... loading ...
حمیداللہ بھٹی
رواں برس اگست میں چندریان 3کی کامیابی سے بھارت چاند پر سافٹ لینڈنگ کرنے والا دنیا کا چوتھا جبکہ چاند کے قطب جنوبی پر پہنچنے والا پہلا ملک بن گیا ہے ،یہ ایسی کامیابی ہے جوباعثِ رشک ہے۔ حالانکہ چین سمیت کچھ ممالک بھارت کی اِس کامیابی پر اپنے شکوک و شبہات نہیں چھپاتے بلکہ اپنے موقف کی صداقت میں کافی مضبوط دلائل اور شواہدپیش کرتے ہیں جن سے بھارتی دعوئوں کی نفی ہوتی ہے لیکن آیئے وقتی طور پر تصور کرلیتے ہیں کہ بھارت جس طرح کہہ رہا ہے بالکل ویسا ہی ہوا ہے پھر بھی شک کی گنجائش کو مکمل طورپراِس بناپر ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کچھ بڑھا بھی لیتے ہیں زیب ِداستاں کے لیے ،کے مصداق اپنے مشن کی کامیابی کے شواہد پیش کرنے کی بجائے جس طرح ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کو متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ شکوک و شبہات کو تقویت دینے کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ سائنس میں سب کچھ دلائل اور عملی شواہدسے پرکھا جاتا ہے۔ کسی بھی تھیوری پرعملی تجربات کے بغیر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ اِس حدتک شائبہ نہیں کہ دنیا بھارتی کامیابی سے کسی حدتک متاثر ہے اور اقوامِ عالم میں اِس کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے۔ تیزی سے بڑی معاشی طاقت بنتے بھارت کی سائنسی تحقیقات کو اہمیت حاصل ہونے لگی ہے۔ مگر تلخ سچ یہ ہے کہ بھارت کو جتنی بڑی کامیابی ملی ہے وہ بھی خودپسندی کی نذرہوگئی ہے۔ کامیابی کو سائنسدانوں کی محنت تسلیم کرنے کے برعکس برسرِ اقتدار بی جے پی حکومت اپنا کارنامہ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اِس منصوبے سے وابستہ سائنسدانواں اور ہُنر مندوں کے واجبات ادا کرنے سے گریزاں ہے۔ چندریان تھری مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والوں کوتنگ آکر تنخواہ ودیگر واجبات کی وصولی کے لیے مجبوراََ سڑکوں پر احتجاج کے لیے آنا پڑا یہ طرزِ عمل سائنسی ترقی کے منصوبوں میں حکومتی غیرسنجیدگی کاعکاس ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو سائنسی کامیابی سے زیادہ دنیا کو متاثر کرنے سے غرض ہے خیر فلم و دیگر ذرائع ابلاغ پر اچھی سرمایہ کاری سے وہ اپناموقف منوانے میںکسی حد تک کوششوں میںکامیاب بھی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا تادیر دنیاکوفریب دیا جا سکتا ہے؟ میرے خیال میں ایسا کسی طورممکن نہیں بلکہ جھوٹ کے حق میں چاہے جتنے دلائل پیش کیے جائیں آخر کار سچ آشکارہوکرہی رہتاہے اور سائنس تو ایسا شعبہ ہے جہاں جھوٹ پوشیدہ رکھنے کی گُنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔
دنیا کومزید متاثر کرنے کے لیے بھارت نے سائنسی ترقی کے کچھ نئے منصوبوں کا اعلان کیاہے جن کی خاص بات یہ ہے کہ 2040میں اپنا پہلا خلا باز چاند پر بھیجنے کا دعویٰ کیاگیا ہے ۔یہ اعلان نما دعویٰ کسی تحقیقاتی اِدارے کے سربراہ نے نہیں کیا بلکہ سماجی رابطے کی ایپ ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے نریندرا مودی نے بتایاہے کہ آج سے سترہ برس بعد بھارتی شہری چاند پر قدم رکھے گا۔اِس اعلان کے ساتھ وہ یہ بتانا نہیں بھولے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارت نے خلائی شعبے میں کافی پیش رفت کی ہے۔ 2030تک بھارت کا اسپیس اسٹیشن قائم کرنے کابھی منصوبہ ہے۔ نریندرامودی کے مطابق یہ فیصلے گگنیان مشن کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں کیے گئے۔ اِس کے تحت 2025تک پہلی بار تین خلا بازوں کو زمین کے مدار میں بھیجاجائے گا اور 21اکتوبرکو انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن گگنیان مشن کے لیے کریوموڈ یول بھی متعارف کرایا جائے گا ۔انسانوں کو خلا میں بھجنے سے قبل اسرو کی جانب سے اِس حوالے سے بیس تجربات کیے جائیں گے۔ علاوہ ازیں 2024میں ایک روبوٹ کو خلا میں بھیجنے کا بھی منصوبہ بنایاگیاہے۔ یہ ایسے فیصلے ہیں جوسائنسدانوں کے لیے کافی متاثر کُن ہیں اور بھارت کی سائنس میں بڑھتی دلچسپی کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہیں کہ کہنے اور کرنے میںاتنا تفاوت ہے جس سے بھارت کی غیرسنجیدگی کاتاثربن سکتاہے ۔نیز کیا کرنے والے صرف یہی کام ہیں اور بھارت کے دیگر تمام مسائل ختم ہو گئے ہیں؟ ایسا بالکل نہیں بلکہ بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہبی تفریق جُرم وتشدد تک جاپہنچی ہے، زورپکڑتی علیحدگی کی تحریکیں اسے ایک مضبوط ملک تسلیم کرنے سے روکتی ہیں ۔یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ بھوک و افلاس ہے اور جب سے بی جے پی جیسی جماعت برسرِ اقتدار آئی ہے حکومت کی پالیسیاں اِس حدتک نسل پرست ہوچکی ہیں جن کے تناظر میں اِسے سیکولر سمجھنا خواب وخیال ہوگیاہے لیکن حکومت کو ملک سے بڑھتا تشددختم کرنے سے بظاہر کوئی سرکارنہیں۔
مودی ترقی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے وہ شب وروزبھارت کو ایک سُپر پاور تسلیم کرانے کی تگ ودو میں تو ہیں لیکن ملک سے بھوک و افلاس ختم کرانے میں بظاہر اُنھیں کوئی دلچسپی نہیں۔گلوبل ہنگر انڈیکس نے ترقی کے دعوئوں کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے نئی رپورٹ میں بھارت کو بھوک کی عالمی فہرست میں شامل 125ممالک میں111ویںنمبر پر رکھاہے ۔حالانکہ یہ رپورٹ مرتب کرتے ہوئے بھی کافی حدتک احتیاط کا مظاہرہ کیا گیا تاکہ ناراضگی کا اندیشہ نہ رہے وگرنہ حالات رپورٹ میں بتائی گئی صورتحال سے بھی زیادہ خراب ہیں گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ نے بھارت کو چالیس ممالک کے اِس گروپ میں لاکھڑا کیا ہے جہاں عالمی سطح پر بھوک کو سنگین خطرہ قرار دیا گیا ہے اِس رپورٹ کے مطابق بھارت کا مجموعی اسکور28.7ہے لیکن مودی حکومت ایسی رپورٹس کو کوئی اہمیت نہیں دیتی بلکہ ترقی و خوشحالی کے اپنے دعوے تسلیم کرانے پربضدہے ،یہ بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ایسے بچوں کی تعداد بھارت میں ہے جو خوراک کی محرومی کے باعث وزن اور قد میں کمی کا شکار ہیں ۔علاوہ ازیں جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں پچاس فیصد سے زائد خواتین اور نوجوان خون کی کمی کا شکار ہیں۔ اسی ملک میں آج بھی ایسے کروڑوں گھرانے ہیں جو بجلی اورصاف پانی جیسی سہولتوں سے محروم ہیں ۔اِس ملک میں بے گھر افراد کی تعداد آج بھی کروڑوں میں ہے اسی بناپر جب مودی جیسا خود پسند شخص ترقی و خوشحالی کے بلند و بانگ دعوے کرتا ہے تو دنیا دعوئوں کی صداقت کے حوالے سے بے یقینی کا شکاررہتی ہے ۔چندریان تھری نے بھارت کا اقوامِ عالم میں قد کاٹھ بڑھایا ہے کیونکہ سائنسی ترقی سے قوموں کو آگے بڑھنے میں مدد ملتی ہے لیکن ملک میں مذہبی تفریق کو فروغ دے کراور غربت ختم کرنے جیسے منصوبوں کو نظرانداز کرنے سے اذہان میں یہ خیال پختہ ہوتا ہے کہ اُسے کھوج سے زیادہ دنیا کو متاثر کرنا عزیز ہے ۔ہرجگہ سے اسلحہ خرید کر انبار لگانے والا بھارت ماضی میں ایسا تاثر دینے میں مصروف رہا کہ وہ خطے کاایسا مضبوط اور طاقتور ملک ہے جو چین سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتاہے لیکن باربارہونے والی جھڑپوں کے دوران میدان میں ہزیمت اُٹھانے سے یہ دعویٰ تو مسلسل جھوٹا ثابت ہوتارہا، اب وہ اِس کوشش میں ہے کہ دنیا پر اپنی سائنسی ترقی کی دھاک بٹھائی جائے حالانکہ فلم اور سائنس دونوں شعبوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ فلم میں تو ہیرو بغیرا سلحہ بھی حریفوں کو پچھاڑ سکتا ہے مگر سائنس میں ایسے غیر حقیقی دعوئوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور اگر کسی طرف سے غلط دعوے کیے بھی جائیں تو جلد ہی تحقیقات سے غلط ثابت کر دیا جاتا ہے مگر مودی ذہنیت یہ سمجھنے سے قاصر ہے۔