وجود

... loading ...

وجود

لیڈر چاہیے یا ڈیلر

پیر 23 اکتوبر 2023 لیڈر چاہیے یا ڈیلر

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی سیاست اور معیشت دونوں آج ڈیلروں کے ہاتھ میں ہے جو ہر کام میں اپنا مفاد پہلے رکھتے ہیں اس کے بعد اگلی بات طے ہوتی ہے۔ اسی لیے تو سیاست میں سیاستدان ختم ہوگئے جو رہ گئے تھے انہیں چلہ کشی کے بعدسیاستدان سے ڈیلر بننے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ایک سیاسی لیڈر جب جلسہ کرتا ہے تو پھر اسے کروڑوں روپے خرچ کرکے عوام اکٹھی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ لوگ خود ہی نکلتے ہیں اپنے لیڈر کو دیکھنے کے لیے ،سننے کے لیے اور اس کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے اور ایسے جلسوں میں کسی کو پیسوں کا لالچ ہوتا ہے اور نہ ہی بریانی کے ڈبے کا بلکہ لوگ اپنے خرچے پر جلسہ گاہ آتے ہیں۔ مینار پاکستان میںہونے والے جلسہ میں حکومتی سرپرستی تو تھی ہی ساتھ میں پیسہ بھی تقسیم کیا گیا جو ایک اچھی بات تھی، ویسے بھی ہمارے پاس اب روزگار تو ہے نہیں مہنگائی نے جینا مشکل کررکھا ہے ان حالات میں اگر میڈیا انڈسٹری ،ٹرانسپورٹ انڈسٹری اور عام آدمی کا بھلا ہوگیا کسی کو ایک دن کا راشن مل گیا تو کسی کو ایک ماہ کا خرچہ مل گیا اور کسی نے تو سال بھر کی کسر نکال لی ۔یہ ماحول پہلے الیکشن کے دنوں میں ہوا کرتا تھا، پیسے دیکر شناختی کارڈ رکھ لیے جاتے تھے اور پھر ان ووٹوں کو اپنے حق میں ڈلوایا جاتا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ووٹوں کی خریدو فروخت میں جتنے ماہر ہیں، اس سے زیاد ہ یہ لوگ بندے خریدنے میں بھی ماہر ہیں لاہور کی آبادی اس وقت سوا کروڑ سے زائد ہے۔ اگر میاں نواز شریف کے استقبالیہ جلسے میں صرف لاہور سے ہی 2فیصد لوگ شامل ہوتے تودو لاکھ سے زائد کا مجمع صرف لاہوریوں کا ہی ہوجانا تھا لیکن اس جلسے میں لوگوں کو لانے کے لیے ملک بھر سے خصوصی ٹرینیں چلیں ہر ضلع کی انتظامیہ نے بسوں کو پکڑ پکڑ کر ن لیگیوں کے حوالے کیا ۔پیسوں کا لالچ دیا گیا اور نہ جانے کیا کیا وعدے کیے گئے لیکن اسکے باوجود اتنا بڑا جلسہ نہ ہوسکا جتنا بڑا انتظام کیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس جلسے کو عمران خان کے جلسے سے بھی ملانے کی کوشش کی اور انکا خیال ہے کہ 2011 میں تحریک انصاف کا جلسہ جنرل پاشا نے کامیاب کروایا تھا ۔میں صرف انہیں اتنا کہوں گا کہ وہ 21 اکتوبر کے اس جلسے کوبغور دیکھیں اور سوچیںکہ 3 ماہ کی میڈیا مارکیٹنگ، ساری ریاستی مشینری کا آزادنہ استعمال، عوام کو پیسے اور کھانے کا لالچ ،سیکورٹی فورسز کے سیلوٹ اور درجہ چہارم کے سرکاری ملازمین کی حاضری یہ سب مل کر 4 بار حکومت کرنے والی جماعت کا جلسہ کامیاب نہیں کروا سکے تو 2011 کے جلسے سے پہلے تحریک انصاف کی کبھی حکومت بھی نہیں تھی تو جنرل پاشا اکیلے نے جلسہ کامیاب کیسے کروا دیا۔
میاں نواز شریف کے جلسے کا اگر محتاظ انداز میں تخمینہ لگایا جائے تو پرنٹ میڈیا پر اشتہارات تقریبا 6 کروڑ،الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات تقریبا 14 کروڑ،لوکل کیبل ٹی وی پر اشتہارات تقریبا 4.5 کروڑ،پروڈکشن ہاؤس کے ذریعے ویڈیو پروڈکشن کے اخراجات تقریبا ڈیڑھ کروڑ،فلیکس بینرز وغیرہ کے اخراجات تقریبا 8 لاکھ فی ڈسٹرکٹ اوسطاً 5کروڑ،سوشل میڈیا مہم کے اخراجات تقریبا 1.3 کروڑ، بسوں، ٹرینوں، ویگنوں اور دیگر ٹرانسپورٹ کے اخراجات تقریبا 27 کروڑ،پرائیویٹ گاڑیوں کے اخراجات تقریبا 60 لاکھ،جلسے کے انتظامات وغیرہ تقریبا 5 کروڑ،کھانے پینے کا انتظام تقریبا 5 کروڑیہ کم و بیش تقریبا 72 سے 73 کروڑ کے لگ بھگ رقم بنتی ہے جبکہ اصل رقم اس سے بھی کہیں زیادہ ہے اور حکومتی ایجنسیوں کی اندر کھاتے والی رپورٹ کے مطابق جلسے میں 40 سے 42 ہزار لوگ تھے یعنی ایک بندے پر اٹھنے والا خرچ تقریباً 17 ہزار روپے بنتا ہے۔ ان اخراجات میں وہ 2000 سے 5000 فی کس جو نقد دیے گئے ہیں ان لوگوں کو وہ بھی اگر شامل کر لیں تو جلسے کے اندازاً اخراجات ایک ارب کے لگ بھگ بنتے ہیں اور فی بندہ خرچہ 20 سے 22 ہزار بن جاتا ہے۔ یہ تمام اخراجات کم از کم تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چارٹرڈ فلائٹس، ہیلی کاپٹر کے اخراجات، پھولوں کی پتیاں اور دیگر ششکوں کے خرچے وہ الگ ہیں جو اس میں شامل نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پورے پاکستان سے ایک لاکھ لوگ بھی جلسے میں شریک نہیں ہوئے اگر میاں نواز شریف عوامی لیڈر ہوتے تو پھر ہرشہر سے صرف 5 ہزار لوگ بھی نکلتے تو صرف پنجاب سے پانچ لاکھ سے زائد بندہ ہونا چاہیے تھا۔ سندھ کے پی کے اور دیگر علاقوں سے لائے گئے لوگوں کی تو بعد میں گنتی شروع ہونا تھی۔ کیونکہ پنجاب کے اضلاع کی آبادی اوسطا 35 لاکھ ہے۔ لاہور کی آبادی ایک کروڑ 12 لاکھ ہے اوراسکے اردگرد کے 5 اضلاع کی کل آبادی 2 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ ا ب آپ جلسے میں لائے جانے والوں کی تعداد دیکھ کر میاں صاحب کی مقبولیت اور قبولیت کااندازہ لگالیں ۔رہی بات انکی تقریر کی جس میں انکے چہرے پر مایوسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا نہ ہی انہوں نے ماڈل ٹاؤن واقعہ کا ذکر کیااور نہ ہی انہوں نے بے گناہ افراد کی گرفتاریوں کی مذمت کی لیکن مہنگائی کا رونا روتے رہے اور ساتھ میں اپنا اور بھائی کا دور بھول گئے۔ اصل میں اس سارے کھیل کا مقصدایک سزا یافتہ مجرم کو پروٹوکول کے ساتھ لانے والے طاقتوروں کا پیغام بھی ہے مجھے تومحسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیرخان کی بے بسی بھی یاد ہے اور انکی ملک کے لیے خدمات کا اعتراف بھی ہے جبکہ دوسری طرف دیکھتا ہوں تو ایسے شخص پر پھول کی پتیاں نچھاور کرنے سے پہلے ہماری ایوی ایشن اتھارٹی میاں صاحب کا طیارہ فضا میں دیکھتے ہی خوش آمدید کا نعرہ لگاتی ہے جس نے کارگل سے لے کر اپنے آرمی چیف پرویز مشرف کا طیارہ دشمن ملک اتارنے کا حکم دیا ، ممبئی حملوں کا الزام اپنی فوج پر لگایا۔ ڈان لیکس کے ذریعے ملکی سلامتی سے کھیلا اور اب اسی شخص کو چوتھی بار حکمرانی دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ میاں نواز شریف پاکستان سے اپنا علاج کروانے باہر گئے تھے اور پھر لندن ، دبئی ، جدہ سے کلیرنس اور سب یقین دہانیوں کے بعدانکی ملک واپسی ممکن ہوئی جبکہ دہلی اور واشنگٹن سے blessings بھی آ چکی ہے اورمقامی یقین دہانی بھی بھر پور ہے۔ اسی ڈیل کے نتیجہ میںمیاں صاحب پاکستان واپس تشریف لائے اب چھانگا مانگا سیاست کے بانی کو دیکھتے ہیں وہ کیا نئی حکمت عملی اپناتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت انکے مقابلہ میںبھی کوئی نہیں اورمیدان بھی صاف ہے۔ لیڈروں کے اس بحران میں جہاں ڈیلر ہی ڈیلر ہوں وہاں پیپلز پارٹی تو ویسے بھی اپنے زخم چاٹ رہی ہے اور سمجھتی ہے کہ میثاق جمہوریت کا اصل فائدہ تو میاں نوازشریف نے اٹھایاجبکہ جنہوں نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا وہ عوام ہے جنہیں اب دیکھنا چاہیے کہ انہیں لیڈر چاہیے یا ڈیلر۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر