... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
لاہور پولیس نے سانڈے کا تیل فروخت کرنے والے شخص کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔اس مقدمہ کی تفصیل بعد میں بتائوںگا۔ پہلے صرف اتنا بتانا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے جو درج کیا گیا لاہور کی اب وہ رونقیں ہیں اور نہ ہی کسی کے پاس اتنا وقت ہے۔ آج سے کوئی 15یا 20 سال پہلے بھاٹی چوک کی رونقیں دیکھنے والی ہوتی تھیں۔ انارکلی سے لیکر مینار پاکستان تک سانڈے کا تیل ،سانپوں کی آڑ میں دوائیاں،چیتے کی چربی کا تیل ،ہاتھ کی لکیریں دیکھنے والے نجومی اور منجن بیچنے والوں کی بہتات ہوتی تھی۔ ان افراد کے پاس باتوں کا خزانہ تھا ۔چیتے کے پنجرے کے سامنے کھڑے ہوکر ایک حکیم صاحب اسکی چربی کا تیل بھی فروخت کیا کرتے تھے ۔سانڈے کا تیل تو اکثر یہ لوگوں کے سامنے نکالا کرتے تھے۔ ان دنوں لوگ بھی وقت کی قید سے آزاد ہوا کرتے تھے۔ ایک مجمع میں کھڑے ہوگئے تو تین چار گھنٹے منٹوں میں گزر جاتے تھے۔ سانپوں کا تماشا دکھانے والا ایک پٹاری ہاتھ میں پکڑتا لوگوں کو متوجہ کرتا اور کہتا کہ اس میں وہ سانپ ہے جو افریقہ کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ صرف انسان کو پھونک مار دے تو آگ لگ جاتی ہے، پھر دوسری پٹاری ہاتھ میں پکڑ کر اعلان کرتا کہ اس میں وہ سانپ ہے جو دیکھنے میں چھوٹا لیکن ایک سیکنڈ میں بندے کو مار دیتا ہے۔ وہ انہی چکروں میں دوتین اور سانپ دکھاکر ان کی خصوصیات بتانا شروع کردیتا، ساتھ میں لوگوں کو ساتھ آگے آگے ہونے کا بھی کہتا رہتا اور جو آگے والی لائن ہوتی اسے نیچے بیٹھنے کو کہتا یوںتقریبا ایک گھنٹے کے اندر اندر سانپوں کا تماشا دکھانے والا اپنے ارد گرد درجنوں لوگ جمع کرلیتا اسی مجمع میں جیب تراش بھی ہوتے تھے جو موقع غنیمت جان کر سادہ لوح لوگوں کی جیبیں صاف کرجاتے جبکہ کچھ ٹھرکی مزاج لوگ اسی مجمع میں سے اپنے مطلب کے آدمی بھی ڈھونڈ نکالتے تھے ،خیر بات سانپوں والے کی ہو رہی ہے تو جب وہ دیکھتا کہ اب لوگوں کو ان سانپوں کو دیکھنے کا جوش بڑھتا جارہا ہے جو اس نے بار بار پٹاری لہرا کرلوگوں کو دکھانے کا وعدہ کررکھا ہے اسی دوران وہ سانپوں کی بات کو پلٹتے ہوئے اپنے اصل مقصد کی طرف آجاتا اور ساتھ ہی کوئی نہ کوئی معجون ،پھکی ،کیپسول یا پھر سنہرے رنگ کی بنی ہوئی گولیاں نکال کر اس کے فائدے گنوانا شروع کردیتا ۔وہ اپنی بنائی ہوئی دوائی کے اتنے فائدے بتاتا کہ اس مجمع میں سے تقریبا آدھے لوگ اس سے دوائی خرید لیتے۔ اگر کسی کو خود کوئی مرض نہ ہوتا تو وہ اس خدشے سے خرید لیتا تھا کہ کل کو یہ دوائی کام آئے گی اور بعض لوگ اپنے بزرگوں کے لیے وہ دوائی خرید لیتے۔ اسی طرح سانڈے کا تیل بیچنے والے بھی شروع شروع میں مجمع لگاتے تھے اور یہ تیل انہوں نے اتنا مشہور کردیا تھا کہ پھر اسکے مجمع لگانے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ لوگ خود ہی سمجھدار ہو گئے۔ وہ سیدھے ان کے پاس جاتے ۔اپنی کمزوری بتاتے اور پھر تیل لیکر مالش شروع کردیتے۔ اس تیل کا فائدہ اور نقصان کا تو علم نہیں لیکن سانڈے کا تیل مشہور بہت ہوگیا ۔
میرا جب کبھی راولپنڈی /اسلام آباد کا چکر لگتا تو فیض آباد چوک میں بھی اسی طرح کے مجمع باز دکھائی دیتے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ کام پورے ملک میں پھیل گیا ۔ان مجمع بازوں اور ہمارے سیاستدانوں کی باتوں میں بھی کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا ایک ہی کام ہے عوام کا وقت ضائع کرنا اور اپنی جیب گرم کرنادونوں اس میں کامیاب رہے۔ دونوں کا کام لوٹنا ہی ہے جو عرصہ دراز سے سادہ لوح عوام کو باتوں میںلگا کر لوٹ رہے ہیں۔
یہی مقدمہ جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار درج ہوا شروع میںہی ایسے مقدمے درج ہو جاتے تو آج سانپ دکھا کر منجن بیچنے والوں کا صفایا ہوچکا ہوتا ۔کیمیکل سے تیار کیے ہوئے انکے منجن نے ناجانے کتنے لوگوں کے دانت خراب کردیے۔ جس طرح ہمارے لوٹ مار کرنے والے سیاستدانوں ،بیوروکریٹوں اور حکمرانوں نے عوام کا جینا عذاب بنا دیا ہے۔ ہمارے ہاں ان جرائم کا کوئی علاج نہیں۔ ہم انتقام کی سیاست میں ایک دوسرے کو پھانسی تک چڑھا دیتے اور جنہیں پھانسی دینی چاہیے انہیں پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا اس لیے بھی پہلا مقدمہ ہے کہ اس طرح کے کاموں کو ہم جرم سمجھتے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے کمزور افراد ایسے نسخے ڈھونڈتے پھرتے ہیںجس سے انہیں توانائی محسوس ہو، اسی طرح اعلی عہدوں پر بیٹھے ہوئے کمزور مالی صورتحال رکھنے والے لوگ ایسے سیاستدان ڈھونڈتے ہیں جن کے پاس مال کمانے کے نسخے موجود ہوں پھر وہ انکے ساتھ مل کر ایسی لوٹ مار کرتے ہیں کہ ملک مقروض ،عوام بدحال ، بدمعاشی سرعام اور غریب پریشان ہیں۔سانڈے کا تیل بیچنا واقعی سنگین جرم ہے تو پھر لوٹ مارکرنے والوں پر بھی قدغن لگائی جائے کہ اب بس کریں بہت لوٹ لیا، بہت مجمع بازی کرلی اور بہت عوام کا تیل نکال لیا۔خدارا رحم کریں ہم اپنے ہی ملک میںاپنے ہی لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ کبھی سانڈے کا تیل فروخت کرکے تو کبھی عوام کا تیل نکال کر اگر یہ نظام ایسے ہی چلتا رہا توپھر بہت جلد اس طبقے کی بھی باری آجائے گی جن کی وجہ سے آج ملک کے یہ حالات ہو چکے ہیں۔ آج ہر طرف لوٹ مار کا سلسلہ ہے جہاں جس کا بس چلتا ہے وہ ہاتھ دکھا جاتاہے بعض اوقات تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہمارے ہاںکوئی قاعدہ ہے نہ ہی کوئی قانون ہے، بس جسکا مجمع بڑا ہوتا ہے وہی اپنا سودا بیچ جاتا ہے۔
اب آخر میں منفرد خبر بھی پڑھ لیں لاہور پولیس نے انسدادِ جانور ایکٹ 1890ے کے تحت دوسرا مقدمہ درج کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔ٹریفک وارڈن کی مدعیت میں درج کیا جانے والا یہ مقدمہ لاہورکی نشترکالونی میں سانڈے کا تیل فروخت کرنے پر درج کیا گیا۔ مقدمہ اینیمل ریسکیو ایکٹ 1890ء کے تحت درج کیا گیا۔ پولیس کے مطابق سانڈے کا تیل فروخت کرنے والے ملزم اسلم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق تیل فروخت کرنے والے ملزم کے قبضے سے ایک سانڈہ مردہ اور دوسرا زندہ حالت میں برآمد کیا گیا۔لاہور میں اینیمل ایکٹ کے تحت 134 سال بعد درج کیا جانے والا یہ دوسرا مقدمہ ہے۔ اس سے پہلے 28 ستمبر 2023ء کو لاہور میں شکیل نامی رہائشی کے خلاف گھر کی چھت پر پرندوں اور جانوروں کو لاغر حالت میں رکھنے پر انسدادِ تشدد جانور ایکٹ 1890ے کے تحت پہلی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ کاش انتقام سے ہٹ کر عوام کا تیل نکالنے والوں کے خلاف بھی کوئی مقدمہ درج ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔