وجود

... loading ...

وجود

امن کی کلید آزاد فلسطینی ریاست

اتوار 15 اکتوبر 2023 امن کی کلید آزاد فلسطینی ریاست

حمیداللہ بھٹی
فلسطین تنازع حل کرنے کے لیے جاری بے نتیجہ سرگرمیوں کے دوران حماس کی ،طوفان الاقصیٰ، کارروائی کوپوری دنیا نے محسوس کیا ہے حالانکہ ماضی میںجھجک کا شکار عرب ممالک بھی اب اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے میں کوئی عارتصور نہیں کرنے لگے تھے حماس کارروائی نے دنیا سمیت تعلقات قائم کرنے کے لیے بے چین عرب ممالک کو بھی جھنجوڑ نے کے ساتھ یہ پیغام دیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے دوریاستی حل فارمولے کے سواکوئی منصوبہ امن کی کلیدثابت نہیں ہو سکتا نیزامن کے لیے حماس جیسی قوتوں کو اعتماد میں لینا ہو گا ۔سامانِ حرب کی قلت کے باجود فلسطین کی مزاحمتی قوتیں کئی عشروں سے مقابلے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ اب بھی اسرائیل کی طرف سے غزہ کے شہریوں کو علاقہ خالی کرنے کے انتباہ کے جواب میںحماس نے اسرائیلی شہر عسقلان کی آبادی کو دوگھنٹے میں شہر چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ لڑائی کاتشویشناک پہلویہ ہے کہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں جاری ہیں اسرائیل نہ صرف فاسفورس بم بلکہ ہر قسم کے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے لیکن عالمی طاقتیں خاموش ہیں حالانکہ فلسطینیوں کامطالبہ ہے کہ اگراُن کاآ زادانہ زندگی گزارنے کا حق تسلیم کرلیاجائے تو وہ امن معاہدے پر آمادہ ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ بات مسلمانوں کی ہو تو امریکہ سمیت چند مغربی ممالک انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے ہی طے کردہ قوانین یکسر بُھلا دیتے ہیں اسی بنا پر فلسطین ،کشمیر ،بوسنیا،میانمار جیسے واقعات میں مسلم نسل کشی ہوتی رہتی ہے۔
اسرائیل کا بظاہرمیدانِ جنگ میں پلڑا بھاری ہے اُس نے نہ صرف غزہ کا مکمل محاصرہ کر لیا ہے سرحد پر نصب150 ایم ایم کی توپیں وقفے وقفے سے گولے برسارہیں جبکہ فضایہ کارپٹڈ بمباری سے عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا رہی ہے شہر میں ادویات،خوراک ،پانی اور بجلی کی کے مسائل پیداہوچکے ہیں قبرستانوں میں دفن کرنے کی جگہ نہیں رہی جبکہ بے شمار لوگ ابھی تک ملبے میں دفن ہیں بجلی اور ادویات نہ ہونے سے ہسپتال بھی مردہ خانے بن چکے ہیں مگر ظالم اور جارح اسرائیل کو کوئی پرواہ نہیں بلکہ حماس حملے کو غنیمت جان کر اِس کوشش میں ہے کہ غزہ سے فلسطینی آبادی کامکمل طور پر ختم کرلے تاکہ آئندہ دنیا اِس حوالے سے کبھی بات ہی نہ کرے میدانِ جنگ میں فاسفورس بموں کے استعمال پر پابندی ہے لیکن اسرائیل دیدہ دلیری سے ایسے تباہ کُن ہتھیار استعمال کرنے کے ساتھ دیگر کیمیائی ہتھیاربے دریغ استعمال کررہا ہے ۔اِس کے باوجودامریکہ ،مغربی ممالک اور بھارت جیسی حکومتیں اسرائیل کی تائید وحمایت میں پیش پیش ہیں امریکہ اوربرطانیہ نے تو اسرائیل کے لیے بڑی مقدار میں ہتھیار بھیج دیے ہیں ۔یہ نرم سے نرم الفاظ میں بھی ظالم کی حوصلہ افزائی ہے روس،چین جیسی طاقتیں قدرے متوازن پالیسی پر عمل پیراہیں اور وہ لڑائی کے خاتمے نیزمغربی ممالک کی طرف سے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرنے پر تنقید کرتی ہیں لیکن روس و یوکرین جنگ کی بناپر یہ ممالک کمزورپوزیشن پرہیں ۔اِس لیے اسرائیل کے حمایتی زیادہ سرگرم ہیں ۔ ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک فلسطینیوں کے ساتھ ہیں لیکن کچھ عرب ممالک اب بھی اسرائیل سے براہ راست ٹکر ائوکے حق میں نہیں۔ مثال کے طورپر متحدہ عرب امارات نے غزہ کے محصورین کے لیے امداد کا اعلان کیا ہے لیکن یہ امداد براہ راست دینے کی بجائے بذریعہ اقوامِ متحدہ بھجوانے کا اعلان کیاہے حالانکہ ہوناتو یہ چاہیے کہ جس طرح امریکہ اور مغربی ممالک کُھل کر اسرائیل کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔ عرب ممالک بھی فلسطینیوں کی اخلاقی اور سفارتی تائید میں واضح موقف اختیار کرتے ہوئے بساط کے مطابق ہتھیار وغیرہ فراہم کرنے کی بھی کوشش کریں تاکہ لڑائی میں اسرائیلیوں کو دندانِ شکن جواب مل سکے مگر دیکھنے میں ایسا کچھ نہیں آرہا۔اب تو اسرائیل نے لبنانی سرحدی چوکیوں کو نشانہ بنانے کے بعد شام کے دوائیرپورٹس بھی حملے سے تباہ کردیے ہیں۔اب بھی اکثر عرب ممالک کوتاہی کے مرتکب ہیں جس کی ایک مثال مصر کی طرف سے رفاہ کراسنگ بند کرنا ہے۔ تاکہ غزہ سے لوگ نکل نہ سکیں جس کا صیہونی ریاست کو کامل ادراک ہے اور وہ اِس کابلادریغ خواتین، بچے، بوڑھے، جوان اور بیمارافراد کوجان سے ماررہا ہے ۔
عرب ممالک میںاسرائیل کو تسلیم کرنے کی دوڑ سے مایوسی کا شکار فلسطینی موت کو اپنا ہتھیار بنا چکے ہیں اور یہ کمزور لوگ جن کے پاس اسلحہ و تربیت کی کمی ہے اب تک طاقتور دشمن کے آگے ثابت قدم ہیں لیکن یسا کتنی دیر رہتا ہے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ اسرائیل کی نوے لاکھ پر مشتمل تمام آبادی فوجی تربیت رکھتی ہے جن کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں اور عالمی طاقتیں بھی پشت پناہی کے لیے موجود ہیں جبکہ مسلم حکومتیں اپنے مسلمان فلسطینی بھائیوں کی عملی مدد کی بجائے لڑائی کے ایام میں بھی گفت و شنید تک محدود ہیں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے رابطے کے دوران کہا ہے کہ اُن کا ملک طوفان اقصیٰ آپریشن میں فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے اُن کے ساتھ کھڑا ہے لیکن فلسطینیوں کو جس قسم کی عملی مدد کی ضرورت ہے اِس حوالے سے دونوں ممالک میں کوئی اتفاق نہیں ہوسکا فلسطینیوں کے اذہان میں یہ خیال راسخ ہوگیا ہے کہ چند عرب ممالک کے حکمران عوامی امنگوںکے برعکس خطے میں دراصل اسرائیل کے سہولت کا رہیں یہ حکمران آزاد فلسطینی ریاست کے بغیرمشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی خواہش کے مطابق امن چاہتے ہیں اسی لیے تنگ آکر کمزور ہونے کے باوجودطاقتور دشمن کے آگے ثابت قدم ہیںپی ایل اوکے سربراہ یاسرعرفات سے بھی مایوس ہو کرہی شیخ احمد یاسین نے حماس جیسی تنظیم بنائی تاکہ عملی طورپر آزاد وطن کی جدوجہدمیں تیزی لائی جا سکے مگر 2004میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کوایک میزائل حملے سے نمازِ فجر کے وقت شہید کر دیاگیا لیکن آزادی کی تحریک کو ختم نہ کیا جا سکا اپنے بانی کی شہادت کے باوجود حماس نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اسرائیل بارے رویہ مزید سخت کرلیا۔
عربوں میں اسرائیلیوں سے شدید نفرت کی لہرمیں ہنوزکوئی کمی نہیں آئی جس کا اسرائیل کوبھی بخوبی علم ہے اسی لیے اپنی حیثیت بارے مسلسل فکر مند ہے اور لاحق خطرات ختم کرنے کے لیے کوشاں رہتاہے اِ س کے لیے وہ ہر فلسطینی کی جان لینے کے درپہ ہے وقفے وقفے سے فضائی اور زمینی حملوں سے نہ صرف انسانی آبادی کا صفایا بلکہ املاک کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرتا رہتا ہے مگر نہ صرف حریت پسندانہ جذبات میں کمی نہیں آئی بلکہ تمام تر قربانیوں کے باوجود مجاہدین ثابت قدم ہیں۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ چند ایک عرب حکمرانوں سے تسلیم کرنے کی سند لینے کی بجائے صیہونی ریاست مان لے کہ امن کی کلید آزاد فلسطینی ریاست ہی بن سکتی ہے۔ اِس طرح ہی اسرائیل کو لاحق خطرات کا خاتمہ ہو سکتا ہے وگرنہ جانی و مالی نقصان اُٹھانے کے باوجود فلسطینی اپنی آزادی کے حق کے لیے لڑتے رہیں گے اور تجارتی و معاشی سرگرمیاں بڑھنے کی بجائے خطہ بدامنی کا مرکز بنا رہے گا ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر