... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محسن پاکستان اور پاکستان میں ایٹمی ہتھیاروں کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی 10اکتوبر کو دوسری برسی ہے ۔ ہماری حکومتوں نے تو انہیں نظر انداز کرنا ہی تھا۔ ساتھ میں سیلفی کی شوقین عوام نے بھی انہیں بھلا دیا۔ یہ وہ شخصیت تھی جس نے اپنا آرام ،عیش وعشرت اور سکون پاکستان پر قربان کردیا ۔پاکستان کی تاریخ میں تین نام نہ ہوتے توشائد ہم کبھی بھی ایٹمی قوت نہ بن پاتے۔ پہلا نام محسن پاکستان کا دوسرا نام میاں عبدالوحید کا اور تیسرا نام سیٹھ عابد کا۔ تینوں اس وقت آسودہ خاک ہیں۔ بلا شبہ ذوالفقار علی بھٹو ،ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کا بھی اس میں بہت بڑا کردار ہے۔ لیکن یہ جو تینوں نام ہیں وہ اپنے حصے کا کام نہ کرتے تو آج ہم اسلامی دنیا کے پہلے جوہری ملک نہ کہلا پاتے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہماری حکومتوں نے نظر بند رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں ذہنی طور پر اذیت بھی دی تو اسکے ساتھ ساتھ عوام نے بھی انکا ساتھ نہیں دیا۔ بعض اوقات تو ایسے لگتا ہے کہ ہم بطور پاکستان اپنے ساتھ مخلص ہیں نہ ہی ملک کے ساتھ اگر مخلص ہیں تو لٹیروں ،ڈاکوئوں ، چوروں اور ٹھگوں کے ساتھ مخلص ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان کو برباد کیا بلکہ بطور قوم ہمیں بھی بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بنا دیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان سے جتنا پیار کرتے تھے شائد ہی کوئی اور کرتا ہوں اور انکی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو دنیا کا نمبر ون ملک بنا دیا جائے جس طرح انہوں نے اپنے حصے کا کام خوبصورتی سے سرانجام دیا بلکل اسی طرح وہ پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکالنا چاہتے تھے پاکستان کی سیاست میں نوجوان ایم این اے خورشید خان نے انہیں اپنی سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دیا تو یہ بات انہیں پسند آئی، یوں انہوں نے تحریک تحفظ پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بنیاد رکھی انکے اس مشن میں شامل ہونے کے لیے مجھے بھی دعوت دی گئی جسے میں نے ایک اعزاز سمجھتے ہوئے قبول کیا ۔یوں مجھے پارٹی میں مرکزی سیکریٹری اطلاعات سمیت انچارج میڈیا سیل پنجاب بھی نامزد کردیا گیا ۔پارٹی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کروادی گئی اور میزائل انتخانی نشان الاٹ ہوگیا الیکشن آیا ہماری پارٹی نے ملک بھر میں اچھی شہرت کے حامل پڑھے لکھے لوگوں کو ٹکٹ دیے۔ بدقسمتی سے لوگوں نے ووٹ ہی نہیں دیا۔ ہماری پارٹی کے سبھی امیدواروں کی ضمانتیں تک ضبط ہو گئی۔ اس الیکشن میں پہلے ڈاکٹر صاحب نے خود بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیا لیکن پھر باہمی مشاورت سے انہیں فی الحال الیکشن نہ لڑنے کا مشورہ دیا گیا الیکشن ہو گئے اور نتیجہ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب افسردہ ہوگئے ۔کہنے لگے کہ ویسے تو لوگ مجھے محسن پاکستان کہتے ہیں ،جہاں جاتا ہوں میرے ہاتھوں کو چومتے ہیں۔ میرے نام پر ادارے بنا رکھے ہیں اور مختلف چوک چوراہوں کو میرے نام سے منسوب کررکھا ہے لیکن ووٹ نہیں دیتے ۔یہ کیسی منافقت ہے کیا میں نے اپنے لیے الیکشن لڑا تھا ۔میں تو پاکستان کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لانا چاہتا تھا ۔ عوام کی تقدیر بدلنا چاہتا تھا اور لٹیروں سے انکی جان چھڑوانے آیا تھا اس کے بعد انہوں نے پارٹی ختم کرنے کا اعلان کردیا پھر الیکشن کمیشن میں بھی درخواست دیکر پارٹی کو کینسل کروادیا یوں وہ سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ ہوگئے پارٹی ختم کرنے کے بعد انہوں نے مجھے
اپنا ترجمان بنا لیا اور عہدیداروں کا رش بھی ختم ہوگیا ان پر پابندیاں پہلے بھی تھی اور بعد میں انکی موت تک رہیں وہ عدالتوں میںبھی گئے۔ لیکن پاکستان کو دنیا کی غلامی سے آزاد کروانے والا محسن خود قید میں رہا وہ بھی اپنوں کی اس دوران میں لاہور سے جب بھی اسلام آباد جاتا تو ان سے ملاقات ضرور کرتااکثر ہم دونوں گھر کے برآمدے میں کرسیوں پر بیٹھ جاتے اور گھنٹوں باتیں کرتے رہتے شام کو سامنے کی دیوار پھلاند کربندر بھی انکے پاس آجاتے جنہیوں وہ مونگ پھلی ڈالتے رہتے اور ساتھ مجھے اپنی زندگی کے قصے بھی سناتے ڈاکٹر صاحب نے جب پارٹی بنائی تو اسکے بعد لاہور سے میرے ایک سیاسی دوست امجد گولڈن نے میری ملاقات میاں عبدالوحید سے کروائی جو لاہور سے متعدد بار ایم این اے منتخب ہو چکے تھے اور مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر بھی رہے یہ انہی تین کرداروں میں سے ایک تھے جنکی وجہ سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا میں نے انہیں جب بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے سیاسی پارٹی بنا لی ہے اور وہ آنے والے الیکشن میں حصہ لیں گے اور میری خواہش ہے کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں پہلے تو انہوں نے انکار کیا کہ میں اب بہت عرصہ سے سیاست سے کنارہ کش ہوچکا ہوں لیکن میرے اثرار پر انہوں نے حامی بھر لی میں نے ڈاکٹر صاحب کو انکے بارے میں بتایا تو انہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور پھر ڈاکٹر صاحب کو دورہ لاہور کی دعوت دیدی اس دور میں بھی ان پر سختیاں تھیں انہیں گھر سے باہر نکلنے کے لیے بھی اجازت لینا پڑتی تھی وہ لاہور آئے تو میاں عبدالوحید کے سیاسی ڈیرے مال روڈ پر نہر کنارے ملاقات طے پائی اس ملاقات میں ڈاکٹر صاحب ،چوہدری خورشدی زمان سیکریٹری جنرل ،ڈاکٹر رفیق غنچہ ایڈیشنل سیکریٹری جنرل اور میں بطور سیکریٹری اطلاعات موجود تھامیاں عبدالوحید نے پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا مٹھائیاں بانٹی گئی اور مبارک باد کے پیغاما ت وصول کیے اسی دن میاں صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں بتایا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جب پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے اپنی خواہش پر مبنی خط لکھا تو وہ بطور سفیر مجھے ملا میں نے اسے پڑھا اور پھر اس خط کو وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو بھیج دیا حالانکہ اس طرح کے خطکو ہم ردی کی ٹوکری میںبھیک دیا کرتے ہیں وہ اس لیے کہ ہمیں بہت سے خط ملتے رہتے ہیں جن پر بہت کچھ لکھا ہوتا ہے لیکن اس خط کو پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب ملک کے لیے کچھ کرسکتے ہیں اگر وہ خط بھی ردی کی ٹوکری کی نظر ہوجاتا تو اسکے بعد شائد ڈاکٹرصاحب بھی دوبارہ خط نہ لکھتے وہ وہیں اپنے کام میںمگن ہوجاتے دوسرا کردار سمگلر سیٹھ عابد کا تھا جنہوں نے ایٹمی طاقت بنانے کے لیے سامان مختلف زرائع سے خفیہ طور پر پاکستان پہنچایا یہ کردار بھی نہ ہوتا تو شائد ہم آج بھی ایٹمی قوت نہ ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنے محسنوں کے ساتھ بھی بے وفائی کی یہ لوگ نہ ملک چھوڑ کر بھاگے نہ ہی ڈاکے ڈالے اور نہ ہی پاکستان کے خلاف کوئی کام کیاننگے پائوں پاکستان آنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جسم میں پاکستان کی مٹی کی خوشبو رچ بس گئی تھی شدید ترین مشکلات میں بھی انہوں نے پاکستان میں ہی رہنا پسند کیایکم اپریل 1936 کو بھوپال میں پیدا ہونے والے محسن پاکستان آخر کار 10 اکتوبر 2021 کو اسلام آباد میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے جنہیں ایچـ8 قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
وطن کی مٹی گواہ رہنا
تیرے لیے ہی جیے تھے ہم
اور تیری ہی خاک میں سوگئے ہیں