... loading ...
عماد بزدار
ڈاکٹر اشتیاق نے زور دے کر جناح پر ہندو دشمنی کا الزام بھی لگایا۔ ڈاکٹر صاحب کے لگائے گئے الزام سے پہلے اس پر بات کرتے ہیں کہ یہ الزام لگایاکیوں جاتا ہے ؟ مقصد اس کے پیچھے یہ ہے پاکستان بنانے کے پیچھے کوئی وجہ نہیں تھی، یہ نفرت کی بنیاد پر بنائی گئی ایک ریاست ہے ہندوؤں کے خلاف تعصب کی بنیاد پر اس ریاست کے عمارت کی تعمیر ہوئی ۔ کسی کے پاس وقت نہیں کہ وہ گہرائی میں جا کر جناح کے مقدمے کو سمجھے اس لئے یہ کام آسان ہے کہ ان پر لیبل لگا دو ،وہ متعصب تھے وہ ہندو دشمن تھے وہ پاک لوگوں کی ریاست بنانا چاہ رہے تھے ۔15نومبر 1941ء کو چمن لال کے خط کے جواب میں اسے مخاطب کرتے ہوئے بانی پاکستان نے بیزاری سے لکھا کہ
”اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی معلومات کس قدر محدود ہیں جب آپ یہ کہتے ہیں کہ’پاکستان کا مطلب ایک
مقدس سرزمین ہے”۔
مالی و مادی مفادات کے اسیر و حریص جناح پر ہندو دشمنی کا الزام لگاتے ہوئے پروفیسر اشتیاق بمبئے کے جناح منزل بیچنے کی کہانی یوں بیان کرتے ہیں
”آپ کو ایک اور ایگزیمپل میں دے دوں کیونکہ وہ ا س سے اٹیچ ہے جب پاکستان گیا
بنJinnah sb was Governor General of Pakistanتو جو
انڈین ہائی کمشنر تھے پہلے یہاں پہ سری پرکاشا ، یہ جناح کی کتاب کے اندر پوری ڈیٹیلز نہیں
ہیں لیکن اردو ترجمہ ہوگیا جس میں ہم نے وہ بھی لے آئے ہیں تو سری پرکاشا کو کہا کہ تم نہرو
کو کہو کہ یہ جو گھر بمبئی والا ہے میں نے ایک ایک اینٹ اپنی پسند سے بنایا ہے تو یہ آپ پلیز
ایکوائر نہ کریں اس کو آپ کرائے پہ دے دیں اور کرائے پہ آپ کوئی انڈینز یعنی مسلمان ،
ہندوؤں کو نہیں دینا یورپیئنز کو دینا ہے اور ہر مہینے 3 ہزار روپیہ مجھے کرائے کا ملنا چاہئے ”۔
سری پرکاش نے اپنی کتاب میں کیا لکھا وہ میں آگے چل کر بتاؤنگا پہلے جناح صاحب کی ہندو دشمنی کی کچھ ”مثالیں ”آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔کانجی دوارکاداس 1943 میں بانی پاکستان کے ساتھ اپنی ملاقات کی کہانی
یوں بیان کرتے ہیں
”جناح جب دلی سے لوٹے (1943) تو میں ان سے ملنے گیا۔اس موقع پر میں نے کہا کہ میرے
خیال میں کانگریس کا رویہ قطعی طور پر منفی ہو چکا ہے ،جس سے ملک کو شدید نقصان پہنچ ریا ہے۔ اس طرح
سوراج نہیں ملے گا۔ کیوں نہیں وہ صرف مسلمانوں کے بجائے کل ہند پیمانے پر سب فرقوں کی قیادت
کرنے کے لیے تیار ہو جائیں؟ میں نے انہیں یاد دلایا کہ ہوم رول لیگ کے زمانے میں اور اس سے قبل
بھی فی الواقع وہ کل ہند سطح کے لیڈر رہ چکے ہیں اور آج بھی ہندو مسلمان اور دوسرے فرقوں کی غیر کانگریسی
جماعتوں کو وہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔میں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جہاں تک ہندوؤں کا
تعلق ہے وہ جناح کو قیادت حاصل کرنے کے لیے ان کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں”۔
محمد علی جناح کے ہوم رول لیگ کے ہندو ساتھی سیاستدان 1943 میں”ہندو دشمن”جناح کو قائل کرنے کی کوشش کررہے کہ آپ ہندوؤں کی قیادت بھی کرو لیکن پروفیسر اشتیاق کی نظر میں وہ اپنا ایک گھر کسی ہندو کو کرائے پر دینے پر تیار نہیں تھے ۔
جناح کی”ہندو دشمنی”کی کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوتی ۔ بطور گورنر جنرل پاکستان ان کے سیکورٹی آفیسر ایف ڈی ہنسوٹیا کے مطابق ”ان کا جو گھر کا عملہ تھا اس میں بھی ہندو تھے ، کرسچین تھے اور مسلمان تھے ۔ ان کا خاص بٹلر ، ہیڈ بٹلر جوزف کرسچین تھا گوا کا۔ ہاؤس کیپر کرسچین عورت تھی مسز بلیک تھی۔ باورچی بروا بنگالی تھا، ہندو تھا، ان کا جو دھوبی تھا وہ بھی ہندو تھا۔ ان کے بیرے کانجی اور موجی کرکے ہندو تھے ۔ کانجی جو تھا موجی کا داماد تھا”۔
ایم ایس ایم شرما نے اپنی کتاب Peeps into Pakistan میں جنا ح صاحب کی” ہندو دشمنی” کا ایک اور واقعہ پیش کیا۔ ایم ایس ایم شرما روزنامہ گزٹ آف کراچی کے ایڈیٹر تھے ۔تقسیم کے بعد اس اخبار کو رام کرشن ڈالمیا نے خرید لیا۔ بانی پاکستان کو جب پتہ چلا کہ ایم ایس ایم شرما دہلی میں ہیں تو یوسف ہارون کو کہا کہ شرما کو کال کرکے بلائیں۔ شرما کے مطابق جب میں نے اسے بتایا کہ اخبار رام کرشن ڈالمیا نے خریدا تو شرما کے مطابق
Jinnah beamed with pleasure That is very good news, my
dear fellow! I say it is very, very good news. He kept on
repeating these words at least four time.
ایم ایس ایم شرما کو کہا کراچی میں ٹھہرے رہو مزید اسے یقین دلانے کے لئے ”ہندو دشمن” جناح نے دلیل دی کہ ”کیا میں نے ایک لفظ وجے راگھوچاریئر، پندت مالویہ، سچد آنند سنہا یا سی پی راما سوامی کے خلاف کہا ہے ؟یہ سب مجھے سنگسار کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ یہ میرے ذاتی دوست ہیں۔ میں ان کو جواب نہیں دونگا”
‘ہندو دشمن جناح’ جو پروفیسر اشتیاق کے مطابق اپنا گھر کسی ہندو کو کرائے پر نہیں دینا چاہتے تھے ، ان کا بمبئے ہی نہیں دہلی میں بھی ایک گھرتھا۔ پروفیسر اشتیاق صاحب جناح مخالف جذبات سے مغلوب ہوکر شاید بھول گئے دہلی کا جناح منزل جناح صاحب نے اپنے ایک ہندو دوست راما کرشنا ڈالمیا کو بیچا۔ شاید یہ بات بھی پروفیسر صاحب کی یاداشت سے محو ہوچکی ہوگی کہ جناح کے سیکولر ہندو دوست نے سب سے پہلے جناح کے گھر کو گنگا کے پانی سے دھویا ،کیونکہ اس سے پہلے وہاں ایک مسلمان (جناح) رہائش پذیر تھے ۔اس کے بعد جناح صاحب کے گھر پر لگے مسلم لیگ کے جھنڈے کو اتار کر اس کی جگہ تحفظ گاؤ کشی کا جھنڈا لہرایا۔جہاں تک سری پرکاش اور جناح صاحب کی گفتگو کا تعلق ہے سری پرکاش کی کتاب میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی جس میں جناح صاحب نے سری پرکاش کو منع کیا ہو کہ میرا گھر کسی ہندو کو نہ دینا یہ بات پروفیسر صاحب نے جناح صاحب کو ہندو دشمن ثابت کرنے کے لیے خود سے گھڑی تھی۔Pakistan Birth and Early Days میں سری پرکاش لکھتے ہیں:۔
Sri Prakasa, don,t break my heart. Tell Jawaharlal not to
break my heart. I have built it brick by brick. Who can live
in a house like that? What fine verandahs! It is a small house
fit only for a small European family or a refined Indian prince.
You do not know how I love Bombay. I still look forward to
going back there. Really, Mr. Jinnah I said, you desire to go back
to Bombay. I know how much Bombay owes to you and your great
services to the city.May I tell the Prime Minister that you are wanting
to go back there? He replied: Yes, you may.
اوپر دیے گئے حوالے پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیسے اپنے تعصبات کے زیر اثر علمی نقاب اوڑھے ایسے رانگ نمبر تاریخی حقائق مسخ کرتے ہیں۔(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔