... loading ...
ریاض احمدچودھری
برطانیہ کی طرف سے اعلان بالفور کے سامنے آنے کے ساتھ ہی اس معاملے میں قائد اعظم کی دلچسپی شروع ہوگئی اور انہوں نے فلسطین اور فلسطینی مسلمانوں کے مستقبل کو درپیش ہونے والے خطرات کو محسوس کر لیا۔ قائد کا کہنا تھا کہ ‘میں برطانوی حکومت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کو اگر منصفانہ اور آبرومندانہ طریقے سے حل نہ کیا گیا تو سلطنت برطانیہ کے لیے یہ تبدیلی کا نکتہ آغاز ہو گا۔ برطانیہ نے فسلطینی عربوں کی رائے عامہ کو طاقت وجبر سے کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم برصغیر کے مسلمان اس موڑ پر عرب موقف کے حامی ہیں اور ان کی منصفانہ جدوجہد میں ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ عرب مسلمان اپنے جائز حق کی جدوجہد میں ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔’مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو میں 15 اکتوبر 1937 کو قائد اعظم نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے برطانوی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
قائدِ اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ ہمیشہ فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ فلسطین کی حمایت میں 1933 سے 1946 تک اٹھارہ قرار دادیں منظور کی گئیں۔پورے برصغیر میں آل انڈیا مسلم لیگ باقاعدگی کے ساتھ یومِ فلسطین پر سیاسی سرگرمیوں کا انعقاد کرکے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتی رہی۔23 مارچ،1940 ء کو قرار دادِ لاہور منظور کی گئی جو قرار دادِ پاکستان کہلاتی ہے، اس تاریخی موقع پر بھی فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی قرار داد منظور کی گئی۔ صیہونیت کی پشت پناہی کے لیے چونکہ برطانیہ صف اوّل میں کھڑا تھا اس لیے قائدِ اعظم محمد علی جناح جہاں برّصغیر پاک و ہند کے مسلمانان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے وہیں جدوجہدِ آزادی فلسطین کے لیے بھی مسلسل تگ و دو کر رہے تھے کیونکہ ملّت کا پاسبان ہونے کے ناطے پوری امّتِ مسلمہ کا غم آپ کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھا۔
فلسطین کی صورتِ حال کے متعلق چرچل (وزیرِ اعظم برطانیہ) کے نام قائد اعظم کا ٹیلی گرام:ـ
”آل انڈیا مسلم لیگ برطانوی حکومت پر زور دیتی ہے کہ وہ مسلم لیگ کو فلسطین کانفرنس میں نمائندگی دے اور ”فلسطین قومی عرب مطالبات” کو تسلیم کرے۔ مسلم ہند نہایت بے قراری کے ساتھ نتائج کا منتظر ہے۔میں برقیہ کے ذریعہ سے سارے ہند میں پھیلے ہوئے جذبات کی شدت اور تاثرات کا کماحقہ اظہار نہیں کرسکتا۔ کانفرنس کی ناکامی کا سارے عالَمِ اسلام میں تباہ کن اثر ہوگا اور سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ میں بھروسہ کرتا ہوں کہ آپ اس مخلصانہ اپیل پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گے۔”
تقسیم فلسطین کی تجویز کے دنوں میں علامہ اقبال کی صحت خاصی بگڑ چکی تھی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام تھے لیکن اس کے باوجود وہ اس کے تصور سے مسلسل بے چین اور افسردہ رہے۔ اقبال نے اس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کر دی تھیں۔ جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنے انتقال سے صرف ایک سال پہلے ایک برطانوی رہنما کو فلسطینی مسلمانوں کے حق میں خط لکھا اور برطانوی حکومت پر زور دیا کہ عربوں سے ناانصافی نہ کی جائے۔ علامہ اقبال کا یہ خط اعلان بالفور کے بعد فلسطین پر صہیونی قبضے کی کوششوں اور وہاں پر ایک ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام سے پیدا شدہ صورت حال کے حوالے سے تھا۔علامہ صاحب فرماتے ہیں: میں بدستور علیل ہوں، اس لیے تفصیل سے آپ کو نہیں لکھ سکتا کہ رائل کمیشن کی رپورٹ نے میرے دل پر کیسا چرکا لگایا ہے۔ نہ یہ بتانے پر قادر ہوں کہ اس رپورٹ سے ہندوستان کے مسلمان بالخصوص اور پورے ایشیا کے مسلمان بالعموم کس قدر رنج والم کا شکار ہوئے ہیں اور ان کے غم وغصے کے جذبات آئندہ دنوں کیا رنگ اختیار کر سکتے ہیں۔ لیگ آف نیشنز کو چاہیے کہ بیک آواز ہو کر اس ظلم اور طغیان کے خلاف احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے ناانصافی نہ کریں بلکہ ان وعدوں کو ایفا کریں جو گذشتہ جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے حکمرانوں نے برطانوی عوام کے نام عربوں سے کیے تھے۔ حقیقی طاقت کے نشے سے سرشار ہو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے تو تباہی سے ہمکنار ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔’
مسئلہ فلسطین پر علامہ اقبال ،اقبال نامہ میں لکھتے ہیں:فلسطین میں یہود کے لیے ایک قومی وطن کا قیام تو محض ایک حیلہ ہے، حقیقت یہ کہ برطانوی اِمپیریلزم مسلمانوں کے مقامات ِمقدس میں مستقل انتداب اور سیادت کی شکل میں ایک مقام کی متلاشی ہے”۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست مانتے تھے، اس کے جارحانہ اور مجرمانہ عزائم سے خوب واقف تھے۔ اس بارے ان کا ٹھوس مؤقف تھا کہ اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کو ختم ہونا چاہیے۔مولانا مودودی کا ماننا تھا کہ اسرائیلی ریاست کے باقی رہتے ہوئے مسجد اقصی کے حل کی کوئی صورت ممکن نہیں اور مسجد اقصی کا مسئلہ اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے جبکہ ناجائز یہودی ریاست کا خاتمہ ہو اور فلسطین کو آزاد کرالیا جائے،اس کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔
اسرائیل کے قیام کے پیچھے برطانیہ کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا کیونکہ جنگ عظیم اوّل میں جب یہودیوں نے دیکھا کہ اتحادی جنگ جیت رہے ہیں تو انھوں نے اتحادیوں کو خصوصاً برطانیہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام پر آمادہ کیا ۔برطانیہ کی پہلے ہی نظر مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر تھی سو اس نے جاتے جاتے ایک ایسی ریاست مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر قائم کر گیا جو آج تک فلسطینی عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ فلسطین تو کیا پورے عرب کو بھی آج تک حقیقی آزادی نصیب نہ ہوسکی۔ وہ اقتصادی طور پر اسرائیل و امریکا کے ہی غلام ہیں کیونکہ دنیا کی معیشت پر ان صہیونیوں کا قبضہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔