... loading ...
سمیع اللہ ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظ بھی بچوں کی طرح ہوتے ہیں،معصوم اوربھولے بھالے بچوں کی طرح،بہت محبت کرنے والے،لاڈوپیارکرنے والے،نازو ادا والے،تنگ کرنے والے،روٹھ جانے والے اورپھربہت مشکل سے ماننے والے یاہمیشہ کیلئے منہ موڑلینے والے۔کبھی تو معصوم بچوں کی طرح آپ کی گودمیں بیٹھ جائیں گے پھرآپ ان کے بالوں سے کھیلیں،ان کے گال تھپتھپائیں تووہ کلکاریاں مارتے ہیں، انہیں چومیں چاٹیں بہت خوش ہوتے ہیں وہ۔آپ ان سے کسی کام کاکہیں تووہ آمادہ ہوجاتے ہیں۔محبت فاتح عالم جوہے۔کبھی تنگ کرنے پرآجائیں تو ان کارنگ انوکھاہوجاتاہے۔آپ ان کے پیچھے دوڑدوڑکرتھک جاتے ہیں لیکن وہ ہاتھ نہیں آتے۔ کہیں دم سادھے چھپ کربیٹھ جاتے ہیں اورآپ انہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔آپ ہلکان ہوں توہوجائیں وہ آپ کو تنگ کرنے پراترے ہوتے ہیں اورجب آپ کی ہمت جواب دے جاتی ہے تووہ”دیکھومیں آگیا”کہہ کرآپ کے سامنے کھڑے مسکرانے لگتے ہیں۔
بچوں کی طرح لفظوں کے بھی بہت نازنخرے اٹھانے پڑتے ہیں اوراگراللہ نہ کرے وہ روٹھ جائیں اورآپ انہیں منانے کی کوشش بھی نہ کریں تب توقیامت آجاتی ہے۔ایک دم سناٹا، تنہائی اداسی،بے کلی آپ میں رچ بس جاتی ہے،آپ خودسے بھی روٹھ جاتے ہیں۔ہاں ایساہی ہوتاہے۔آپ کاتومیں نہیں جانتا،میرے ساتھ توایساہی ہے۔میں گزشتہ ایک ہفتے سے اسی حالت میں ہوں۔کچھ سجھائی نہیں دیتا، بے معنی لگتی ہے زندگی،دوبھرہوگیاہے جینا !!لیکن پھروہی جبرکہ بڑامشکل ہے جینا،جیے جاتے ہیں پھربھی۔
وطنِ عزیزکی طرف نگاہ اٹھتی ہے تودل میں ایک کسک سی پیداہوجاتی ہے کہ آخرہم کہاں جارہے ہیں؟پھرسوچتاہوں کوئی بھی ہو ،جب طاقت ہواس کے پاس ہتھیاربندجتھہ ہو، حکم بجالانے والے خدام ہوں،راگ رنگ کی محفلیں ہوں،جام ہوں،عشوہ طرازی ہو،دل لبھانے کاسامان ہو،واہ جی واہ جی کرنے والے خوشامدی اوربغل بچے ہوں…….تواس کے دیدے شرم وحیا سے عاری ہوجاتے ہیں۔شرم وحیاکااس سے کیالینادینا!چڑھتاسورج اوراس کے پوجنے والے بے شرم پجاری جن میں عزت ِنفس نام کوبھی نہیں ہوتی۔بس چلتے پھرتے روبوٹ۔ تب طاقت کانشہ سرچڑھ کربولتاہے۔عدلیہ جن افرادکوملکی دولت لوٹنے کا مجرم ٹھہراتی ہے،انہی کوبلاکروزارت عطاکردی جاتی ہے کہ کرلوجوکچھ کرناہے ہم تو دھڑلے سے ایسے ہی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔
6ستمبر65کی رات بھی عجیب سی تھی۔بے کلی کم ہونے کانام نہیں لیتی تھی اوربالآخرصبح ہوئی توپتہ چلاکہ مکارہندوبنئے نے پاکستان پر حملہ کردیاہے اورپہلی مرتبہ ساری قوم کوایسایکجا ، مضبوط اورمتحددیکھاکہ پہاڑوں سے ٹکراجانے کاحوصلہ پیداہو گیااورہرشہری محاذپرجانے کیلئے بے چین نظرآرہاتھالیکن مجھے آج کے حالات کے برعکس ان کرداروں کاذکرکرنا ہے کہ جن کاذکرآنکھوں کی ٹھنڈک،دلوں کاسکون اوراطمینان وفرحت بخش ہے۔ہاں کوئی بھی ہو،کہیں بھی ہو،انکارسنناتواس کی لغت میں ہی نہیں ہوتا۔انکارکیاہوتاہے وہ جانتاہی نہیں ہے لیکن ہوتایہی آیا ہے،ہوتایہی رہے گا۔ منکرپیداہوتے رہتے ہیں۔نہیں مانتے کا نعرہ مستانہ گونجتارہتاہے،تازیانے برستے رہتے ہیں، کھال کھنچتی رہتی ہے،خون بہتارہتا ہے لیکن عجیب سی بات ہے،جتنی زیادہ شدت سے نہیں مانتے کی آوازکودبانے کی کوشش کی جاتی ہے،ہرجتن ہرحربہ اپنایاجاتاہے،وہ آوازاسی شدت سے گونجنے لگتی ہے چاروں طرف ، نہیں مانتے کارقص ،رقص ہی نہیں رقصِ بسمل،نہیں مانتے نہیں مانتے کانغمہ اورگھومتاہوارقاص۔
کیابات ہے جی،کھولتے ہوئے تیل کے اندرڈالاجاتاہے،تپتے صحرامیں لٹاکر،سینے پرپہاڑجیسی سلیں رکھی جاتی ہیں،برفانی تودوں میں کودجاتے ہیں لیکن نعرہ مستانہ بلندہوتارہتا ہے۔رقص تھمتاہی نہیں اوریہ توحیدکارقص،جنوں تھمے گابھی نہیں۔زمین کی گردش کوکون روک سکاہے!بجافرمایاآپ نے،بندوں کوتوغلام بنایاجاسکتاہے،ان پررزق روزی کے دروازے بندکیے جاسکتے ہیں،یہ دوسری بات ہے کہ ہم نادان صرف روپے پیسے کوہی رزق سمجھ بیٹھے ہیں۔بندوں کوپابہ زنجیرکیاجاسکتاہے،قیدخانوں میں ٹھونس سکتے ہیں آپ، عقوبت خانوں میں اذیت کاپہاڑان پرتوڑسکتے ہیں۔پنجروں میں بندکر سکتے ہیں،معذورکرسکتے ہیں ،بے دست وپاکرسکتے ہیں،ان کے سامنے ان کے پیاروں راج دلاروں کی توہین کرسکتے ہیں،انہیں گالیاں دے سکتے ہیں، جی جی سب کچھ کرسکتے ہیں۔
صدیوں سے انسان یہ دیکھتاآیاہے،انکارکرنے والوں کوبھوکے کتوں اورشیروں کے آگے ڈال دیاجاتاتھا،اس جگہ جہاں چاروں طرف خلق خداکا ہجوم ہوتااورایک جابرتخت پر براجمان ہوکریہ سب کچھ دیکھتااورقہقہے لگاتااورخلق خداکویہ پیغام دیتاکہ انکار مت کرنا، کیا تو پھریہ دیکھویہ ہوگاتمہارے ساتھ بھی۔ہرفرعونِ وقت اپنی تفریح طبع کیلئے یہ اسٹیج سجاتا ہے ، سجاتارہے گا۔ایسا اسٹیج جہاں سب کرداراصل ہوتے ہیں،فلم کی طرح اداکارنہیں،لال رنگ نہیں،اصل بہتاہواتازہ خون،زندہ سلامت انسان کا،رونا چیخنابھنبھوڑناکاٹنا سب کچھ اصل۔بالکل اصل۔ہوتارہاہے اورہوتارہے گا، فرعونیت تو ایک رویے کانام ہے،ایک بیماری کانام ہے۔ایک برادری ہے فرعونوں کی،فرعونوں کی ہی کیا۔ہامان کی، شدادکی،قارون کی،ابولہب کی،ابوجہل کی۔یہ برادری کانام ہے جس میں کسی بھی وقت کسی بھی مذہب وملت کے لوگ ہوسکتے ہیں۔بس بچتاوہ ہے جس پررب کی نظرِکرم ہو۔
سب کچھ قیدکیاجاسکتاہے،سب کچھ لیکن ایک عجیب سی بات ہے،اسے قیدنہیں کیاجاسکتا،بالکل بھی نہیں،مشکل کیاممکن ہی نہیں ہے۔عجلت نہ دکھائیں،خوشبوکوقیدنہیں کرسکتے آپ! اورپھرخوشبوبھی توکوئی ایک رنگ ایک مقام نہیں رکھتی ناں،بدلتے رہتے ہیں اس کے رنگ،خوشبوکے رنگ ہزار۔بات کی خوشبو،جذبات کی خوشبو،ایثارووفاکی خوشبو۔بس اب آپ چلتے رہئے اوران تمام خوشبوں کی رانی ہے عقائدکی خوشبو،دین کی خوشبو،نظریات کی خوشبو۔یہ خوشبوقیدنہیں کی جاسکتی ،جب بھی دبائیں ابھرتی ہے۔وہ کیایادآگیا:جتنے بھی توکرلے ستم،ہنس ہنس کے سہیں گے ہم”۔جتناخون بہتاہے اتنی ہی خوشبوپھیلتی ہے۔پھرایک وقت ایسابھی آتاہے جب دردخودہی مداوابن جاتاہے دردکا۔ دیکھئے پھرمجھے یاد آ گیا
رنگ باتیں کریں اورباتوں سے خوشبوآئے
دردپھولوں کی طرح مہکے اگرتوآئے
دیکھئے!چراغ کوتوپھونک مارکربجھایاجاسکتاہے،نورکوکون بجھاسکتاہے!جی جناب نورکوتوپھونک مارکرنہیںبجھایاجاسکتا۔اسلام نور ہے، قرآن حکیم نورہے،روشنی ہی روشنی،صراط مستقیم کھراسودا۔۔غزہ والو!تم نے ایک بارپھرسکھادیاکہ اللہ کے راستے میں جان قربان کردیناسب سے بڑااعزازہے۔ ماں باپ،بیوی بچے اورملائکہ بھی استقبال میں کھڑے گواہی دے رہے ہیں کہ بندے نے اپنے رب سے وفاداری کاجوحلف اٹھایاتھا،اس میں وہ کامیاب ہوگیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔