... loading ...
ریاض احمدچودھری
غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری جاری ہے۔ جبکہ50 سے زائد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی کی بمباری سے شہید ہونے والوں کی تعداد 4300 ہو گئی ہے۔ زخمی 14 ہزار سے زائد ہیں۔بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے خاموش تماشائی بن کر یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔اس حوالے سے مسلم امہ اور مسلم رہنمائوں کا کردار بھی ناقابل فہم ہے۔ ”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ”۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ کہ پچاس سے زائد ممالک اور ہر رہنما کی ایک گھن گرج تقریروں میں شعلے اگلیں گے۔ دعوے ایسے کہ معلوم ہوگا اب اسرائیل کی خیر نہیں بھاگنے گا راستہ بھی نہیں ملے گا۔ دوسرے دن پھر وہی پرانی خبریں، غزہ میں بمباری کئی فلسطینی شہید، عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔
ادھر برطانوی وزیراعظم رشی سونک بھی اسرائیل پہنچ گئے جہاں انھوں نے بیت المقدس میں اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کی اور کہا کہ اس مشکل وقت میں برطانیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ نہایت شرم اور افسوس کی بات ہے کہ مغربی ممالک کے حکمران غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں اور مسلم ممالک کے حکمران تماشا دیکھ رہے ہیں۔ محض بیانات سے صورتحال میں اگر کوئی بہتری آنی ہوتی تو یہ مسئلہ اب تک حل ہوچکا ہوتا۔ فلسطین اور کشمیر دونوں گزشتہ پون صدی سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر ہیں لیکن دونوں مسائل اس لیے حل نہیں ہوئے کہ مسلم ممالک کے حکمران ان دونوں علاقوں میں مظلوم عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں۔اقوام متحدہ اس صورتحال میں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اس کے سربراہ انتونیو گوتریس منت سماجت کے انداز میں کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری اور ناکہ بندی کے دوران شہریوں تک خوراک، ایندھن اور پانی جیسی اشیائے ضروریہ پہنچانے کی اجازت دی جائے۔اقوام متحدہ نے غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طبی رو بنیادی سہولیات منقطع کرنے کو غیر انسانی فعل قرار دیا اور اسرائیل سے فوری طور پر بنیادی سہولیات کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی بھی اس سلسلے میں ناکام دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس کی طرف سے کبھی کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جس نے فلسطینیوں کے لیے کوئی سہولت پیدا کی ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ سعودی عرب ناجائز ریاست اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کے قیام کے سلسلے کو موقوف کرچکا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا سلسلہ رکا ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ دیگر عرب ممالک بھی اس حوالے سے بیانات جاری کررہے ہیں لیکن ان کھوکھلے بیانات سے تو غاصب صہیونی ریاست کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور جارحیت کے باوجود امن اور انسانی حقوق کے علمبردار برطانیہ اور امریکہ سمیت دوسری الحادی قوتیں پہلے دن سے نہ صرف اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں بلکہ اسلحہ اور بارود سے اسکی ہر طرح کی مدد بھی کر رہی ہیں۔دوسری طرف مسلم دنیا کی طرف سے صرف اظہار یکجہتی اور مذمتی بیانات ہی سامنے آرہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح الحادی قوتیں اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہیں’ مسلم ممالک کو بھی متحد ہو کر فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے تھی مگر اپنے اپنے مفادات اور تحفظات کے لبادے اوڑھے سارے مسلم ممالک فلسطین کی بربادی کا منظر دیکھ رہے ہیں۔ اگر مسلمان ملکوں کا یہی چلن رہا تو ان کی اپنی بربادی بھی نوشتہ دیوار ہے۔ اس وقت مسلم دنیا میں جو انتشار نظر آرہا ہے’ اسکے پیچھے الحادی قوتوں کا اتحاد و ایجنڈا ہے’ جنہوں نے مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے ان میں ایسا نفاق پیدا کر دیا ہے کہ ان قوتوں کے ہاتھوں کسی مسلمان ملک کی بربادی پر انہیں آواز اٹھانے کی جرات نہ ہو۔ اس لئے مسلم دنیا کو انکی اس سازش کو سمجھنا ہوگا اور اپنے باہمی اختلافات بھلا کر متحد ہونا ہوگا تاکہ یہود و ہنود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ کے آگے مضبوط بند باندھا جاسکے۔ اس لئے مسلم دنیا کو اب مذمتی بیانات اور رسمی اظہار یکجہتی سے آگے نکل کر عملی اقدامات کرنا ہونگے۔
یہاں اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بن گوریان کا ایک واقعہ بتاتا چلوں کہ ایک بار وہ دفتر جا رہا تھا تو اس کی بیٹی نے کہا کہ آج دیوار گریہ پر دعا کا دن ہے ۔ جلدی لوٹ آنا۔ بن گوریان نے کہا کہ چند ضروری کام نمٹانے ہیں جو دیوار گریہ پر دعا سے بھی زیادہ ضروری ہیں۔اگر دعا سے کام چلتا تومسلمان ہر سال لاکھوں کی تعداد میں حج کے موقع پر اسرائیل کی تباہی اور بربادی کی دعا مانگتے ہیں مگر عمل سے عاری ہیں۔ اگر دعاؤں اور التجاؤں سے مسائل حل ہونے ہوتے تو مسلمان کبھی بھی میدان جنگ میں نہ لڑتے۔ غزو ہ بدر، خندق، فتح مکہ اور بیسیوں جنگیں جن میں رسول اکرمۖ بھی شریک ہوئے اس بات کا ثبوت ہیں کہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ عملاً بھی جنگ کرنی پڑتی ہے۔ آج پھر فسلطین لہو لہو ہے مگر امت مسلمہ صرف دعاؤں کے ورد سے کام چلا رہی ہے۔ فلسطین کا نوجوان آج کی دنیا کے ہر نوجوان سے زیادہ جری، غیرت مند اور کچھ کرنے کی لگن سے سرشار ہے۔ اگر اس کو موقع دیا جائے تو وہ یہودیوںکو بھی بہت پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ فلسطینی قوم نے ملک کے ایک ایک چپے کی آزادی کا عزم کررکھا ہے۔ فلسطینی نوجوان وطن کی آزادی کے لیے مسلح جہاد اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک وطن کا ایک ایک چپہ آزاد نہیں ہوجاتا۔
اسرائیل کے حوصلے اس لئے بلند ہیں کہ مسلم امہ بیانات اور نعروں پر اکتفا کرتی رہی ہے۔ عملی طور پر تاحال کچھ نہیں کیا گیا۔ دوسری طرف بیش تر عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر دوطرفہ تعلقات قائم کرنے کیلئے بات چیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا ناسور برطانوی استعمار پسندوں کا پیدا کردہ ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، اسلامی ممالک کی تنظیم و دیگر انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور تنظیمیں فلسطینی عوام پر ہونے والے بہیمانہ مظالم،جبر، بربریت پر جو بے حسی اور بے شرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں عالمی برادری کو اس کا سخت نوٹس لینا چاہئے اور اسرائیل کے خلاف ٹھوس اقدام اٹھانے چاہئے۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ابتداء سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ جو معاندانہ اور غاصبانہ رویہ اپنایا ہوا ہے، وہ آج تک جاری ہے۔ افسوس کہ مسلم امہ نے اس طویل عرصے میں ان دونوں ملکوں کا کوئی منصفانہ حل تلاش نہیں کیا۔ محض مسئلے کو ٹالنے اور حقائق سے آنکھیں چراتے رہے۔ یہ کاہلی خدا نہ کرے کسی بڑے انسانی المیہ میں نہ بدل جائے۔
٭٭٭