... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد برصغیر کی تقسیم کافارمولہ طے کیا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل کئے جائیں گے لیکن ڈوگرہ حکمران نے کشمیر کو مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود بھارت میں شامل کرنے کی سازشیں کیں جس پر کشمیری مسلمانوں نے جدوجہدآزادی کا آغاز کرتے ہوئے کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرالیاجسے آزاد جموں و کشمیر کا نام دیا گیا اور24اکتوبر 1947کو آزاد جموں و کشمیر میں حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تب سے لے کر آج تک 24اکتوبر کو دنیا بھر میں کشمیری مسلمان آزاد جموں و کشمیر کا یوم تاسیس اس عہد کے ساتھ مناتے ہیں کہ ایک دن وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرواکررہیں گے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی حکومت کے قیام سے لے کر اب تک مقبوضہ کشمیر اوربھارت میں رہنے والے مسلمانوںپر جومظالم ڈھائے ہیںوہ تاریخ کے بدترین دن بن چکے ہیں خصوصا سال 2019 تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس سال ایک طرف دنیا بھر میںکورونا کی وباء نے جنم لیا تو دوسری جانب اسی سال نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میںجبری کرفیولگا یا،مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل370کو ختم کیا اور بھارت میںرہنے والے مسلمانوں کی شہریت ختم کردی۔اس وقت انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے اپنے ایک بیان میںمودی سرکار کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نریندر مودی نے جموں و کشمیر میں دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے ایک بڑی تزویراتی(اسٹیرٹیجک) غلطی کی ہے اسی طرح بھارتی ریاست تامل ناڈو کے وزیر اعلی ”ایم کے سٹالن” نے 37مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو ایک خط لکھ کر خبردار کیا تھا کہ بھارت کو کٹر پن ، تعصب اور مذہبی بالادستی کے خطرے کا سامنا ہے اس لئے مودی سرکار ہر شخص کو یکساںمعاشی ، سیاسی اور معاشرتی حقوق و مواقع فراہم کرے لیکن مودی سرکار پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے انکشاف کیا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کے لئے نریندر مودی کی قیادت میں بدنام زمانہ ایجنسیاں استعمال کی جارہی ہیں جبکہ کل جماعتی حریت کانفرنس میں ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں آباد کاری کے لئے اسرائیلی ماڈل اپنا رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر اور اسرائیل، فلسطین کا تنازع اس وجہ سے مماثلت رکھتا ہے کہ دونوں مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی نسل کشی کرکے وہاں زبردستی غیر قانونی تسلط برقرار رکھنے کے لئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں جو تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ 1947میںتقسیم برصغیر کے بعدتنازعہ کشمیر نے جنم لیا جبکہ اسرائیلـفلسطین تنازعہ کی ابتدا 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں اس وقت ہوئی جب انگریزوں نے فلسطین کی سرزمین پر مشرق وسطی کے قلب میں ایک نئی ریاست تشکیل دی۔یہ دونوں تنازعات بین الاقوامی طاقتوں، مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جومختلف مواقع پر ان کے حل کیلئے ثالثی یاکسی قسم کا کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں تاہم قابض قوتوں کی ہٹ دھرمی ان تنازعات کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو آج مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں نہ ختم ہونے والے ظلم و تشدد، جنگوں، مزاحمت اور سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں عالمی امن کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیر کاتنازعہ جنوبی ایشیاء میں جبکہ اسرائیلی زیر تسلط فلسطین مشرق وسطی میں کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے اور بھارت اور اسرائیل کشمیریوں اور فلسطینیوں کو انکا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت دینے سے انکار کررہے ہیں جس کی ضمانت اقوا م متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948میں منظور کی گئی اپنی قرارداد میں فراہم کی تھی۔ مقبوضہ کشمیر میںسیاسی و سماجی رہنماوں نے جب اسرائیلی جارحیت کے شکارمظلوم فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے آواز بلند کرنا چاہی تو انھیں مختلف اضلاع میں نظر بند کردیا گیا۔ مودی سرکارمقبوضہ کشمیر اور انڈیا میں اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی حق و صداقت کی آوازوں کو دبا کر اپنی وفاداری ظاہر کررہی ہے۔ مودی سرکار کی نام نہاد جمہوری حکومت کااصل چہرہ ہر روز کسی نہ کسی طرح دنیا کے سامنے ظاہر ہوہی جاتا ہے۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پرہونے والے ظلم و بربریت پرمودی سرکارکا محاسبہ کرے اور کشمیری مسلمانوں کوسلب شدہ حق خود ارادیت دلانے کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔