وجود

... loading ...

وجود

اب بھی موقع ہے!!

جمعرات 26 اکتوبر 2023 اب بھی موقع ہے!!

میری بات/روہیل اکبر

ہماری پولیس اور اداروں نے پی ٹی آئی کے ورکروں کا جو حشر کررکھا ہے کاش یہی حشر ان افراد کا بھی کیا ہوتا توجنہوں نے عمارتوں کو آگ لگائی، ججز کو عدالتوں سے بھاگنے پر مجبور کیا اور تو اور ہماری پاک فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں بھی ببانگ دہل کی جاتی رہی۔ اگر اسی وقت ایسے افراد کو سبق سکھا دیا جاتا تو 9مئی کا واقعہ بھی نہ ہوتا اور آج ملک میں امن ہی امن اور سکون ہی سکون ہوتا لیکن ہوا اسکے الٹ، ہمارے اداروں کو بدنام کرنے والوں کونہ صرف وی آئی پی پروٹوکول دیا گیابلکہ انکے کے لیے اقتدار کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو صاف بھی کیا گیا جن جن لیڈروں نے اداروں پر نہ صرف تنقید کی بلکہ ان پرعملی طور پر چڑھائی بھی کی وہ آج بھی معزز ہیں اور جو بندہ اداروں کی مضبوطی کی بات کرتا تھا اسے پابند سلاسل رکھا ہوا ہے آج چند سوالوں کے جواب ہی ڈھونڈ لیں تو ہمیں اپنے سیاسی حالات کا اندازہ ہو جائیگا کہ ہمیں اس نہج پر پہنچایا کس نے ہے ،ان میں سے چند ایک سوالات اور ان کے جوابات آپ بھی پڑھیں اور پھر سوچیں کہ عمارتوں کو آگ کس نے لگائی؟ فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان کس نے دیا؟سابق آرمی چیف ضیاء الحق کی قبر پر جوتے لہرا کر اسکے خلاف نعرے کس نے لگائے؟ میمو گیٹ اسکینڈل کس نے کیا؟ انکے جوابات ہیں کہ پیپلز پارٹی اب ایک اور پارٹی کے کارنامے بھی پڑھ لیں کہ جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت سپریم کورٹ پر حملہ کس نے کیا؟جسٹس سجاد علی شاہ اپنی جان کس سے بچا کر عقبی دروازے سے بھاگے؟ نیب کے دفتر پر پتھراؤ کس نے کیا؟کارگل میں ہماری فوج نے آپکی اور میری پیٹھ میں چھرا گھونپا بھارتی وزیراعظم کو یہ بات کس نے کہی؟ پاکستان پر ممبئی حملوں کا الزام کس نے لگایا؟ڈان لیکس اسکینڈل کس نے کیا؟فوج ہماری ہڈیوں سے گوشت نوچ کر کھا گئی فوج نے آج تک ایک بھی علاقہ فتح نہیں کیا یہ 65 اور 71 کی جنگ ہارے یہ بیان کس نے دیا؟ ابھی نندن کو گرفتار کرنے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ماتھے پر پسینہ تھا اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں یہ بیان کس نے دیا وہ بھی قومی اسمبلی میں؟پاکستان کو خراب کریں یہ فوج کے جنرل اور ٹھیک کرے نواز شریف یہ بیان کس نے دیا؟فوج کو خلائی مخلوق کس نے کہا؟جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ کس نے چلایا؟پاکستانی جرنیل اپنی آئینی حد میں کیوں نہیں رہتے ،یہ ملک کے ٹھیکیدار کیوں بنتے ہیں یہ بیان کس نے دیا؟سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کی کردار کشی کس نے کی؟جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کروانا کس کی خواہش ہے؟ان کاجواب ہے مسلم لیگ (ن )۔
ابھی بہت سے سوالات اوربھی ہیں مگر کچھ اہم سوالات اور انکے جوابات بھی پڑھ لیں فوج کو اسرائیل کے وظیفے پر پلنے والے جرنیل کس نے کہا؟ہم تمہارا وہ حشر کریں گے جو حشر افغانستان میں طالبان نے امریکی فوج کا کیا یہ بیان کس نے دیا؟اگر مجھے نیب نے بلایا تو پاکستان بھر سے تمام مدارس کے طلباء میرے ساتھ پیشی پر جائیں گے یہ کس نے کہا تھا؟ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف مہم کس نے چلائی؟ سپریم کورٹ کے موجودہ ججز جسٹس اعجاز الحسن مظاہر نقوی اور الیکشن کا فیصلہ دینے والے ججز کے خلاف پوسٹرز کس نے لگائے؟ سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے کون پہنچا ہوا تھا اور ریڈ زون کراس کرکے سپریم کیخلاف کس نے نعرے لگائے اور گیٹ کس نے توڑے؟ ان سوالوں کا جواب ہے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور انکے ہم نوائوں نے یہ جتنی بھی تنقید ہوئی وہ اس دور کے لحاظ سے شدید تنقید تھی۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر ن لیگیوں نے اس لیے حملہ کرکے انہیں بھاگنے پر مجبور کیا کہ وہ حق اور سچ پر مبنی فیصلہ سنانے والے تھے اور اسی فیصلہ کو روکنے کے لیے مسلم لیگ ن نے عدالت پر نہ صرف چڑھائی کردی بلکہ جج صاحب کو اپنی سیٹ چھوڑ کر جان بچا کر بھاگنا پڑا ایک بات تو طے ہے کہ جب تک ہمارے ادارے مضبوط نہیں ہوتے ہم بھی خوشحال نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکتا ہے ہم اپنے اداروں پر تنقید کرتے ہیں پھر وہاں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا بلکہ اپنی اپنی سیاسی جماعت کو مضبوط کرنے اور اپنے آپ کو بادشاہ سلامت بنوانے کے لیے ہی کام کیا خود ارب پتی بن گئے اور عوام آج روٹی کھانے سے بھی تنگ ہے روزگار نہ ہونے کے برابر ہے اور غریب لوگ اپنا علاج کروانے سے بھی محروم ہیں، میں بہت سے ایسے افراد کو جانتا ہوں جو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کرائے کے گھر میں موت کا انتظار کررہے ہیں زندگی ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں وہ ہسپتال تک جانے کی سکت نہیں رکھتے انکے پیارے بے بسی سے انکی موت کا انتظار کررہے ہیں۔
ہمارے دو نظام بہتر ہوجائیں تو بے چارے غریب ،بے بس اور لاچار لوگ آسانی سے مرسکیں گے ایک تو صحت کا نظام اور دوسرا انصاف کا نظام جو ابھی تک ٹھیک نہیں ہوسکے ہمارے ڈرگ انسپکٹروں کی مہربانی سے ممنوعہ ادویات کھلے عام فروخت ہورہی ہیں انتظامیہ کی ملی بھگت سے منشیات گلی محلوں میں استعمال ہورہی ہے اور پھرسرکاری ہسپتالوں کی ناقص ترین کارکردگی سے عوام کے دکھ اور درد میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے یہی سب کچھ انہی سیاستدانوں اور انکے حواریوں کا کیا دھرا ہے جو آج معصوم بنے ہوئے ہیں ایسے لوگ جمہوریت کے لبادے میں آمریت سے بھی آگے نکل جاتے ہیں جبکہ آمریت میں اصل جمہوریت بحال ہوکر حقیقی معنوں میں نظر بھی آتی ہے اس دور کا یونین کونسل ناظم اور چیئرمین ہمارے جمہوری دور کے ایم این اے سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا جو عوام بھی تھا جمہوری بھی اور فلاحی بھی اگر ہم اسی نظام کو چلانے میں کامیاب ہو جاتے تو آج ہمیں وزیر اعظم کی ضرورت رہتی نہ ہی وزرا کی وہ لوگ قانون سازی کرتے اور بلدیاتی ادارے عوام کی خدمت کرتے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہونے نہ دیا گیا جسکی وجہ سے عوام بدحال اور حکمران خوشحال ہوگئے اب بھی موقع ہے کہ ملک کی سمت درست کرلی جائے تاکہ ہم ترقی اور خوشحالی کا سفر پھر سے شروع کرسکیں۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر