وجود

... loading ...

وجود

ہٹلر نے یہودیوں کو کیوں مارا تھا؟

جمعه 13 اکتوبر 2023 ہٹلر نے یہودیوں کو کیوں مارا تھا؟

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہٹلر نے جب یہودیوں کو مار مار کر تباہ کردیا تھا تو کچھ کو چھوڑ دیا اور ایک تاریخی فقرہ کہا تھا کہ دنیا دیکھ لے کہ میں نے انہیں کیوں مارا تھا ہٹلر کی باتیں بعد میں ۔پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اس وقت فلسطین دنیا کا سلگتا ہوا مسئلہ بن چکا ہے اور عالمی ادارے محض لفظی بیان بازی سے کام لے رہے ہیں۔ غزہ کے لاکھوں افراد کئی سالوں سے ناجائز صہیونی ریاست کے محاصرے میں ہیں۔ مظالم کے باوجود فلطینیوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ آزادی اور قبلہ اول کی حفاظت کے لیے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرکے ثابت کیا کہ جدوجہد اور مزاحمت میں ہی زندگی ہے۔ مصر میں منتخب صدر محمد مرسی کو فلسطینیوں کی مدد کرنے پر اقتدار سے بے دخل کرکے جیل میں ڈال دیا گیا اور وہیں سے ان کاجنازہ اٹھا۔ پاکستانی قوم فلسطین کی آزادی کے مسئلہ پر متحد ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران بھی جرأت کا مظاہرہ کریں ۔ قائداعظم محمد علی جناح نے مسئلہ فلسطین پر گائیڈ لائن دے دی تھی۔ 1967میں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ہمیں اصل خطرہ پاکستان سے ہے۔ مسئلہ فلسطین دو ریاستوں کاتنازع نہیں بلکہ حق اور باطل کے درمیان معرکہ ہے اگر بین الاقوامی لیڈروں میں سے کوئی لیڈر فلسطینی مسئلے کو سمجھا ہے تو وہ مہاتیر محمد سمجھا ہے جو اس وقت جرات مند اسلامی لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس سے قبل عمران خان وہ واحد لیڈر تھا جو اقوام متحدہ کے اجلاس میں اسرائیلی وزیر اعظم کے استقبال کے لیے اٹھا نہیں تھا جبکہ باقی سارے ممالک کے سربراہوں نے اپنی اپنی سیٹوں سے اٹھ کر اس کا استقبال کیا تھا لیکن آج اسی لیڈر کو ہمارے حکمرانوں نے جیل میں ڈال رکھا ہے۔
خیر میں بات کررہا ہوں ایک غیرت مند لیڈر ڈاکٹر مہاتیر محمد کی جنہوں نے کھل کر کہا ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان سات دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری تنازع کا کوئی حل کیوں نہیں نکالاجاسکا جبکہ اس مسئلہ پر سب سے پہلے طاقتور مغربی اقوام اور ان کے ذرائع ابلاغ سمیت ان کے پراپیگنڈہ مشینری کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ منافقانہ، متعصب اور پیتھالوجیکل ہے جنہوں نے تنازع کو حل کرنے کے بجائے اپنے فریب پر مبنی بیانیہ کو جاری رکھنے کا انتخاب کیا کہ یہ دہشت گردوں کے ذریعہ اسرائیل پر حملہ ہے ان کا الزام واضح طور پر حماس، حزب اللہ اور ایران پر عائد کیا جا رہا ہے جنہوںنے مغرب میں خوف پھیلایا ہے اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ جمہوریت اور امن پسند لوگوں پر حملہ ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ امریکہ خاص طور پر فلسطینیوں کے حملوں کے خلاف “جوابی کارروائی” کے لیے اسرائیل کو فوجی مدد فراہم کرنے کا جواز محسوس کرتا ہے۔ اس پراپیگنڈہ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اصل میں یہ صریح جھوٹ ہے جو مغربی رہنماؤں اور ان کے میڈیا نے بے شرمی سے جاری رکھا ہوا ہے۔ اصل میںکئی دہائیوں سے اسرائیلی فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم، قتل عام، نسل کشی اور ناقابل تصور مظالم کا ارتکاب کر رہاہے اور یہ سات دہائیوں سے بغیر کسی وقفے کے منظم طریقے سے انجام دی جاری ہیں فلسطینی زمین کے علاوہ جو اسرائیلیوں نے فلسطین کے سابق قابضین کے ساتھ یکطرفہ معاہدوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر حاصل کی تھی اسرائیلی آباد کار فلسطینیوں کی زمینوں اور کھیتوں پر زبردستی قبضہ کرکے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالا جا رہا ہے اور اسرائیلی حکام سے کسی قسم کامعاوضہ حاصل کرنے کی کسی بھی کوشش کو اسرائیلی سیکورٹی فورسز (IDF) کے ذریعے ناکام بنایا جا رہا ہے اورفلسطینیوں کو کارنر کرکے غزہ کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا مغربی طاقتیں اور امریکہ اس وقت تک نسل پرستی، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے فریق ہیں جب تک وہ غاصب اسرائیلی حکومت کی حمایت کرتے رہیں گے ۔اس لیے ضروری ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان متحد ہوکر اس مسئلہ کو حل کروائیں جبکہ لبنان شام اردن مصر اور دیگر عرب ممالک یہ نہیں سمجھتے کہ اگر فلسطینی ختم ہو گئے تو اس کے بعد یہ تمام ملک بھی ختم کر دیے جائیں گے۔ فلسطینی مسلمانوں کی مزاحمت نے ہی باقی عرب دنیا کو بچایا ہوا ہے اسرائیل کے پھیلنے سے، ورنہ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں دجلہ سے لے کر دریائے نیل تک سارا علاقہ آتا ہے اور شام سے لے کر مدینہ تک یہ جنگ نہ فلسطینیوں نے شروع کی ہے نہ حماس نے نہ ایران نے نہ حزب اللہ نے یہ جنگ اس دن شروع ہوئی تھی جب تاج برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین کا علاقہ دینے کے لیے پہلی جنگ عظیم برپا کی اور خلافت عثمانیہ کو تباہ کیا۔اب فلسطینی مزاحمت کریں یا نہ کریں اسرائیل کے یہودیوں نے عربوں کو ختم کرنا ہی ہے۔ فلسطینیوں اور عربوں کے پاس اب صرف دو ہی راستے ہیں ذلت اور رسوائی سے مارے جائیں یا شیروں اور دلیروں کی طرح لڑتے ہوئے اپنی زمین اپنی عزتوں اور اپنی تہذیب کی حفاظت کریں۔ ایک بات طے ہے کہ یہودی امن سے نہیں رہ سکتے اور نہ ہی وہ کسی عرب مسلمان کو امن سے رہنے دیں گے۔ یہی اب تک انہوں نے ثابت کیا ہے اور جب ایڈولف ہٹلر نے یہودیوں کو تباہ و تاراج کرکے جرمنی سے بھگایا تھا، اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک ان یہودیوں کو پناہ نہیں دے رہا تھا۔ امریکہ فرانس کیوبا، کینیڈا سمیت دیگر ممالک نے یہودی پناہ گزینوں سے کھچا کھچ بھرے جہازوں کو واپس کردیا۔ بالآخر یہ اپنے بڑے بڑے جہازوں پر مرقوم تحریر The German destroyed our families & Homes, “don’t you destroy our Hopes ( جرمنی نے ہمارے گھر بار اور اہل و عیال کو تباہ کردیا ہے آپ ہماری امید کو مت کچلنا) کا اشتہار لگائے پناہ گزین بن کر فلسطین سے مدد لینے کے لئے آئے جسے انسانیت کی بنیاد پر فلسطین نے یہودیوں کو پناہ دے کر نئی زندگی بخشی اور انہیں اپنی زمین گھربار دیے بعد میں یہی وہ صیہونی احسان فراموش پناہ گزین اسرائیلی یہودی ہیں جو اپنے محسن فلسطینیوں کومار کر احسان کا بدلہ چکارہے ہیں۔ 60لاکھ یہودیوں کو مارکر ایک تہائی آبادی ختم کرنے والے جرمن ایڈولف ہٹلر نے کچھ یہودیوں کو زندہ چھوڑتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ان کو زندہ اس لئے چھوڑ رہا ہوں تاکہ دنیا دیکھے کہ میں نے انہیں کیوں مارا تھااور اب دنیا نے دیکھ لیا کہ یہودی کتنے بڑے احسان فراموش ہیں جو اپنے محسنوں کو ہی کچلنے میں مصروف ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر