... loading ...
معصوم مرادآبادی
غزہ پر وحشیانہ بمباری کے بعد اسرائیل نے زمینی حملے کی تیاری مکمل کرلی ہے ۔ گیارہ لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کے لیے دئیے گئے الٹی میٹم کی معیاد ختم ہوچکی ہے ۔اسرائیل نے گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران غزہ میں جو آگ برسائی ہے ، اس کے نتیجے میں سیکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں اور چار لاکھ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔زمینی کارروائی کے دوران اسرائیل نے حماس کے خلاف جو کچھ کرنے کو کہا ہے اگر وہ درست ہے تو یہ غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کارروائی ہوگی۔غزہ میں تاریخ کابدترین ظلم وستم جاری ہے ۔ سیکڑوں بے گناہ فلسطینی جن میں بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے شامل ہیں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ عالیشان عمارتیں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہیں۔میزائل حملوں کے بعدحماس کو ملیا میٹ کرنے کے لیے غزہ پرجو کارپٹ بمباری کی گئی ہے ، اس میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔یوروپ و امریکہ کوصرف اتنا یاد ہے کہ اس بار شروعات حماس نے کی ہے اور ہزاروں میزائلوں سے اسرائیل کی چولیں ہلادی ہیں، مگر کیوں؟ اسی کیوں میں ہر سوال کا جواب پوشیدہ ہے ۔کون نہیں جانتا کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی بربریت روز کا معمول بن چکی ہے ۔اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف بدترین جرائم کا ارتکاب کرتا رہا ہے ۔شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو، جب اسرائیلی فوجی غزہ اور فلسطین میں ظلم وستم کی تاریخ رقم نہ کرتے ہوں،لیکن مہذب دنیا اسے نہ جانے کیا سمجھ کرپی جاتی ہے ۔
فلسطینیوں کو پوری دنیا نے ان کے حال پر شاید یہ سمجھ کر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ پیدا ہی اسی لیے ہوئے ہیں۔ نہ تو ان کے کوئی انسانی حقوق ہیں اور نہ ہی ان کا اپنا کوئی وطن ہے ۔مہذب دنیا کی خاموشی تب ٹوٹتی ہے جب مظلوموں کی طرف سے کوئی دفاعی کارروائی انجام دی جا تی ہے ۔گزشتہ ہفتہ حماس نے اسرائیل کے خلاف جو کچھ کیا، وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق تھا۔یہ پہلی بار ہوا ہے کہ خود کو دفاعی طورپر سب سے مضبوط قرار دینے والے اسرائیل کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ دنیا اسے بدترین دہشت گردی سے تعبیر کررہی ہے ، لیکن اسے یہ یاد نہیں ہے کہ اسرائیل، فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ کرتا رہا ہے ، وہ کیا ہے ؟کون نہیں جانتا کہ اسرائیل ایک ناجائز مملکت ہے اور اس نے فلسطینیوں سے ان کی زمین اور تمام بنیادی حقوق چھین کر اپنی ناجائزبستیاں بسائی ہیں۔ 1947 میں شروع ہوئی ظلم وستم اور جبرواستبداد کی اس داستان کو اب 75 سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے ۔ وہ اسرائیل جو چھوٹے سے خطہ کا مالک تھا، آج پورے فلسطین پر قابض ہے ۔ اس نے 23 لاکھ فلسطینی باشندوں کو غزہ کی ایک ایسی پٹی میں محصورکرکے رکھ دیا ہے جہاں زندہ رہنے کے سامان بہت کم ہیں۔٥٢میل لمبی اور چھ میل چوڑی غزہ پٹی دنیا کی گنجان ترین آبادیوں میں سے ایک ہے اور وہاں حماس کی حکومت ہے ، جو اسرائیل کی بالا دستی کو کسی طورقبول نہیں کرتا۔وہی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی مضبوط آواز ہے ۔اس بار مزاحمت کے اس قلعہ کو پوری طرح منہدم کردینے کے منصوبے ہیں۔ مغربی دنیا اندھی نہیں تو کانی ضرور ہے کہ اسے اپنے ہی وطن میں بے وطن کردئیے گئے فلسطینیوں کی اجیرن زندگی اور انسانی حقوق نظر نہیں آتے ۔ وہ صرف ظالم وجابر اسرائیل کی سنتی ہے ۔ عالمی پیمانے پر انصاف قایم کرنے کے ٹھیکیدار اقوام متحدہ کو اپنی بے بسی پر شرم کیوں نہیں آتی۔ ایک دونہیں سیکڑوں ایسی قراردادیں جنھیں اس نے اسرائیل کے خلاف واضح اکثریت سے منظور کیا ہے ، لیکن اسرائیل نے ان تمام قراردادوں کو ٹھوکروں پر رکھا ہے اور وہ امریکہ کی مدد سے فلسطینیوں کے خلاف بدترین ظلم وستم جاری رکھے ہوئے ہے ۔ امریکہ تو شروع سے ہی اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی رہا ہے اور اس بار بھی جب کہ وہ غزہ میں شعلے برسا رہا ہے تو امریکہ انھیں سرد کرنے کی بجائے ان میں کودکر اسرائیل کی مدد کرنا چاہتا ہے ۔خطرناک ہتھیاروں سے لیس امریکہ کا سب سے بڑابحری بیڑا غزہ کی سرحد پر لنگر اندازہوچکا ہے ۔برطانیہ نے بھی اسرائیل کو فوجی امداد بھیجی ہے ۔
دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی وحشیانہ نسل کشی کا مجرم ہے ۔ دنیا کا وہ کون سا ظلم ہے جو اس نے نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں پر نہیں کیا۔بوڑھے ، بچے ، عورتیں اور جوان سبھی اس کی بربریت کا نشانہ بنے ہیں۔ اگر آپ پچھلے چند برسوں کے اعداد وشمار اکھٹا کریں تو حقیقت حال عیاں ہوتی ہے ۔2008سے اب تک اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں جوڈیڑھ لاکھ فلسطینی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں،ان میں 33ہزار بچے شامل ہیں جبکہ مزاحمتی حملوں میں ہلاک ہونے والے اسرائلیوں کی تعداد بہت معمولی ہے ۔تازہ تصادم کے دوران شاید پہلا موقع ہے کہ اسرائیل کو جانی نقصان اٹھانا پڑاہے ۔ کہا جارہا ہے کہ حماس کے حملوں میں ایک ہزار سے زائد اسرائیلیوں کی ہلاکت ہوئی ہے اورحماس نے 100سے زائد اسرائیلوں کو یرغمال بنالیا ہے جنھیں وہ ڈھال کے طورپر استعمال کررہا ہے ۔پوری دنیا اس بات پر حیرت زدہ ہے کہ آخر دنیا بھرکی جاسوسی کرنے والا اسرائیل کا خفیہ نظام اس بار کیسے چوک گیا اور اسے حماس کے حملوں کی پیشگی اطلاع کیوں نہیں ملی؟حماس نے کئی گنا بڑی اور جدید ترین اسلحوں سے لیس اسرائیلی فوج کو چکمہ دے کر ایک کامیاب اور بڑی کارروائی کیسے انجام دی۔یہ پہلا موقع ہے کہ حماس کی منصوبہ بندی کامیاب ہوئی ہے اور اس نے اسرائیل کے ہوش اڑادئیے ہیں۔ حواس باختہ اسرائیلی حکومت اول فول بک رہی ہے ۔حماس نے اسرائیل پر اس حملے کے لیے ایک ہزار نوجوانوں کی خصوصی فورس تیار کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس کی اس کارروائی کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین ایک بار پھر دنیا کے سنگین ترین مسائل میں سرفہرست آگیا ہے ۔ اس طرح یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی جائز سرزمین واپس کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قایم نہیں کیا جاسکتا۔ حماس نے یہ کارروائی ایک ایسے موقع پر انجام دی ہے جب سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قایم ہونے کی اطلاعات تھیں۔ اسرائیل کو یقین تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ رشتے قایم ہونے کے بعد باقی مسلم دنیا بھی اسے تسلیم کرلے گی۔ ایسے میں شاید حماس کو یہ محسوس ہوا کہ مسئلہ فلسطین ہمیشہ کے لیے ٹھنڈے بستے میں چلا جائے گا۔
اوسلوامن معاہدے کے تحت فلسطینی غزہ اور مغربی کنارے پراپنی 22فیصد زمین واپس چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی ایک آزاد اور خودمختار مملکت بناکر امن چین سے رہ سکیں، لیکن اسرائیل اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود مسلسل اس کی خلاف ورزی کررہا ہے اور اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں پر گامزن ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1993میں جب اوسلو معاہدہ طے پایا تھا تو کہا گیا تھا کہ اسرائیل اگلے پانچ برسوں میں اس پر عمل کرے گا، لیکن اس معاہدے کو اب تیس سال کا طویل عرصہ گزرچکا ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ کے کاندھوں پر اس امن معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ داری تھی،لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔پچھلے سولہ برس سے اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کررکھا ہے اور اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل بناکر رکھا ہوا ہے ۔غزہ کے ہوائی اڈہ کو اسرائیل نے بیس سال پہلے ہی برباد کردیا تھا۔یہ وہ مشکل ترین حالات ہیں جن میں فلسطینی زندگی بسر کررہے ہیں۔حالیہ دنوں میں وہاں پر بجلی،پانی،رسد اور دیگر لازمی اشیاء کی فراہمی روک دی گئی ہے ۔اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے اپنے سب سے قریبی دوست وزیراعظم نریندر مودی کو فون کرکے ان کی اخلاقی حمایت کا شکریہ ادا کیا ہے ، کیونکہ ہمارے وزیر اعظم ان اولین رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنھوں نے حماس کی دفاعی کارروائی کو بدترین دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی پرزور مذمت کی ہے ۔ انھوں نے وزیراعظم نتن یاہو کو یقین دلایا ہے کہ وہ آگے بھی اس کی حمایت جاری رکھیں گے ۔ المیہ یہ ہے کہ وزیراعظم مودی نے ابھی تک غزہ پر کی جارہی وحشت وبربریت پرزبان نہیں کھولی ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی نہرو کے زمانے سے ہی فلسطین کی حامی رہی ہے ۔ ہندوستان نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پی ایل اوکے سربراہ مرحوم یاسر عرفات ہندوستان کو اپنا وطن ثانی قرار دیتے تھے اور بار بار یہاں آتے تھے ۔ آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی ان کی منہ بولی بہن تھیں۔وزیراعظم راجیو گاندھی نے بھی اس پالیسی کو برقرار رکھا، لیکن بدقسمتی سے نرسمہاراؤ کے دور اقتدار میں اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے مکمل سفارتی رشتے قایم ہوئے اور دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے سفارتخانے بھی کھل گئے ۔ باجپئی کے دور میں ان رشتوں میں نئی توانائی پیدا ہوئی اور ان کے وزیرخارجہ جسونت سنگھ اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیرخارجہ بنے ۔ انھوں نے یروشلم میں دیوار گریہ کو بوسہ دے کر کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھہمارے سفارتی رشتوں میں تاخیر کے لیے ہندوستان میں جاری اقلیتوں کی منہ بھرائی کی پالیسی ذمہ داررہی۔بعدازاں یو پی اے کے دور اقتدار میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بائیں بازو کی جماعتوں کے دباؤ میں اسرائیل سے کسی حد تک دوری بنائی، لیکن2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سارے پردے اٹھادئیے گئے ۔مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیراعظم بنے اور پھر وزیراعظم نتن یاہو نے بھی ہندوستان کا دور ہ کیا اور کہا کہ اب ہندوستان اور اسرائیل کے رشتوں کی حد آسمان ہے ۔آج ہندوستان دفاعی امور میں اسرائیل پر سب سے زیادہ انحصار کرتا ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی رشتوں کی بھی طویل داستان ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار نے فلسطین کی حمایت کے دیرینہ ہندوستانی موقف سے منہ موڑلیا ہے ۔علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے ان طلباء پر مقدمہ قائم کرلیا گیا ہے جنھوں نے فلسطینی کازکی حمایت میں نعرے لگائے تھے ۔دوسری طرف ہندوستان میں اسرائیلی سفیر کو اتنے ہندوستانیوں نے ر ضا کارانہ امداد کی پیشکش کی ہے کہ وہ بقول خود اسرائیلی ڈیفنس فورس کی ایک یونٹ تشکیل دے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔