سائے منڈلاتے رہیں گے ۔